بنگلہ ٣٠٢
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
ایک بنگلے کا احوال جہاں پرسرار واقعات پیش آرہے تھے، ان کی حقیقت کیا تھی یہ تو آپ کو کہانی پڑھ کر ہی معلوم ہوگی۔ |
|
تحریر: ذوالفقار علی بخاری
بلی کی میاؤں میاؤں نے میری نیند خراب کر دی تھی۔ ابھی میں بستر سے اُٹھا ہی تھا کہ اچانک مجھے ایسے محسوس ہواجیسے کوئی ہلکے ہلکے قدموں سے چل رہا ہے۔ میں نے کمرے کی بتی جلائی تو اچانک سے یوں محسوس ہوا کہ جیسے کمرے سے باہر بادلوں سے بجلی کڑکی ہو۔ آج شام تک تو موسم بھی صاف تھا اور جب میں نے گاڑی گیراج میں کھڑی کی تھی تو آسمان پر تارے بھی نظر آرہے تھے۔ اس بنگلہ نمبر 302پر میر ی پہلی رات تھی اور یہاں رات بسر کرنا میرے لئے عذات سا بن رہا تھا۔ابھی شام کو ہی میں نے اس بنگلے کی چابی مالک مکان سے لی تھی۔میں نے پورے بتیس لاکھ میں یہ خرید اتھا۔میں نے پستول اُٹھایا اور کمرے کا دروازہ کھول کر باہر دیکھا تو کوئی ذی روح مجھے نظر نہیں آیا۔ میں نے پورے گھر کا چکر لگا لیا تھا مگر مجھے نہ تو بلی نظر آئی نہ ہی کسی انسان کی موجودگی کے آثار دکھائی دیے تھے۔ میرے لئے یہ بے حد عجیب سی بات تھی کہ اس نئے بننے والے بنگلے میں ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے مجھے یہ سب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ مجھے پیا س محسوس ہوئی تو میں نے کچن کارخ کیا اور پانی کا گلاس اُٹھا کر جونہی ہی نل سے پانی نکالا میرے رونگٹے کھڑے ہو چکے تھے۔ پانی کا رنگ سرخ تھا۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میں نے کسی انسانی خون کو گلاس میں بھرلیا ہے۔میرے لئے اب حقائق کا پتا چلانا ضروری ہو چکا تھا، لیکن آدھی رات میں چھت پر جانا بھی خطرے سے خالی نہیں تھا۔ ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ مجھے بے حد مدہم سی اُلو کی آواز سنائی دی، پھر بلی کی میاؤں میاؤں کی آواز اس بار میں سن کر چونک اُٹھا تھا۔
٭٭٭٭٭
”یہ کیسے ہو سکتا ہے؟“۔ اکمل نے میری بات سنتے ہی کہا۔ ”دیکھو! یارمیں سچ کہہ رہا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ جو بتا رہا ہوں ویسا ہی ہے“۔ میں نے حتمی لہجے میں کہا۔ ”چلو دیکھ لیتے ہیں کہ ایسا ہے تو پھر کیوں ہے؟“۔ اکمل نے بالآخر میری بات کو تسلیم کرلیا تھا۔ ”پھر کب آرہے ہو میرے پاس؟“۔ میں نے سوال کیا۔ ”یار۔ابھی رات کے دو بجے ہیں اور تم آنے کا کہہ رہے ہو تو پھر ابھی اس معاملے کی چھان بین کرلیتے ہیں“۔ اکمل نے فوری جواب دیتے ہوئے کال کاٹ دی تھی۔ مجھے بلی کی میاؤں میاؤں میں ایک خاص شے محسوس ہوئی تھی جس کی وجہ سے میں نے اکمل کو آدھی رات میں جگا کر اپنے بنگلے پر آنے کا کہا تھا۔ یہ ضروری ہو گیا تھا کہ یہ معاملہ آج کی ہی رات میں حل ہوجاتا۔ دراصل کل میری بیوی صباحت نے سازوسامان کے ساتھ آنا تھا اور اُس وہمی عورت نے مجھے پھر سے گھر تبدیل کرنے کا بولنا تھا۔ہمیں اتنی مشکل سے ساحل سمندر کے پاس گھر ملا تھا اوریہ سستے داموں مل گیا تھا کہ اس کا مالک بیچارہ پریشان تھا مگر آج کے واقعات نے ثابت کر دیا تھا کہ وہ اس کو کیوں بیچنا چاہ رہا تھا۔
٭٭٭٭٭
اکمل کے آنے میں آدھا گھنٹا لگ سکتا تھا ابھی میں سوچ رہا تھا کہ کیا کروں، مجھے مندر پر بجنے والی گھنٹیاں سنائی دینے لگیں۔ آج کی رات میرے لئے خوفناک بن رہی تھی۔ میرے لئے یہ انہونی سی بات تھی کہ سب کچھ مجھے سنائی دے رہا تھا مگر کچھ کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ کمرے کی کھڑکی پر لگے پردوں پر بھی کبھی کبھی نیلے اور کبھی کالے رنگ کی روشنی دکھائی دے رہی تھی۔ میں شروع سے ہی مہم جوئی پسند کرتا تھا مگر یہ مہم جوئی میرے لئے کچھ زیادہ ہی کٹھن ثابت ہو رہی تھی۔ میں جتنی تیزی سے روشنی کی جانب بڑھتا تھا وہ ختم ہو جاتی تھی اور جونہی دور جاتا تھا وہ پھر سے مجھے تنگ کرنے کے لئے آجاتی تھی۔ میرے لئے عجیب بات یہ تھی کہ ہلکی ہلکی سی مندر پر بجنے والی گھنٹی تب بجتی تھی جب میں کمرے سے دور ہوتا تھا اورمیرے لئے حیران کن بات یہ تھی کہ میں یہ سب محسوس کر رہا تھا جیسے میں کسی ”گیم شو“ میں کھیل رہا ہوں۔ یہ آنکھ مچولی نجانے کب تک جاری رہنی تھی۔ میں محض اکمل کو فون کرنے کے پانچ منٹ کے اندر اندر پاگل سا ہو رہا تھا میں نے دھیر ے دھیرے پکارنا شروع کر دیا تھا۔ ”جو بھی ہے سامنے آؤ“۔ ”اتنے بہادر ہو تو مجھ سے مقابلہ کرو“۔ ”میں ڈرنے والا نہیں ہو“۔ میں نے کمروں کی لائٹ تک جلا دی تھی، مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میں کسی سفید روشنی کے محل میں ہوں اور اکیلا یہاں وہاں بھاگ رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کو میں نے دل کی گہرائی سے یاد کرنا شروع کر دیا تھا تاکہ میرے اندر کا خوف ختم ہو سکے مگر ایک ایسی چیز میرے اندر جنم لے چکی تھی جو مجھے بتا رہی تھی کہ کچھ ایسا ہے جو بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔
٭٭٭٭٭
پندرہ منٹ گذر چکے تھے میرے اعصاب پر خوف طاری ہو رہا تھا،زبان خشک ہو رہی تھی۔ ابھی میں اگلی حکمت عملی طے کرنے والا ہی تھا کہ بجلی چلی گئی اوروہ آوازیں جو آرہی تھیں وہ بھی ایک دم سے خاموش ہو گئی تھیں۔ اسی اثناء میں پولیس وین کے سائرن کی آواز نے مجھے چونکادیا تھا میں سمجھا کہ شاید اکمل ساتھ لے کر آرہا ہے،لیکن ایک انہونی شے یہ ہوئی کہ میری کمرے کی کھڑکی پر بار بار آتی روشنی اب نہیں آرہی تھیں، پولیس وین کی آمد کے بعد وہ غائب ہوئی تھی۔ اچانک ڈور بیل کی آواز نے میرے جسم کو زوردارجھٹکا دیا۔ مجھے ایسے لگا جیسے پیچھے سے دھکا دیا ہو۔ میں فوری طور پر دروازے پر پہنچا تو کی ہول سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اکمل آچکا ہے۔ میں اپنے ہوش و حواس میں آگیا تھا۔
٭٭٭٭٭
”ہم نے اُن بندوں کو پکڑ لیا ہے جناب“۔ ایس ایچ او عامر شاہ نے خوشی سے فون پر بتاتے ہوئے کہا۔ ”ارے واقعی!کون لوگ ہیں وہ؟“۔ میں نے استفسار کیا۔ ”ارے صاحب!آپ نے جن سے بنگلہ خرید ا تھا،وہ اُنہی مالک کے رشتے دار ہیں جو کہ چاہتے تھے کہ یہ سستے داموں اُن کو مل جائے تب ہی وہ ڈرا نے کے لئے ایسا کر رہے تھے تاکہ آپ ڈر جائیں اور یہ بنگلہ 302 خالی کردیں اور وہ یہاں پررہ سکیں“۔ ایس ایچ او عامر شاہ کے لہجے میں مسرت خوب جھلک رہی تھی۔ میں نے شاباشی دیتے ہوئے فون بند کر دیا تھا۔
میرے لئے یہ اہم بات تھی کہ میری بیوی صباحت کے آنے سے قبل ہی میں نے وہ راز جان لیا تھا جس کے بعد ڈرختم ہو گیا تھا۔ دراصل جونہی اکمل آیا تھا میں نے اُسے بتا دیا تھا کہ میں ڈر تو رہا ہوں مگر یہ ایسا نہیں ہے کہ میں جان سے گذر جاتا۔یہ ہو سکتا تھا کہ اگر میں کمزور اعصاب کا مالک ہوتا تو شاید آدھی رات کو ہی مکان خالی کر دیتا۔
میں نے اکمل سے یہ بات کہی تھی کہ مجھے جو آوازیں آرہی ہیں وہ ایک جیسی ہیں یعنی ان کے لب ولہجے میں کوئی فرق نہیں ہے۔آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ جب بھی کوئی شخص بار بار چیخ و پکار کرتا ہے تو آواز میں تھوڑا سا فرق ہوتا ہے مگر یہاں ایسا نہیں تھا۔ بلی کی میاؤں میاؤں کی آواز کسی نے ریکارڈ کرلی تھی اور اسی طرح سے دیگر آوازیں بھی تو میں اس بات سے چونک اُٹھا تھا کہ یہ سب کچھ اوروجہ سے ہو رہا ہے۔
اکمل کے ساتھ مل کر میں نے سب سے پہلے تو گھر کی چھت کا معائنہ کیا تھا وہاں پر جب دیکھا تو معلوم ہوا کہ کسی نے کوئی جانور ذبخ کرکے خون پانی کی ٹینکی میں ڈا ل دیا تھا جس کی وجہ سے نل میں پانی سرخ رنگ کا آرہا تھا۔ اکمل نے ایک جاسوس کی مانند یہ کھوج بھی لگا لیا تھا کہ یہ کسی بیل کا خون ہے۔ اس کے بعد ہمیں یہ علم ہوا تھا کہ آوازیں کہاں سے آ رہی ہیں۔ہمیں گھر سے باہر نکالنے والوں نے پورا بندوبست کیا ہوا تھا، سی سی ٹی وی کیمرہ ایک فانوس کی صورت میں ہر کمرے میں لگا ہوا تھا جس کی وجہ سے میری حرکت بھی دیکھی جا رہی تھی۔
جب بجلی چلی گئی تھی تو آوازیں اور میری حرکت چونکہ کہیں دیکھی نہیں جا رہی تھیں تو جو لوگ پولیس وین کے سائرن کو بجتا دیکھ کر بھاگے تھے وہ گرفت میں آگئے تھے کہ آدھی رات کے وقت پولیس نے ان کو مشکو ک آلات کے ساتھ دیکھا تھا۔ فانوس کے سوا کمرے میں کچھ ایسا نہیں تھا کہ جہاں سے کوئی آواز مجھ تک پہنچ سکتی،اکمل نے بجلی کے سوئچ بورڈ کو کھولا تو معلوم ہوا کہ مشکوک افراد نے یہاں پر ننھا سا ایک اسپیکر رکھا ہوا تھا جہاں سے آوازیں آرہی تھیں اورسی سی ٹی وی کیمرہ سے چونکہ حرکت دیکھی جا رہی تھی تو اسی کے مطابق یہ آوازیں ہر کمرے میں سننے کو ملتی تھیں۔ ہم نے ہر کمرے میں سے اسپیکر ز کو نکال لیا تھا۔
یہ محض اتفاق تھا کہ پولیس کی وین تب وہاں سے گذر رہی تھی اورمشکوک افراد اگر نہ بھاگتے تو شاید ہاتھ نہ آتے اور مجھے بھی اپنی بیوی سے سننا پڑتا کہ کہاں آکر بنگلہ لیا ہے جہاں بھوت رہتے ہیں، اب یہ اوربات ہے کہ بنا میک اپ کے وہ بھوت لگتی ہے۔ ختم شد۔
(یہ کہانی ماہ نامہ ڈر، کراچی کے جولائی ٢٠٢١ کے شمارے میں شائع ہو چکی ہے) |