#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالمؤمنون ، اٰیت 68 تا 77
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ
سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
افلم
یدبرواالقول
ام جاءھم مالم
یؤت اٰباء ھم الاولین
68 ام لم یعرفوارسولھم
فھم لهٗ منکرون 69 ام یقولون
بهٖ جنة بل جاء ھم بالحق و اکثرھم
للحق کٰرھون 70 ولواتبع الحق اھواءھم
لفسدت السمٰوٰت والارض ومن فیھن بل اٰتینٰھم
بذکرھم فہم عن ذکرھم معرضون 71 ام تسئلھم خرجا
فخرج ربک خیر وھو خیرالرازقین 72 وانک لتدعوھم الٰی
صراط مستقیم 73 وان الذین لایؤمنون بالاٰخرة عن الصراط
لنٰکبون 74 ولورحمنٰھم وکشفنا بابھم من ضرللجوا فی طغیانھم
یعمھون 75 ولقد اخذنٰھم بالعذاب فمااستکانوالربھم وما یتضرعون
76 حتٰی اذا فتحناعلیھم باباذاعذاب شدید اذاھم فیه مبلسون 77
کیا مُنکرینِ حق نے عملی زندگی کے اِس خاص پہلو پر بھی غور نہیں کیا کہ اِن
لوگوں کو بارگاہِ حق سے فہمِ حق کا وہ زمانہ ملا ھے جو اِن کے آباو اَجداد
کو نہیں ملا اور اِن لوگوں کو باگاہِ حق سے کتابِ حق کا وہ زمانہ ملا ھے جو
اِن کے آباواَجداد کو نہیں ملا لیکن اِس کے باوجُود بھی یہ لوگ قبولِ حق سے
عاری کے عاری اور انکاری کے انکاری ہی رھے ہیں بلکہ اِن کا تو حال یہ ھے کہ
یہ اپنے رسول کو مردِ مجنون کہتے ہوۓ بھی کوئی شرم محسوس نہیں کرتے ، اگرحق
کے اَمرِ حق کو اِن کی ہوا و ہوس کے تابع کردیا جاتا تو زمین و آسمان اور
اِن دونوں کے درمیان موجُود اَشیاء کا نظم درھم برھم ہو جاتا اور دینِ حق
انسان کے لیۓ ھماری وہ نصیحت ھے جس نصیحت کو ھم نے انسان پر ایک سادہ سے
اصول کی صورت میں پیش کیا ھے لیکن یہ حق گریز لوگ اَمرِ حق سے اِس طرح
بھاگے چلے جا رھے ہیں کہ جیسے آپ نے اِس کارِ حق کا اِن سے کوئی معاوضہ
مانگ لیا ہو حالانکہ یہ لوگ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ آپ کو اِس بہتر کام
کا بہتر معاوضہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی اور دے ہی نہیں سکتا ، آپ اِن
لوگوں کو راہِ حق پر لانا چاہتے ہیں لیکن یہ لوگ چونکہ اِس زندگی کے بعد
ملنے زندگی پر اور اُس زندگی میں اِس زندگی کے بارے میں ہونے والے سوال و
جواب کے یقین سے بے یقین ہیں اِس لیۓ یہ حق کے اِس سیدھے راستے پر آنے سے
گریز پا ہیں ، اگر ھم اِن لوگوں پر مہربانی کرکے اِن کو رَنجِ دُنیا سے
نجات دے دیتے تو یہ پھر بھی اپنی اسی سرکشی میں مُبتلا ہوتے اور مُبتلا
رہتے ، اِس لیۓ پہلے ھم نے اِن پر اپنی گرفت سخت کی لیکن جب اِن لوگوں نے
اِس گرفت کے بعد بھی اپنے پروردِ گار کے سامنے عاجزی اختیار نہ کی تو ھم نے
اِن پر زندگی کی اذیت کا پُورا دروازہ کھول دیا ھے اور اِس کے بعد یہ لوگ
یاس کے ایک بے آس طوفان میں گھر کر رہ گۓ ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
زمان و مکان کی فطری رفتار کے مطابق زمان و مکان کا جو جو لَمحہ عھدِ ماضی
سے اُبھر کر عھدِ حال میں آتا ھے اور جو جو لَمحہ عھدِ حال سے گزر کر عھدِ
مُستقبل میں جاتا ھے تو زمان و مکان کا وہ لَمحہ انسان کے لیۓ پہلے سے
زیادہ قابلِ فہم ہو جاتا ھے اور زمان و مکان کی اِسی فطری رفتار سے فطرت کا
یہ اصول انسانی نگاہ میں آتا ھے کہ زمانے میں ہر آنے والا زمانہ ہر جانے
والے زمانے سے ایک بہتر زمانہ بن کر آتا ھے ، قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا
میں فطرت کے اسی اصول کے تحت انسان کو یہ نوشتہ فطرت یاد کرایا ھے کہ زمان
و مکان کے جس ترقی یافتہ دور میں اللہ تعالٰی نے اہلِ زمین پر آخری بار
قُرآنِ کریم نازل کیا ھے زمان و مکان کا یہ ترقی یافتہ دَور فہمِ قُرآن کا
وہ آخری اور قابلِ ذکر دور ھے جس آخری اور قابلِ ذکر دور میں انسانی عقل
قابلِ ذکر حد تک فہمِ قُرآن کے قابل بنا دی گئی ھے اور اِس دور میں جو
انسان قُرآن کو سمجھنا چاہتا ھے اُس انسان کے لیۓ فہمِ قُرآن کے وہ سارے
وسائل اور ذرائع بھی پیدا کردیۓ گۓ ہیں جو وسائل و ذرائع اپنے وقت کے
اعتبار سے اپنے وقت میں فہمِ قُرآن کے لیۓ لازمی وسائل و ذرائع ہوتے ہیں
لیکن اگر انسان اِس حقیقت کے باوجُود بھی جو انسان قُرآن کو سمجھنا نہیں
چاہتا تو اُس انسان کو قُرآن کے ساتھ کی جانے والی اپنی اِس بغاوت و سرکشی
کا اپنے اپنے زمانے میں وہی خمیازہ بُھگتنا پڑے گا جو ہر زمانے کی ہر حق
گریز قوم اپنے اپنے زمانے میں ہمیشہ بُھگتتی رہی ھے اور ہمیشہ ہی بُھگتتی
رھے گی ، قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا میں انسان کو سب سے پہلے تو اِس حقیقت
سے آگاہ کیا ھے کہ قُرآن اپنے آخری اور حتمی متن کے ساتھ دُنیا میں اُس وقت
نازل کیا گیا ھے جب انسانی عقل اپنے بچپن کی حَد سے نکل کر اپنے بلوغ کی
سرحد تک پُہنچ گئی ھے اور اِس دور کے اِس انسان کی اِس عقلِ تام کے باعث
اِس دور کے اِس انسان کے لیۓ قُرآن کی تفہیم اُن پہلے لوگوں کے مقابلے میں
زیادہ آسان ہوگئ ھے جن کی عقل خام کی وجہ سے اُن کو قُرآنِ کریم کے کُچھ
اَجزاۓ کلام دیۓ جاتے تھے جب کہ موجُودہ دور کی عقلِ تام رکھنے والی
اَقوامِ عالَم کو قُرآن کا مُکمل مجموعہِ خیال دے دیا گیا ھے تاکہ وہ پہلے
اِس کلامِ حق کو خود سمجھیں اور اِس کے بعد دُوسری اَقوامِ عالَم کو بھی
یہی کلامِ حق سمجھائیں ، اٰیاتِ بالا میں انسان کو دُوسری بات یہ بتائی گئی
ھے کہ قُرآنِ کریم اہلِ زمین پر اللہ تعالٰی کے آسمانی قانون کے طور پر
نازل کیا گیا ھے اور اہلِ زمین پر عملی طور پر نافذ کرنے کے لیۓ نازل کیا
گیا ھے ، اگر اِس آسمانی قانون کو اہلِ زمین کی خواہشات کے تابع کر دیا
جاتا تو زمین و آسمان کا نظم درھم برھم ہوکر رہ جاتا اور قُرآنِ کریم نے
اٰیاتِ بالا میں انسان کو جو تیسری بات سمجھائی ھے وہ یہ ھے کہ ماضی میں جو
لوگ اللہ تعالٰی کے قانون سے بغاوت کرتے تھے اُن لوگوں کو اِس دُنیا میں ہی
مُختلف صورتوں میں مُختلف سزائیں دے دی جاتی تھیں اور حال و مُستقبل میں جو
لوگ اللہ تعالٰی کے اِس قانون سے بغاوت کریں گے تو اِن لوگوں کو بھی اسی
دُنیا میں مُختلف صورتوں میں وہی مُختلف النوع سزائیں دی جائیں گی جو پہلے
لوگوں کو دی جاتی تھیں اور جب قدرت کی طرف سے حق کہ کسی دُشمن قوم پر اذیتِ
حیات کا یہ دروازہ کھول دیا جاتا ھے تو اُس قوم کا ہر فرد یاس کے اُس بے آس
طوفان گھر کر رہ جاتا ھے جس سے نکلنا اُس کے لیۓ مُمکن نہیں ہوتا !!
|