خوابوں کی مسافر

باغ میں دور دور تک ویرانی کا ڈیرہ تھا۔ میں اکیلا، اجنبی شہر ، انجانی زبان ،دور دور تک ویرانی، ذہن پر بہت سے خوف تھے مگر وہ ہر غم سے بے نیاز جھومتی ناچتی میرے ارد گردنغمہ سرا تھی۔ آج رات ہم اکیلے ہوں گے، فقط میں اور تم، کتنی خوبصورت رات ہو گی۔ میں آج خود کو بھی بھول جاؤں گی ، بس تم یاد رہ جاؤ گے۔ لگتا تھا اس کو انگریزی کی کوئی نظم یاد تھی اور آج وہ ساری نظم مجھ پر خرچ کر رہی تھی۔ ایک آدھ دفعہ اس نے مجھے چھونے اور مجھ سے لپٹنے کی کوشش بھی کی مگر میرے جھڑکنے کے بعد اپنے حال میں مست میرے گرد ناچتے چکر کاٹتی رہی۔اس کی عمر بمشکل تیرہ یا چودہ سال ہو گی۔ میں ایک بزرگ آدمی، دیار غیر، جیب میں بڑا معقول زاد راہ، عملاً تاریکی، یہ بہت سے خوف ذہن میں ابھرتے مگر وہ ہر بات سے بے نیاز رقص میں مصروف تھی۔جوں جوں اندھیرا بڑھ رہا تھا میں مزید محتاط ہوتا جا رہا تھا۔شاید اسے میری پریشانی کا اندازہ ہو گیا، کہنے لگی، ہمیں وہاں ٹیکسی پر جانا چائیے تھا مگر کیا کرتے چھ بجے کے بعد یہاں ٹیکسی نہیں ملتی۔مگر میرے ہوتے فکر کی کوئی بات نہیں،ہوٹل بھی اب سامنے ہے۔یہ کہہ کر وہ دوبارہ رقص میں محو ہو گئی، ۔اس بہت بڑے پارک میں جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے ٹیلے تھے، مدہم روشنی والے کچھ بلب چمکتے اور ٹمٹماتے کہیں کہیں نظر آ رہے تھے جن کی روشنی میں ہم سایوں کی طرح نظر آ رہے تھے مگر ان ٹیلوں کے پارکچھ نظر نہیں آرہا تھا۔

ایک ٹیلے کو عبور کرتے کافی فاصلے پر ایک سرخ روشنی نظر آئی تو اس نے خوشی سے جھومتے ہوئے اطلاع دی کہ وہ روشنی میرے ہوٹل کی ہے۔پھر بتانے لگی کہ اس ہوٹل کا مالک اس کا بھائی ہے۔ یہ اس علاقے کا سب سے اچھا ہوٹل ہے۔اب سوچو، اتنا اچھا ہوٹل ،آرام دہ شاندار کمرہ اور میرا ساتھ، کس قدر حسین رات گزرے گی۔وہ اپنی دھن میں بہت کچھ کہہ رہی تھی مگر میں اپنی ذہنی طغیانیوں کی زد میں تھا اور دعا کر رہا تھا کہ جلدی اور خیریت سے اس پارک سے نکلوں اور ہوٹل آ جائے۔میں پہلی دفعہ چین آیا تھا، ابھی کچھ عرصہ پہلے چین نے اپنا انداز بدل کر مغربی انداز اپنایا تھا مگر جدیدیت ابھی کافی دور تھی۔میں ائر پورٹ پر اترا تو شام ہونے والی تھی ، ایئر پورٹ کے باہر ایک ایئرپورٹ بس میں سوار ہوا کہ مجھے شہر میں بس ٹرمینل تک پہنچا دے وہاں سے مجھے ایک قریبی قصبے جانا تھا۔

آدھ گھنٹے سے زیادہ وقت لگا اور مجھے اس شہر کے بس ٹرمینل کے باہر ایئر پورٹ بس نے اتار دیا۔ ہلکا ہلکا اندھیرا چھا چکا تھا۔شہر کا بس ٹرمینل مکمل ویران تھا۔ بسوں پر کپڑے ڈال کر انہیں ڈحک دیا گیا تھا۔مجھے دیکھ کر بہت سے لوگ اکٹھے ہو گئے۔وہ آپس میں میرے بارے یوں باتیں کر رہے تھے گویا میں کوئی عجوبہ ہوں، کوئی ہنس رہا تھا کوئی مجھ سے اپنی زبان میں کچھ پوچھ رہا تھا ۔ مگر نہ میری بات کسی کو سمجھ آتی تھی اور نہ میں ان کی بات سمجھ پا رہا تھا۔جواباً وہ ہنسنے لگتا۔ ایک پولیس والا دور سے مجھے دیکھتے ہوئے وہاں آ گیا۔ میں نے اس سے پوچھنا چاہا مگر اس نے ہاتھ گھمایا اور ہنس کر وہاں سے پرے جا کھڑا ہوا۔میں نے دائیں بائیں اور ہر طرف نظر دوڑائی مگر کچھ سمجھ نہ آیا۔ اتنے میں وہ ننھی سی لڑکی کہیں سے بھاگتی ہوئی آئی اور پوچھنے لگی، ’’ہیلو دوست، کہاں سے آئے ہو‘‘۔میراجواب سن کر اس نے کہا کہ تمہیں اب یقیناًہوٹل کی ضرورت ہو گی۔ میرے ساتھ آؤ، شاندار ہوٹل میں چلتے ہیں۔یہ کہہ کر اس نے آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑلیا۔ میں نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی مگر وہ ہاتھ نہ چھوڑنے اورمجھے ساتھ لے جانے پر بضد تھی۔ دور سے پولیس کے سپاہی نے صورت حال دیکھی تو بھاگتا ہوا آیا اور ایک زور دار تھپڑ اسے رسید کرتے ہوئے بہت کچھ کہا بھی۔ لڑکی چیخ چیخ کر روتی ہوتی ایک طرف چلی گئی۔پولیس والے نے اشارے سے مجھے سامنے چوک کا بتایا اور بائیں مڑنے کا کہا۔میں اس کے کہنے کے مطابق چوک میں پہنچ کر بائیں مڑا تو آمنے سامنے چھ سات ہوٹل موجود تھے۔میں جس ہوٹل میں داخل ہوتا اس کے ملازم دور ہی سے نو نو کہنے لگتے یا نفی کا سر ہلا دیتے۔میں سڑک پر کھڑا سوچ رہا تھا کہ اب کیا کروں۔ یکدم وہ لڑکی پھر بھاگتی میرے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ ’’دیکھ لئے سب ہوٹل۔ کوئی تمہیں نہیں رکھے گا، سنو، یہاں غیر ملکی کچھ عرصہ ہوا آنے شروع ہوئے ہیں۔ ان کے مزاج اور معیار کے مطابق صرف چند ہوٹلوں کو انہیں ٹھہرانے کی اجازت ملی ہے۔ ان ہوٹلوں میں شاندار کمرے ہیں اور ان کے پاس غیر ملکیوں کو ٹھہرانے کا باقاعدہ لائسنس ہے۔ اس شہر میں صرف میرا ہوٹل ایسا ہے۔ میں غلط نہیں کہہ رہی۔ رات ہو رہی ہے۔ اپناوقت ضائع نہ کرو اور جلدی سے میرے ساتھ آ جاؤ۔کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔میں مجبوراً اس کے ساتھ چل پڑا۔ بس اڈے کے پاس سے ہوتے کچھ فاصلے پر ایک پارک کا گیٹ تھا۔ چھوٹے ٹیلوں پر مشتمل یہ ایک بڑا باغ تھا جسکے گیٹ سے دوسری طرف کچھ نظر نہ آتا تھا۔اس نے مجھے حوصلہ دیا کہ باہر سے راستہ بہت لمبا ہے باغ سے گزر کر فاصلہ آدھے سے بھی کم ہو جائے گا۔میں اس کے کہنے پر اس کے ساتھ چل پڑا، کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا۔مگر اب اس لمبے ، پر اسرار اور خوف زدہ راستے کے ختم ہونے کا وقت ہی نہیں آ رہا تھا۔
تھوڑی دیر میں ہوٹل کی روشنیاں کافی نمایاں ہو گئیں اور مجھے بھی کافی حوصلہ ہو گیا۔ اب میں اس کی بات سن بھی رہا تھا اور سمجھ بھی رہا تھا وگرنہ اس سے پہلے تو کچھ سننے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔اب وہ مجھے بتا رہی تھی کہ اس کا بھائی بہت پہلے گاؤں سے اس شہر میں آ گیا تھا۔ اس نے بہت پیسے کمائے ہیں۔ وہ بہت امیر آدمی ہے۔یہ شاندار ہوٹل ہی نہیں اس کے اور بھی کاروبار ہیں۔ میرا بہت خیال رکھتا ہے۔ ہوٹل میں مجھے ایک زبردست بہت بڑا کمرہ دیا ہوا ہے۔وہ تو کہتا ہے کہ تم اور پڑھو، مگر پتہ نہیں کیوں میرا دل پڑھائی سے اچاٹ ہو گیا ہے۔ میں اسی طرح کھیل کود میں دن گزار دیتی ہوں۔ مجھے تم جیسے غیر ملکی بہت پسند ہیں۔ تمہاری طرح جب بھی کوئی مجھے نظر آئے میں اسے اپنے ہوٹل لے آتی ہوں۔ وہ بھی خوش ہو جاتا اور میرا وقت بھی بہت اچھا کٹ جاتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور پوچھا،’’ میں تمہیں کیسی لگی ہوں‘‘۔ میں نے ہنس کر کہا کہ بظاہر تو بہت اچھی ہو مگر جیسی باتیں کرتی ہو اس سے لگتا ہے کہ تم اچھی نہیں رہو گی۔ میرا جواب سن کر وہ ہنسنے لگی اور پھر وہی جنوں، وہ دیوانہ وار میرے اردگرد رقص کرنے لگی اور ساتھ ہی ویسے ہی فضول سے انگریزی گانے دوبارہ لہک لہک کر گانے لگی۔ پارک کے گیٹ کے قریب ہی وہ ہوٹل تھا۔ گیٹ پر پہنچ کر میں رکا، ایک لمبا سانس لیا ۔گیٹ کی دیوار سے لگ کر آنکھیں بند کئے کچھ دیر کھڑا رہا ، پھرارد گرد نظر ڈالی ۔ وہ ذہنی بوجھ جو اٹھائے میں نے وہ ایک نہ ختم ہونے والا پارک عبور کیا تھا اب میں اس سے نجات پا گیا تھا۔ میں نے لڑکی کو اشارہ کیا کہ آؤ ہوٹل چلیں۔

چند لمحوں میں ہم ہوٹل کے گیٹ پر تھے۔ گیٹ پر جو پہریدار تھے ان کو لڑکی نے کچھ بتایا۔ ایک نے بڑھ کر میرا سامان پکڑا اور مجھے ریسپشن پر لے گیا۔ میں نے دیکھا لڑکی گیٹ پر ہی کھڑی تھی۔ مجھے متوجہ پا کر بڑے زور سے چلائی اورکہنے لگی کہ تم بے فکر ہو کر کمرے میں جاؤ ، میں ابھی تمہیں ملنے آؤں گی۔ریسپشن پر چند منٹ انتظار کے بعد ایک مینجر صاحب تشریف لائے اور اپنے تعارف میں یہ بتایا کہ ہوٹل کے وہ واحد انگریزی بولنے اور سمجھنے والے مینجر ہیں۔ میں آپ کے کوائف درج کرنے کے بعد آپ کو ایک آرام دہ کمرہ دونگا اور اگر آپ کو کوئی مشکل پیش ہو تو مجھ سے کسی وقت بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔اندراج کے بعد مینجر مجھے کمرے تک چھوڑنے آیا تو میں نے پوچھا کہ وہ لڑکی کون ہے۔ جو مجھے یہاں لے کر آئی ہے اور کہتی ہے کہ ہوٹل کا مالک اس کا بھائی ہے۔وہ ہنسنے لگا۔ یہاں آٹھ دس لڑکیاں رہ رہی ہیں۔ ان سب کی عمر ابھی کم ہے ، بمشکل بارہ تیرہ سالکی ہونگی۔ یہ بچیاں تعلیم اور گھر کے حالات سے تنگ ،بھاگ کر یہاں آ گئی ہیں۔ ہوٹل کا کوئی نہ کوئی ملازم ان کا واقف ہوتاہے بس اسی کے حوالے یہاں پہنچ جاتی ہیں، وہ ان کا جاننے والا کسی بھی عہدے پر ہو یہ اسے ہوٹل کا مالک ہی بتاتی ہیں، یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگا ۔ادھر سے ان کو ہوٹل میں گھسنے کی اجازت نہیں۔ پچھلے دروازے سے سیدھا اپنے کمرے جا سکتی ہیں۔ دوپہر کے بعد اور رات گئے بچے ہوئے کھانے ان کو دے دیتے ہیں۔ پیچھے ایک بڑا سٹور ہے اس کے ایک حصے میں انہیں سونے کو جگہ دی ہوئی ہے۔ کم عمر ہیں اس لئے انہیں باقاعدہ ملازم رکھ کر ہم اپنے لئے مشکلات پیدا نہیں کر سکتے۔سارا دن یہ فارغ شہر میں ایسی جگہوں پر گھومتی ہیں جہاں مسافر ہوتے ہیں اور اگر کوئی مسافر ہوٹل کا متلاشی ہو تو اسے اس ہوٹل کے بارے گائیڈ کر دیتی ہیں۔ روز ہم انہیں اپنی مرضی سے سادہ سا کھانا دیتے ہیں مگر جس دن کوئی بچی کچھ مسافروں کو گائیڈ کرکے ہوٹل لائے اس دن وہ اپنی مرضی سے جو کھانا چاہے اسے مل جاتا ہے اس کے علاوہ انعام کے طور پر کچھ رقم بھی ملتی ہے۔ وہ لڑکی بھی آج بہت خوش ہو گی کہ اپنی مرضی کا کھانا بھی کھا سکے گی اور انعام بھی ملے گا۔ کہیں بیٹھی ہوٹل کے کھانے کے وقت ختم ہونے کا انتظار کر رہی ہو گی۔

میں سونے کے لئے لیٹ گیا مگر تھکاوٹ کے باوجود نیند نہیں آ رہی تھی۔ کھڑکی کے دبیز پردوں کی چمک سے محسوس ہوا کہ چاند نکل آیا ہے۔ میں اٹھا اور بالکونی پر آ گیا کہ چاند کا نظارہ کروں۔ شہر میں اکا دکا جلتے بلب اس شہر کا اندھیرادور نہیں کر سکتے تھے مگر چاندنی نے پورے شہر کو روشنی کے حسن سے مالا مال کیا ہوا تھا۔ کہیں کہیں جلتے ہوئے بورڈ ہوٹلوں کی نشاندہی کر رہے تھے۔ مکمل سناٹا لگتا تھا پورا شہر سویا ہوا ہے۔میں چاندنی کے حسن سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ نیچے نظر ڈالی۔ گیٹ پر چوکیدار چاک و چوبند بیٹھا اور سامنے پارک کی دیوارپر لوہے کے جنگلوں کے آگے ہوٹل کی مالک اپنے ٹھکانے پر جانے کی بجائے بڑی گم سم بیٹھی کچھ سوچ رہی تھی ۔ شاید ہوٹل کے کھانے کا وقت ختم نہیں ہوا تھااور وہ انتظار میں تھی کہ میرے جیسے ایک غیر ملکی کو ہوٹل تک لانے پر اسے اپنی مرضی کا اچھا کھانا اور انعام ملنا تھا۔وہ جو ابھی محو رقص ہو کر بڑے بڑے دعویٰ کر رہی تھی حقیقت میں وہ خود بھی خوابوں اور سرابوں کی مسافر تھی۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 445795 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More