#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالمؤمنون ، اٰیت 62 تا 67
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
لانکلف
نفسا الّا
وسعھا ولدینا
کتٰب ینطق بالحق
وھم لا یظلمون 62
بل قلوبھم فی غمرة من
ھٰذا ولھم اعمال من دون
ذٰلک ھم لھا عٰملون 63 حتٰی
اذا اخذنا مترفیھم بالعذاب اذا
ھم یجئرون 64 لاتجئرالیوم انکم
منا لاتنصرون 65 قدکانت اٰیٰتی تتلٰی
علیکم فکنتم علٰی اعقابکم تنکصون
66 مستکبرین بهٖ سٰمراتھجرون 67
اہلِ زمین کی آزمائش کے بارے میں ھمارا طرزِ عمل یہ ھے کہ ھم کسی انسان کو
اُس کے حوصلہِ جان سے بڑے امتحان میں نہیں ڈالتے کیونکہ ھمارے پاس ایک ایسی
کتابِ حق موجُود ھے جو ھمارے کارکنانِ قضا و قدر کی حق و سَچ کی طرف اِس
طرح رہنمائی کرتی ھے کہ اُس کی اُس رہنمائی کی بدولت کسی انسان کے ساتھ
کوئی ظُلم ہو ہی نہیں سکتا لیکن انسانی جماعت کا معاملہ یہ ھے کہ اِس کے
اکثر آسُودہ حال لوگوں کے دل حق سے ہٹے ہوۓ ہوتے ہیں اور اِس خرابی کے
علاوہ بھی انسان ایسے بہت سے اعمال اَنجام دیتے رہتے ہیں جو قابلِ گرفت
ہوتے ہیں اور جب انسان اپنے اِن اعمال میں حَد سے بڑھ جاتے ہیں تو ھم بھی
اِس انسانی جماعت کے آسُودہ حال لوگوں کو اپنی سزا کے اُس بیلنے میں بیل
دیتے ہیں جس بیلنے میں آتے ہی وہ بِلبِلا اُٹھتے ہیں ، اور قیامت کے دن جب
یہ بُرے انسان اپنے بُرے اعمال کی پکڑ میں آجائیں گے تو ھم اِن سے کہیں گے
آج تُم اپنی اِس ساری آہ و زاری کے باوجُودبھی ھماری مدد سے محروم رہو گے
کیونکہ آج تُم ھماری مدد کے دائرے سے نکل کر ھماری سزا کے دائرے میں داخل
ہو چکے ہو اور آج تُم اپنے ساتھ اپنا وہ نوشتہِ ماضی بھی لے کر آۓ ہوۓ ہو
جو اِس اَمر کی شہادت دیتا ھے کہ دُنیا میں جب بھی تُم کو ھمارے نمائندے
ھمارے اَحکام سنانے تھے تو تُم ہمیشہ ہی حق سے سرکشی کرتے ہوۓ اپنی ایڑیوں
پر گُھوم کر بھاگ جاتے تھے اور تُم ہمیشہ ہی حق کے خلاف بَدزبانی کر کے حق
سے دُور ہوتے رہتے تھے یہاں تک تُم حق سے دُور ہوتے ہوتے آج اُس جگہ پر
آچکے ہو جس جگہ پر آنے والوں کا وہی اَنجام ہوتا ھے جو تُم دیکھ رھے ہو !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
خوشی و غمی انسان کے وہ قلبی و رُوحانی اَحوال ہیں جو انسان کے اعمالِ خیر
کا نتیجہِ خیر یا انسان کے اعمالِ شر کا نتیجہِ شر بن کر اُس وقت تک انسان
کے خیال میں پر آتے رہتے ہیں جس وقت تک انسان کے اعمالِ خیر و شر انسان کے
وجُود میں جاری رہتے ہیں ، اٰیاتِ بالا کا موضوعِ سُخن انسانی خوشی و غمی
کے یہی اعمال و نتائجِ اعمال ہیں جو انسانی احساس میں کبھی ایک گُلِ راحت
بَن کر اور کبھی ایک خارِ رَنج بَن کر آتے رہتے ہیں اور انسان یہ نہیں
جانتا کہ راحت کا جو احساس اِس کے دل میں آیا ھے وہ اِس کے کون سے عملِ خیر
کا نتیجہِ خیر ھے اور رَنج کا جو دَرد اِس کی رُوح میں اُترا ھے وہ اِس کے
کون سے عملِ شر کا نتیجہِ شر ھے حالانکہ اللہ تعالٰی نے انسان کو جو فہم و
شعور دیا ھے وہ اِسی غرض سے دیا ھے کہ انسان اپنے اعمالِ خیر و شر کے
نتائجِ خیر و شر پر نظر رکھے اور اپنے اُس عقلی و عملی اور بصری و نظری
تجربے کے مطابق عمل کرے جو اُس کے تجربے میں آۓ اور اُس کے مُثبت و مفید
عمل کا ایک ایسا مُثبت و مفید نتیجہِ عمل لے کر سامنے آۓ جو اُس کے لیۓ
نفعے کا باعث ہو نقصان کا باعث نہ ہو ، مذاہبِ عالَم کے روایتی نمائندے
انسان کے اِن اعمال و نتائج کے اِن عملی اَحوال کو انسان پر اللہ تعالٰی کی
طرف سے آنے والی وہ آزمائش قرار دیتے ہیں جس آزمائش کے ذریعے اللہ تعالٰی
انسان کی کامیابی و ناکامی کو جاننا چاہتا ھے لیکن قُرآنِ کریم مذاہبِ
عالَم کے اِن نمائندوں کے اِن خیالات کی نفی کرتا ھے اور اِس دلیل کے ساتھ
نفی کرتا ھے کہ انسان چونکہ اپنے تمام مُثبت و مَنفی اعمال خود اَنجام دیتا
ھے اِس لیۓ وہ اپنے اِن تمام مُثبت و مَنفی اعمال کے تمام مُثبت و مَنفی
نتائج کا ذمہ دار بھی خود ہی ہوتا ھے اور اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا کے
مطابق اللہ تعالٰی تو انسان کے اِن اعمال میں صرف اُس وقت مداخلت کرتا ھے
جب انسان اپنے کسی نقصان دہ عمل کے نقصان دہ نتیجے کا شکار ہوکر کوئی نقصان
اُٹھاتا ھے اور اُس وقت اللہ تعالٰی انسان کے اُس نتیجہِ عمل کی شدت کو کم
کر کے اُس کی شدتِ درد کو کم سے کم کرتا ھے تاکہ انسان ٹُوٹ پُھوٹ کر کہیں
بالکُل ہی ناکارہ نہ ہو جاۓ اور انسان کے ساتھ قُدرت کے اِس حُسنِ سلوک کا
یہ معاملہ اُس کی اُس خود کار کتابِ فطرت کے ایک خود کار نظام کے تحت خود
سے خود ہی ظاہر ہوتا رہتا ھے جو نظام قُدرت نے اُس کی کتابِ فطرت میں اُس
کے لیۓ پہلے سے ترتیب دیا ہوا ہوتا ھے تاکہ انسان و حیوان یا کسی بھی مخلوق
کی کسی جنس یا فرد کے ساتھ کسی بھی وقت کوئی ناانصافی نہ ہو سکے اور قُدرت
کے اِس خود کار نظام سے انسان کو یہ بات بخوبی سمجھ آجاتی ھے کہ انسان پر
جو بھی رَنج و اَلم آتا ھے وہ اُس کے اپنے اعمال کا اپنا ہی ایک نتیجہ عمل
ہوتا ھے اور اللہ تعالٰی انسان کے اِن معاملات میں صرف اُس وقت مداخلت کرتا
ھے جب انسان حَد سے بڑھ جاتا ھے اور حَد سے بڑھ کر خود کو کوئی بیحد تکلیف
پُہنچانے پر تُل جاتا ھے ، انسان کو انسان کی کسی بد عملی کی سزا تو اسی
دُنیا میں دے دی جاتی اور کسی بد عملی کی سزا یومِ حساب پر چھوڑ دی جاتی ھے
، جہاں تک انسان پر اللہ تعالٰی کی طرف سے عائد کی گئی دینی و اَخلاقی ذمہ
داریوں کا تعلق ھے تو یہ بات اٰیاتِ بالا کے آغاز میں ہی بتا دی گئی ھے کہ
اہلِ زمین کے ساتھ ہمیشہ سے ھمارا طرزِ عمل یہ رہا ھے کہ ھم کبھی بھی کسی
انسان کو اُس کے حوصلہِ جان سے بڑے امتحان میں نہیں ڈالتے !!
|