فاؤنٹین ہاؤس میں ایک یادگار دن


روبینہ شاہین (لاہور)
زندگی کی رنگ سازیاں بہت عجیب ہیں۔ وقت گزر جاتے ہیں لیکن اکثر یادیں زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں۔ بعض دن، بعض مقام، کچھ انسان، کچھ واقعات اور کچھ چہرے زندگی میں ایسی چھاپ رکھتے ہیں کہ جب بھی یاد کرنے لگو ایسے لگتا ہے کہ جیسے کل کی بات ہو۔ وہ آوازیں، وہ حرکات، وہ پل، زندگی میں ایسے لگتا ہے کہ ابھی گزرے ہوں۔ یونیورسٹی میں سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کا آخری سمسٹر تھا اور پروفیسر صاحبان نے ہمارے لیے بنانے کے لیے تمام سٹوڈنٹس کو ’’فاؤنٹین ہاؤس‘‘ لے جانے کا پلان بنایا۔ سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کی تمام سٹوڈنٹس کا اکٹھا ٹرپ تھا۔ ہم سب بہت خوش تھے۔ جوش و خروش اس بات کا تھا کہ کبھی فاؤنٹین ہاؤس اندرونی طور پر نہیں دیکھا تھا۔ اس عمر میں اتنی شناسائی بھی کہاں ہوتی ہے۔ کتابوں میں انسانی دماغ کے متعلق پڑھنا، پاگل پن کی وجوہات اور حقیقت میں دیکھنا دو مختلف معنی رکھتے ہیں۔ سارے سٹوڈنٹس بہت پرجوش تھے۔ یہ دن ہماری زندگی میں بہت یادگار دن تھا جس دن ہم نے فاؤنٹین ہاؤس کے اندر رہنے والوں کو حقیقت کی آنکھ سے دیکھا اور محسوس کیا کہ زندگی میں انسانوں پر کیسے کیسے کیا کیا گزرتا ہے اور ان واقعات کے اثرات انسان کو کس حد تک زخمی کر دیتے ہیں۔ انسان پر کٹے پرندوں کی طرح جیتا ہے نہ مر سکتا ہے۔

صبح نو بجے یونیورسٹی کی بس ہمیں لے کر فاؤنٹین ہاؤس پہنچی۔ شادمان کے علاقے میں کریسنٹ گرلز اسکول کی دیوار کے ساتھ ملحقہ کتابوں میں پھیلی ہوئی بلڈنگ میں جب بس داخل ہوئی تو دونوں اطراف میں بڑے بڑے باغ بنے ہوئے تھے۔ تمام سٹوڈنٹس بس سے اترے۔ ان کو لے کر ایک بہت بڑے ہال کی طرف لے جایا گیا۔ تمام لوگ کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ فاؤنٹین ہاؤس کے چیئرمین صاحب تشریف لائے۔ تمام سٹوڈنٹس نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا۔ وہ سٹیج پر تشریف لے گئے۔ انہوں نے انسانی ذہن کے متعلق ایک بہت اچھا لیکچر دیا۔

انسان کو اﷲ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو دماغ جیسی چیز عطا کی جس میں عقل کا مادہ رکھا اور یہی چیز انسان کو تمام مخلوقات میں افضل کرتی ہے۔ لیکن بچو جب انسان کے دماغ کی مشین میں نقص آ جائے تو وہ عقل سے محروم ہو جاتا ہے۔ اشرف المخلوقات ہونے کے علاوہ انسان ایک معاشرتی حیوان بھی ہے اور اس معاشرے میں رہنے کے لیے اسے بہت سے اصولوں پر قائم رہنا ہوتا ہے۔ انسان کے دماغ کے تین حصے ہوتے ہیں۔ شعور، تحت الشعور اور لاشعور۔

’’شعور‘‘ میں انسان کو ایک عقل مند اور صحت مند انسان تصور کیا جاتا ہے جیسا کہ میں اور آپ سب۔ اس کے بعد دوسری منزل ’’تحت الشعور‘‘ ہے جس میں انسان نیند یا غنودگی کی کیفیت میں چلا جاتا ہے۔ نشہ بھی اس کی ایک قسم ہے لیکن جب انسان ’’لاشعور‘‘ کی کیفیت میں چلا جائے تو یہ ایک انسانی دماغ کی خطرناک حد ہے۔ اس حالت میں انسان قابل رحم ہو جاتا ہے۔ آج آپ ایسے ہی لوگوں سے ملنے والے ہو۔ اس لیے اپنے جذبوں اور حوصلوں کو مضبوط کیجئے اور کوشش کیجئے کہ آپ کی وجہ سے ان میں سے کسی کو دل آزاری نہ پہنچے۔ بہت شکریہ!

اپنی تقریر ختم کر کے وہ مسکراتے ہوئے اپنے آفس کی طرف چلے گئے۔ وہاں کے وارڈن پروفیسر صاحبان اور سٹوڈنٹس کو لے کر ڈیپارٹمنٹس دکھانے لے گئے۔ سب سے پہلے ایک ایسے ڈیپارٹمنٹ میں لے جایا گیا، جہاں کافی عورتیں مختلف ہنر اور کام کرنے میں مصروف تھیں۔ سلائی، کڑھائی کے علاوہ کوئی فائن آرٹ بنا رہی تھی۔ کوئی ہینڈی میڈ کرافٹس میں مصروف تھی۔ یہ ڈیپارٹمنٹ دیکھ کر ہم سب حیران رہ گئے کیونکہ جس طرح وہ عورتیں کام میں مصروف تھیں۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ مینٹل ہاسپٹل میں ہیں۔ وارڈن صاحب ہمیں بتانے لگے کہ یہ وہ عورتیں ہیں جو ویسے تو ذہنی طور پر پاگل ہیں لیکن اس قابل ہیں کہ وہ زندگی کے کسی ہنر میں حصہ لے سکتی ہیں۔ اس لیے اس ڈیپارٹمنٹ میں تمام ہینڈی کرافٹس کا کام کروایا جاتا ہے۔

ہم ایک ایک عورت کے پاس جاتے اور اس کا کام دیکھتے۔ بڑے حیران ہوتے کہ اس حالت میں بھی ان کے ہنر میں کمی نہیں آتی اور جو شخص کام کے قابل ہوتا ہے اس کو اسی درجے میں رکھا جاتا ہے۔ کوئی عورت سویٹر بن رہی تھی، کوئی نالے بن رہی تھی۔ ایک عورت ہاتھ میں فریم پکڑے کپڑے پر کڑھائی کے بہت خوبصورت پھول بنا رہی تھی۔ جب اس کے قریب سے گزرے تو ایسے لگا کہ وہ کوئی گانا ہے جو مسلسل ایک ہی لہر میں گائے جا رہی ہے۔ وارڈن صاحبہ یہ کیا گنگنا رہی ہے ایسے محسوس ہو رہا ہے جیسے کوئی پرانا گانا گا رہی ہو۔

ہم نے وارڈن صاحبہ سے سوال کیا تو وہ مسکرانے لگیں ہاں ایسا ہی ہے، واقعی یہ گانا گا رہی ہیں۔ دراصل یہ اپنی زندگی میں بہت خوش و خرم تھیں لیکن ایک دن اچانک ان کے ساتھ ایک ایسا حادثہ ہوا کہ جس وقت ان کے شوہر نے اچانک انہیں طلاق دی تو ریڈیو پر یہ گانا چل رہا تھا۔ یہ اپنے شوہر سے بہت محبت کرتی تھی۔ اچانک طلاق کے الفاظ ان کے دماغ کو سٹل (still) کر گئے۔ تمام یادداشت بھول گئی اور صرف یہ گانا ہی یاد رہ گیا۔ اب دماغ کی سطح پر تمام یادداشت ایک طرف اور زبان پر صرف یہ گانا۔ وارڈن صاحبہ کی زبان سے یہ کہانی سن کر دل میں بہت سے احساس اوپر نیچے ہونے لگے۔ کیا بیتی ہو گی اس وقت ان کے دل پر۔ انسان دوسروں کے جذبات کا احساس کیے بغیر جب اپنی خواہشات کے لیے کوئی قدم اٹھاتا ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس بات کا اثر دوسروں پر کیا ہو گا۔ انسان کا ذہن بھی کس قدر کمزور ہوتا ہے۔ حادثات کا اثر کس حد تک قبول کر جاتا ہے۔

اگلا سروے ہمارا اس وارڈ میں تھا جہاں شدید قسم کے ’’شیزو فرینیا‘‘ کے مریض تھے۔ یہ اس سے بھی زیادہ انوکھا اور خوفناک قسم کا وزٹ تھا۔ اس وارڈ میں داخل ہوتے ہی عجیب سی کپکپی کا احساس ہوا۔ یہ وارڈ ایک بڑی جیل سے کم نہیں تھی۔ ذہنی امراض کا شکار انسانوں کے ساتھ قیدیوں والا سلوک کیا جاتا تھا۔ وہ تھے بھی اتنے ہی خطرناک پوزیشن میں۔ بڑی بڑی سلاخوں والے بیرک اور اس میں بند مریض جن کو لاک اپ کے اندر ہی کھانا دیا جاتا اور اندر ہی واش روم بنے ہوئے تھے۔ سٹوڈنٹس کا گروپ دیکھ کر یہ لوگ الرٹ ہو گئے اور مختلف آوازیں نکالنے لگے۔ ہمیں یہاں سے نکالو، ہم بہت پریشان ہیں۔ ہمیں ہمارے رشتے داروں سے ملنا ہے۔ ان مریضوں کی حالت دیکھ کر دل پہلے سے زیادہ پریشان ہوا۔ وارڈن صاحبہ منع کر رہی تھیں کسی بیرک کے نزدیک نہیں جانا۔ چلتے چلتے ایک بیرک سے ایک عورت نے ایک خط ہمارے آگے کر دیا اور چلانے لگی۔

یہ خط میری بہن کو پہنچا دینا اس سے کہنا میں بالکل ٹھیک ہوں۔ مجھے آ کر لے جائے۔ دیکھو بہن میرے چچا نے جائیداد کے لالچ میں مجھے یہاں پاگل ثابت کر کے قید کروا دیا ہے۔ براہِ کرم! میری مدد کرو۔ میرے قدم اس طرف بڑھنے لگے۔ دیکھنے میں وہ عورت مکمل ٹھیک لگ رہی تھی کہ وارڈن صاحبہ نے چیختے ہوئے کہا: ’’خبردار بالکل ہاتھ نہیں بڑھانا یہ شدید قسم کی ذہنی مریضہ ہے، نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔‘‘ میں نے ڈرتے ہوئے قدم پیچھے کر لیے۔ کچھ دیر کے لیے میرا دل سہم گیا۔ تھوڑا اور آگے بڑھے تو ایک بیرک میں اک دلدوز سین دیکھ کر ہمارے اوسان خطا ہو گئے۔ ایک شدید ذہنی کرب کا شکار ایک عورت اپنے جسم کو نوچ رہی تھی اور چلا رہی تھی۔ پھٹے ہوئے کپڑے اور بکھڑے ہوئے گندے بال انتہائی خوفناک سین تھا۔ ’’مجھے نوچ لو۔ مجھے کھا جاؤ۔ مجھے مار دو، میں اسی قابل ہوں۔‘‘ تمام سٹوڈنٹس کو شدید قسم کا ذہنی جھٹکا لگا۔ ’’اس کو کیا ہوا تھا وارڈن صاحبہ۔‘‘ میرے ساتھی سٹوڈنٹ نے سوال کیا۔ بس بیٹا یہ عورت معاشرے کی شدید درندگی کا شکار ہو چکی ہے۔ اتنا زیادہ کہ اپنی ذہنی کیفیت کے اصل کو بھول چکی ہے۔ بس اپنی اسی کیفیت کو یاد رکھ سکی ہے۔وارڈن صاحبہ نے انتہائی دکھی انداز میں جواب دیا۔

یہ سین تمام سٹوڈنٹس کیلئے ناقابل برداشت تھا۔ خیر شام کے 4 بج چکے تھے۔ وارڈن صاحبہ ہم سب سٹوڈنٹس اور پروفیسرز صاحبان کو لے کر فاؤنٹین ہاؤس کے بڑے ہال میں آ گئیں۔ وہاں ہمارے لیے چائے وغیرہ کا انتظام کیا ہوا تھا۔ تمام سٹوڈنٹس نے چائے وغیرہ پی کر ذہن فریش کیے۔ ہم سب خوش گپیوں میں مشغول ہو گئے۔کچھ دیر بعد چیئرمین صاحب تشریف لائے اور انہوں نے اعلان کیا کہ یہاں کے ایک گائیک ہمیں ایک غزل سنائیں گے۔ ایک انتہائی وجیہہ قسم کے انسان لگ بھگ 40 کی ایج کے ہوں گے۔ انتہائی نفیس لباس پہنے سٹیج پر تشریف لائے۔ انتہائی خوبصورت آرکسٹرا انتظام کیا گیا تھا۔ بڑی خوبصورت آواز میں ان محترم نے غزل گائی۔
کسی نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہے
کہاں ہو تم کہ یہ دل بے قرار آج بھی ہے

ہم تمام سٹوڈنٹس کچھ دیر کو بھول گئے کہ ہم کہاں پر ہیں۔ آواز میں اتنا سحر تھا، غزل ختم ہوئی تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ سب نے بہت داد دی۔ شاید لائیو، سب کو پہلی دفعہ سب نے گاتے ہوئے دیکھا تھا۔ آواز میں انتہائی سحر تھا۔ وہ صاحب غزل کے ختم ہوتے ہی ہال سے باہر تشریف لے گئے۔ تمام سٹوڈنٹس یہ سمجھے کہ وہ کوئی گلوار ہیں لیکن ان کے جانے کے بعد چیئرمین صاحب نے بتایا کہ یہ صاحب بھی ذہنی مریض ہیں۔ ہم سب حیران و ششدر رہ گئے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص ذہنی مریض بھی ہو اور اس کا سُر اور تال بھی اتنا اچھا ہو۔ ابھی ہم انہی باتوں میں مصروف تھے کہ اچانک فاؤنٹین ہاؤس کے باہر لان میں ایک شور اُٹھا۔ سب باہر کی طرف بھاگے۔ لان کے پاس پکے فرش پر ایک شخص کی لاش پڑی تھی جس نے فاؤنٹین ہاؤس کی چھت پر چڑھ کر خودکشی کر لی تھی۔

جب ان کو سیدھا کر کے دیکھا گیا تو سب کی چیخیں نکل گئیں۔ یہ تو وہی محترم تھے جو ابھی ابھی غزل گا کر ہال سے باہر گئے تھے۔ غلطی صرف یہ ہوئی کہ ان کو ان کی اصل جگہ پر لے جانے میں کچھ دیر ہو گئی۔ ایمبولینس منگوا کر ان کو فوراً اسپتال لے جایا گیا۔وارڈن صاحبہ نے بتایا کہ یہ جناب محبت میں دھوکے کھا چکے تھے۔ اس لیے ان کی ذہنی حالت ان کے کنٹرول میں نہیں تھی۔ خیال تو بہت رکھا جاتا تھا کہ یہ سب اپنے کمروں میں رہیں لیکن چھوٹی سی کوتاہی ان کی موت کا سامان بن گئی۔ دیکھنے میں وہ بالکل بھی مریض نہیں لگ رہے تھے۔

یہ واقعہ دیکھ کر سٹوڈنٹس اور پروفیسرز صاحبان کو چکر آ رہے تھے۔ شام کے 7 بج رہے تھے، سب بس میں سوار ہوئے اور واپس یونیورسٹی کی طرف آ گئے۔ یہ دن زندگی کا ایک اہم ترین اور یادگار دن بن گیا۔ آج پانچ سال گزر چکے ہیں لیکن یہ واقعات آج بھی آنکھوں کے سامنے گھومتے ہیں۔ شاید عام دنیا میں رہنے والے انسان کبھی بھی فاؤنٹین ہاؤس کے اندر رہنے والے انسانوں کے جذبات، احساسات اور کیفیات کو نہیں سمجھ سکتے جب تک ہم ان کے قریب سے ہو کر نہ آ جائیں۔ اﷲ سب پر اپنی رحمت کا سایہ کرے۔ آمین!
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1031729 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.