امریکہ کے باسی اشرف گِل کی آپ بیتی (حصہ اول: گاؤں سے لاہور تک)
(Dr Rais Samdani, Karachi)
|
امریکہ کے باسی اشرف گِل کی آپ بیتی (حصہ اول: گاؤں سے لاہور تک) ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی آپ بیتی یا خود نوشت وہ تحریر ہوتی ہے جو لکھنے والا از خود اپنی زندگی کے نشیب و فراز، خوشی و خمی، منفی اور مثبت باتیں، تجربات، واقعات، مشاہدات، محسوسات، تعلیم، کسب معاش، گھریلوزندگی کے اہم واقعات کی ایک مربوط کہانی قلم بند کرے، اسے یادداشتیں بھی کہا گیا ہے۔ سوانح عمری یا خودنوشت کو نثری اصناف میں سب سے زیادہ پسندیدہ صنف تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ یہ تحریر دل چسپ، دل آویز، خو ش گوار اور شوق انگیز صنف شمار ہوتی ہے۔خود نوشت کے بارے میں ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد ؔ نے اپنی کتاب ’اصناف ِ ادب: تفہیم و تعبیر‘ میں سید ابو لحسن علی ندوی کی یہ رائے تحریر کی ہے کہ ’اگر یہ سوال کیا جائے کہ ادب و انشا اور تاریخ و تذکرہ کے اصناف میں سے زیادہ دل چسپ، دل آویز، خو ش گوار اور شوو انگیز صنف کون سی ہے تو شاید اکثر اہل ذوق کا جواب یہی ہوگا کہ ایک اچھے صاحب قلم اور ادیب کے قلم سے نکلی ہوئی آپ بیتی“۔اردو میں خود نوشت کا آغاز جعفر تھانیسری کی ’تواریخ عجائب‘ معروف بہ ’کالا پانی‘ سے ہوا بعد میں متعدد اہل علم اور لکھاریوں نے اپنی اپنی آپ بیتیاں قلم بند کیں۔ان میں بعض معروف آپ بیتیوں میں اعمال نامہ سر رضا علی،مشاہدات۔ نواب ہوشیار جنگ ہوش بلگرامی،ناقابل فراموش۔ سردار دیوان سنگھ مفتون، خون بہا۔ حکیم احمد شجاع،سر گزشت۔ مشتاق احمد یوسفی،یادوں کی دنیا۔ ڈاکٹر یوسف حسین،زرگزشت۔ سید ذوالفقار علی بخاری،یادوں کی مالا۔ جوش ملیح آبادی،جہانِ دانش۔ احسان دانش،شہاب نامہ۔ قدرت اللہ شہاب اور دیگر احباب کی سوانح عمریاں شائع ہوچکی ہیں۔ سوانح عمری کے بارے میں ایک عام بات یہ مشہور ہے کہ ریٹائرمنٹ یا عمر کے آخری حصہ میں ہو وہ جو قلم چلاناجانتا ہوں، وہ از خود یا احباب یہی مشورہ دیتے ہیں کہ اپنی سوانح عمری لکھیں، یہ کوئی بری بات بھی نہیں۔ میں نے اپنی آپ بیتی کتابی صورت میں تاحال نہیں لکھی البتہ مختلف مضامین اپنی زندگی کے بارے میں جن میں خاندان،تعلیم،ملازمت، لکھنے پڑھنے کی تفصیل مختلف لکھ چکا ہوں۔ میرے بہت ہی مہرباں دوست آسٹریلیا کے باسی جناب افضل رضوی نے میری’شخصیت، فن و ادبی خدمات‘کے عنوان سے ایک ضخیم کتاب لکھی دی جو منظر عام پربھی آچکی ہے۔میری آپ بیتی کے حوالے سے گویا میرا بہت سا کام میرے دوست نے میرے لیے آسان بنا دیا ہے۔جس کے لیے میں ان کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں۔ اس وقت میرے پیش نظر اشرف گلِ کی آپ بیتی بعنوان ”میری زندگی کی یادداشتیں (میری زبانی)، حصہ اول: گاؤں سے لاہور تک“ ہے۔ گِل صاحب میرے فیس بک دوست ہیں۔کافی عرصہ ہوا، شاید واٹس اپ پر سلام دعا کے بعد میرا پوسٹل ایڈریس طلب کیا، میں نے حکم کی تعمیل کی، چند دن بعد کئی کتابوں کا ایک پیکٹ مجھے بذریعہ ڈاک موصول ہوا۔ جس میں اشرف گلِ صاحب کی غزلیات کے مجموعے، گر مُکھی میں غزلیات، پنجابی غزلیات کے مجموعے اور آپ بیتی شامل تھی۔ وقت تیزی گزرتا گیا، بھلا ہو کورانا کا کہ اس نے زندگی کو مشکل تر بنا کر رکھ دیا ہے۔ گلِ صاحب کی تمام تصانیف میں سب سے پہلے ان کی آپ بیتی پر اظہاریہ لکھنے کا فیصلہ کیا۔ کوشش ہوگی کہ دیگر کتب پر بھی جلد اپنی رائے کا اظہار کروں۔اشرف گلِ صاحب پاکستانی امریکن ہیں۔ دنیا میں ان کی آمد پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں ’جوڑاسیان‘ میں ہوئی، یہ گاؤں تحصیل وزیر آباد، ضلع گوجرانوالا کا قصبہ ہے۔ وہ ایک کسان کے گھر پیدا ہوئے۔ پرورش و تربیت گاؤں میں ہی ہوئی، کتاب کا اولین باب اس گاؤں میں ان کی پرورش کی داستان بیان کرتا ہے۔ ان کے والد کا انتقال قیام پاکستان کے فوری بعد ہوگیا تھا، ان کی پرورش اور تربیت ان کی والدہ نے کی۔ اس دوران یہ 1957ء تک اسی گاؤں میں ہی رہے۔ دوسرا باب ان کے اس گاؤں میں رہائش اور تعلیم کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ یہاں انہوں نے اپنے بچپن کے شوق جیسے پتنگ بازی، بٹیر بازی، شکاری کتوں کے ساتھ جنگلی خرگوش کا شکار کرنا، شیشے کی گولیاں کھیلنا، کبوتر بازی اور دیگر مشاغل کے بارے میں ہے۔ میٹرک پاس کر کے اشرف گِل صاحب گاؤں سے لاہور منتقل ہوئے اور اپنے چچا محبوب عالم صاحب کے گھر قیام کیا۔ باب چارمیں خاندانی شجرہ نسب کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ یہ تفصیل گِل صاحب کے خاندان کے افراد کے لیے یقینا اہمیت رکھتی ہے، ویسے یہ اس خاندان کی تاریخ ہے جو مصنف نے رقم کر دی ہے۔ آئندہ کی نسلیں اس سے استفادہ یقینا کریں گی۔ پانچواں باب مصنف کے لاہور میں قیام جس کا عرصہ 1960ء تا 1962ء پر محیط ہے کی تفصیل فراہم کرتا ہے۔ یہاں گلِ صاحب نے اپنی یاد داشت سے خوب کام لیا، اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا حافظہ بلا کا ہے۔ پھوپھی کا انتقال، بھائی نور حسین کا مکان تبدیل کرلینا اور قلعہ گوجر سنگھ چچا محبوب عالم کی ہی گلی میں مکان کرائے پر لینا، پھر بھائی نور حسین کی شادی، اور شادی کے بعد کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی لکھنا کہ وہ حالات سے دل برداشتہ ہوکر چچا ممتاز احمد گلِ کے گھر پرانی موہ منڈی (گوالمنڈی) مزار شاہ کنٹھ علاقے میں جا بسے۔ یادداشتوں کا چھٹا بات 1963ء کے دور پر مبنی ہے اس دوران ان کی والدہ لاہور آجاتی ہیں، یہاں انہوں نے اپنی والدہ کی آمد اور واقعات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔یہاں تک کہ اشرف گل صاحب نے محمد طفیل تانگہ بان کا ذکر بھی کیا، ان کی یادداشت کو شاباس، اسی باب میں انہوں نے خاندانی جائیداد میں سے اپنے حصہ کو بیچنے کے لیے پاور آف اٹارنی کا ذکر بھی کیا۔ اس حوالہ سے وہ لکھتے ہیں کہ ’گاؤں سے دور رہ کر وہاں سے اپنا حق بھی لینا شیر کے پنجے سے شکار چھینے والی بات تھی۔ پاکستان کا نظام ایساغیر منظم ہے۔ جو کبھی نہ بدلا۔ اور میرے اس وقت یعنی 2020ء تک جب میں دوبارہ اپنی بایو گرافی پر نظر ثانی کررہا ہوں۔ اس سسٹم میں ابھی تک تو کوئی بہتری دیکھنے یا سننے میں نہیں آئی‘۔ یہاں یہ بھی علم ہوا کہ پیش نظر یادداشتیں نظرثانی شدہ ہیں۔ باب 7سنہ 1963ء لاہور میں یو بی ایل میں اپنی ملازمت کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔یہاں گل صاحب نے چند واقعات بیان کیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی کہ دو محبت کرنے والوں کے درمیان رابطہ کار بنے۔ اس لیے کہ دونوں طرفین سے ان کی رشتہ داری تھی۔ دونوں کا عشق کامیاب ہوا اور دونوں کی شادی ہوگئی۔ یقینا گل صاحب نے ا س نیک کام میں اپنا حصہ ضرور ڈالا ہوگا۔گل صاحب اس لڑکی کی بہن کے عشق میں گرفتار ہوئے لیکن کامیابی نہ ہوسکی اس لڑکی کی شادی کہیں اور ہوگئی، اور لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔ انہوں نے وہ محلہ ہی چھوڑ دیا۔ گل صاحب لکھتے ہیں کہ’دراصل میری شاعری اس ناکام محبت کے اُن زخموں کا رد عمل اور بخشش ہے جو کریدنے سے نئی تخلیقات روپذیر ہوتی رہتی ہیں“۔ گو یا اس محبت کا چراغ اب بھی ٹم تما رہا ہے۔ اشرف گل ِ صاحب کی زندگی کے شب و روز جو لاہور میں گزرے ان کا ذکر باب9 سے باب17تک بیان ہوا ہے، اس میں دھوکا منڈی، منڈی فیض آباد،پرانی میوہ منڈی، مکان کی زمین ننکانہ، لاہور میں، مادری زبان کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اپنی ایک غزل کا ایک شعر نقل کیا ہے جو کچھ اس طرح سے ہے ؎ پاس لازم سب پہ ہے ماں کی زباں کچھ کسی کے باپ کا جاتا نہیں ان ابواب میں پاکستان میں جنرل ایوب خان کا دور، بھٹو صاحب کے دور کا ذکر کے دور اقتدار کا ذکر بھی کیا ہے۔ بنک میں ملازمت کے دوران ایک برانچ سے دوسری برانچ میں تبادلہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے باب 13میں یو بی ایل ڈیوس روڈ،سروسز ہسپتال، گلبرگ مارکیٹ لاہور برانچ میں اپنی کارگزاری کے واقعات بیان کیے ہیں۔ گل صاحب کی زندگی کی کہانے 1958ء سے شروع ہوئی تھی پاکستان میں 1980ء تک بھر پور انداز سے جاری رہی جسے انہوں نے بہت ہی تفصیل سے اور آزادی سے بیان کیا۔جون 1980ء میں وہ پاکستان کو الوداع کہتے ہیں اور لاہور سے نیویارک، امریکہ تشریف لے جاتے ہیں۔ باب 17میں پاکستان سے اپنی روانگی کے واقعات کو قلم بند کیا گیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ‘آآپ میری امریکہ میں زندگی کی شروعات سے اب تک کی مصروفیات کے بارے میں حصہ دوم میں پڑھ سکیں گے‘۔ آپ بیتی کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ مصنف نے یہ کتاب اپنے گاؤں کے ایک سپوت محمد اقبال ملک کے نام منسوب کی ہے۔ عام روایت سے ہٹ کر کتاب کے فلیپ پر اقبال ملک صاحب کی تصویر کے نیچے ان کی کاوشوں کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے شعر لکھتے ہیں۔ اقبال ملک کا ذکر کتاب کے ابتدائی ابواب میں بھی کیا ہے۔ خدا تک پہنچنے کا، بہترین آسان رستہ ہے نہ بھٹکو دُور گلِ اشرفؔ‘ خدا بندے میں بستا ہے کتاب کا بیک ان کی والدہ محترمہ کی تصور سے مزین ہے اور نیچے اپنی کیفیت کا اظہار شاعری میں اس طرح کیا ہے ؎ پہلی سانس سے اب تک سانسیں، ماں کی ایک امانت ہیں جگ دیکھا جن سے وہ آنکھیں، ماں کی ایک امانت ہیں باپ کے جیسی خودداری کی، دوہرے فرض سے بخشیں، جو میری قوت کی سوغاتیں، ماں کی ایک امانت ہیں مجموعی طور پر اشرف گلِ نے اپنی آپ بیتی کو خوبصورت اور صاف ستھرے انداز سے اس طرح ترتیب دیا ہے کہ پڑھنے والا الجھن کا شکار نہیں ہوتا، وہ کتاب کے مطالعہ کے دوران بوریت محسوس نہیں کرتا۔ خاص طور پر گلِ صاحب کے خاندان کے احباب، دوست، ساتھی، گاؤں کے رہنے والے تو اس آپ بیتی سے بہت لطف اندوز ہوں گے ہی، ساتھ ہی یہ اشرف گلِ کی زندگی کی تاریخ کے طور پر مستقبل کے قارئین، محققین کے لیے، اردو ادب کے طلبہ کے لیے مفید اور دلچسپ تصنیف ہے۔ جیسا کہ گلِ صاحب نے خود ہی لکھا کہ یہ یادداشتیں ان کے پاکستان میں قیام تک کی ہیں۔ دوسری جلد میں وہ اپنے امریکہ میں قیام، مصروفیات، حالات اور واقعات کو قلم بند کریں گے جس کا انتظار رہے گا۔ (22جون 2021ء)
|