لو جی ایک اور کتاب’’ دھوپ میں جلتے خواب‘‘ میری
لائبیریری کی زینت بن گئی۔ یہ کتاب محترمہ نغمانہ شیخ شاعرہ اور افسانہ
نگارنے قلم کاروان کی علمی ادبی نشست ،مورخہ ۸؍ جون کو حاضریں میں تحفتاً
تقسیم کی ۔ ایک کتاب راقم کو بھی ملی۔ اس کتاب پر تبصرہ قارئین کی خدمت میں
حاضر ہے۔جماعت اسلامی ضلع اسلام آباد کے شعبہ علم و ادب قلم کاروان کی علمی
ادبی نشست ہر ہفتہ بروز سوموار بقوقت بعد نماز مغربمقام گھر نمبر ۱ گلی
نمبر۸ ۳ جی سیکس ٹو اسلام آبادکومنعقد ہوتی ہے۔اس تعمیری علمی و ادبی
پروگرام میں ہر طبقہ کے اہل علم اور دانشور اپنے خیالات کا اظہار تحریر شدہ
مقالے کی شکل میں پیش کرتے ہیں ۔مقالے پر سوال، جواب، تبصروں اور شاعری کے
سیشن اور آخر میں صدارتی خطاب ہوتاہے۔پروگرام کے بعد نماز عشا باجماعت ادا
کرکے شرکا گھروں کو عازم سفر ہوتے ہیں۔ہفتہ وار علمی و ادبی نشست کی
کاروائی باقاعدگی سے اخباروں کے علمی و ادبی صفحات کے لیے بھیجی جاتی ہے۔
انتظامیہ نے شرط رکھی ہوئی ہے کہ دوقومی نظریہ ، نظریہ پاکستان اور اسلامی
قدروں کی مخالف نہیں کی اجازت نہیں ہوگی ۔باقی سب کچھ پیش کیا جا سکتا
ہے۔مقالہ نگار ہر قسم کی تنقید اور تحقیق کو پیش کرتے ہیں۔ انتظامیہ مقالہ
نگاروں کے مقالے اپنے پاس محفوظ کر لیتی ہے۔ کسی بھی وقت سال کے آخر میں ان
مقالوں کوکتابی شکل میں عوام کے سامنے پیش کیے جانے کاپروگرام ہے۔ کچھ ہفتے
قبل صدر نشین پروفیسر ڈاکٹر ساجد خان خاکوانی کے علم میں آیا کہ کراچی سے
شاعرہ اور افسانہ نگارخاتون محرمہ نغمانہ شیخ اسلام آباد تشریف لائیں ہیں ۔صدر
نشین نے اس دفعہ محترمہ مہ نغمانہ شیخ کو۸؍ جون۲۰۲۱ء کی نشست میں اپنا
افسانہ پیش کرنے کی درخواست کی۔ محترمہ نے اسے قبول کر کے اپنی کتاب’’دھوپ
میں جلتے خواب‘‘ میں درج، پہلا افسانہ بعنوان’’ کڑوا گھونٹ‘‘ پڑھا۔جس میں
لکھتی ہیں کہ ایک خاتون کو تین طلاق ہو گئیں۔ وہ مختلف جگہوں پر ملازمت
کرتی ہے۔ مگر ہر جگہ ہوس کے مارے مرد اُسے تنگ کرتے ہیں۔ بلا آخر وہ اُسی
مرد کے پاس چلی جاتی ہے جس نے استے تین طلاق دی تھیں۔ اس افسانے میں میسج
یہ چھوڑتی ’’ کہ جب زندہ رہنے کے لیے حرام کاری کرنی ہی پڑے تو کیاں نہ عزت
ساتھ’’ حرام زندگی گزاری جائے‘‘ یہ سوچ اسلام کے حلالہ قانون کے خلاف ہے ۔ایک
اور افسانہ’’تنہائی‘‘ میں اسلام کے ثواب اور وذاب کا مذاق اڑاتیں ہیں۔ سارے
افسانے اسلام کے آفاقی قوانین کی مذمت اور مغرب کے روشن خیال معاشرے کے طرف
دھکیلنے کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ انسانے تو افسانے ہوتے تو
بے جا نہ ہوگا۔
صدرنشین قلم کاروان نے اس دفعہ کے ایک خاتون کے مقالہ پیش کرنے کے پروگرام
میں حلقہ ارباب ذوق راولپنڈی کی سیکرٹیری،اولپنڈی آٹس کونسل کی کو آر
ڈینیٹر اور معروف سماجی کارکن خاتون محترمہ ڈاکٹر ناہید کو قلم کاروان کی
علمی و ادبی نشست میں تشریف لانے اور صدارت کرنے کی درخواست کی جو انہوں نے
منظورکی اوراپنی ایک ساتھی کے ساتھ تشریف لائیں۔ اس نشست میں(راقم) سیکر
ٹیری قلم کاروان نے وزیر اعظم کی طرف سے اعلان ، کہ آیندہ وزیر اعظم کے
سارے پروگرام میں اُردو قومی زبان میں ہوا کریں گے۔ اس حوالے سے اپنا مقالہ
’’ اُردو زبان کانفاذ: وزیر اعظم کی طرف سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا‘‘ کے عنوان
سے پیش کیا۔ شاعری سیشن میں ’’ عورت‘‘ پر اپنی ایک نظم بھی سامعین کے سامنے
پیش کی۔
نغمانہ شیخ کی یہ کتاب ۱۷؍افسانوں کا مجموعہ ہے۔آزاد ادبی حلقوں میں یہ
کتاب بہت پسند کی گئی۔ کتاب کے شروع حصہ میں سات حضرات، نسیم درانی،اے
خیام،رحمٰان نشاط،ذیب ذکار حسین،نسیم انجم،ڈاکٹر شاہد ضمیر اورظریف احسن نے
اپنے تعریفی تاثرات قلم بند کیے۔کتاب معاشرے میں عورت مر د کے تعلوقات کے
گرد گھومتی ہے۔ مصنفہ نے معاشرے کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر اپنی کاوش پیش
تو کرتی ہیں مگر اس کے اسلام کے پیش کردہ حل ے بھی انحراف کرتی نظر آتیں
ہیں۔ایک لکھتی ہیں کہ: اس کو ایک بار پھر مرد سے شدید نفرت کا احساس ہو۔ اس
کا جی چاہا کہ مردوں کے خلاف آزاواز بلند کرے۔ مگر دوسرے ہی لمحے اسے خیال
آیا کی یہ جو ڈھریوں خواتین اپنی اپنی ہم جنس کے نام پر ادارے چلا رہیں ہیں۔
تقریبات مناتی ہیں۔حقوق نسواں پر بڑے بڑے سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں۔
مقالات پڑھے جاتے ہیں جن کا اختتام پر تکلف ضیافت پر ہوتا ہے۔۳۶۵ دنوں میں
ایک دن عالمی سطح پر عورت کی فکر میں گزارا جاتا ہے۔ایسے عالمی ناٹک سے
کیاحاصل۔ بھلا صدیوں سے کھوکلی بنیادوں پرٹکا سماجی پنجر ظاہری آرائش سے
مستحکم ہو جائے گا۔ عورتیں کسی اور رخ نکل جاتی۔مردوں کے خلاف آوازیں کستے
کستے آپ ہی مردوں کی بانہوں میں چلی جاتی ہیں۔ یہ عورت بھی عجیب مخلوق ہے،
مردوں کی مخالفت بھی کرتی
ہے اور ان کے بغیر زندگی کا تصور بھی حرام سمجھتی ہے‘‘مصنفہ کی کتاب کے
سارے ا فسانے اسی سوچ کے ارد گرد د گھومتے ہیں۔ہمارا معاشرہ شکست و ریخت سے
گزر رہا ہے۔ہماری مغرب زدہ خواتین اسلامی قدروں سے اعلانیہ بغاوت کرتی نظر
آتیں ہیں۔ کہیں مردوں کے برابر نانہاد حقوق کی باتیں کرتیں ہیں۔کہیں میرا
جسم میری مرضی کے عنوان سے باہر نکلتیں ہیں۔ یہ سارے کام مغربی ملکوں کی
فنڈڈ حقوق کے نام پر این جی اوز کی مالی مدد،ڈالر فنڈڈ پاکستانی میڈیا
اورحکومت پر قابض سیکولر عناصر کی پشت پناہی پر ہوتا ہے۔ ہمارے سیکولر
حکمران ڈالر کی لالچ یا عیاشی کی غرض سے مغرب کی شکست و ریخت میں پھنسی
تہذیب کو اپنے ہاں راج کرنے کے خواہش مند ہے۔جو سیکسی اور لوط قوم کے مردوں
کے مردوں سے تسکین پر نچھار لوگوں پر مشتمل ہے ۔ وہاں چالیس فی صد بن بہائی
ماؤں کے بچے اپنے والدیں کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اسی لیے شاعر اسلام علامہ
شیخ محمد اقبالؒ نے فرمایا:۔
تمھاری تہذیب خود ہی اپنے خنجر سے خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہوگا
یہی ادب و تہذیب پاکستان میں لانے کے لیے مغرب اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔
اسی کے آگے بند باندھنے کے لیے جماعت اسلامی نے پاکستان کے ہر ضلع میں
تعمیری ادب کے لیے تنظیمیں قائم کی ہوئیں ہیں ۔ جو اپنے اپنے طور پر اس
سیلاب کو روک کر تعمیری ادب کی کوششوں میں مصروف ہے۔
|