دعا عین عبادت ہے، اور جب الفاظِ دعا پاک نبی ﷺکے سکھائے
ہوئے ہوں، تو ان کی اہمیت دو چند نہیں سو چند ہو جاتی ہے۔ خدا کا اشاد ہے
کہ میرا نبی وہی کہتا ہے،جو اسے وحی کے ذریعے سکھایا جاتا ہے۔ گویا زبانِ
مبارک نبی کی ہے، لیکن تعلیم اُس خدا کی ہے۔ پھر دعا نام ہے عاجزی و مسکنت
کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے کا، اس یقین کے ساتھ کہ سب
کچھ اسی کے قبضے میں ہے۔ اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی حاجت طلب کرنے کے
لیے مسنون و ماثور دعاؤں کو اپنائیں۔مسنون و ماثور دعاؤں کی قدر و قیمت
اور اہمیت و افادیت سے کسے انکار ہو سکتا ہے؟ زبانِ نبوت سے جاری ہونے والی
دعاؤں کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ ان کی قبولیت کے امکانات بہت زیادہ
ہیں، اور ان دعاؤں کے الفاظ و مفاہیم پر غور کیجیے تو اپنی عبودیت اور خدا
کی ربوبیت کا احساس شدید تر ہوتا ہے اور دل گواہی دیتا کہ اللہ کے پاک نبی
نے جن الفاظ کے ساتھ جس موقع پر جو دعا سکھلائی ہے، اس موقع پر ان سے بہتر
الفاظ نہیں کہے جا سکتے۔
علامہ ابن قيم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’ ذکرِ الٰہی وہ درخت ہے جو معارف اور
ان احوال کا پھل دیتا ہے جن کی طرف سالکین کمر باندھتے ہیں اور ان معارف
واحوال کو ذکرِ الٰہی کے بغیر نہیں حاصل کیا جاسکتا۔ جب کبھی یہ درخت بڑاہو
گا اور اس کی جڑ مضبوط ہوگی تو اس کا پھل مزید بڑھے گا۔ لہٰذا ذ کرِ الٰہی
ہر مقام کا ثمر دیتا ہے، مثلاً توحید کی بیداری؛ جو کہ ہر مقام کی جڑ ہے ،
اور اس کی بنیاد ہے، جس پر وہ مقام کھڑا کیا جاتا ہے، جس طرح دیوار اپنی
بنیاد پر کھڑی کی جاتی ہے اور چھت دیواروں پر کھڑی کی جاتی ہے‘ ۔ اذ کارِ
مسنونہ بہترین فوائد اور بلند مقاصد پر مشتمل ہیں اور ان میں خیر، نفع،
برکت، اچھے فوائد اور عظیم نتایج سموئے ہوئے ہیں، جن کانہ تو کسی انسان کے
لیے احاطہ کرنا ممکن ہے اور نہ ہی ان کو زبان سے بیان کرناممکن ہے۔[روز مرہ
کی مسنون دعائیں]
مسنون دعائیں علوم کا ایک جہاں
حضورِ اقدس ﷺ کی مانگی ہوئی دعائیں علوم کا ایک جہاں ہیں، اگر انسان صرف
حضورِ اقدس ﷺ کی مانگی ہوئی دعاؤں کو غور سے پڑھ لے تو آں حضرت ﷺکے سچا
رسول ہونے میں کوئی ادنیٰ شبہ نہ رہے، یہ دعائیں بہ ذاتِ خود نبیِ کریم ﷺ
کی رسالت کی دلیل ہیں اور آپﷺکا معجزہ ہیں، کیوں کہ کوئی بھی انسان اپنی
ذاتی عقل اور ذاتی سوچ سے ایسی دعائیں مانگ ہی نہیں سکتا، جیسی دعائیں نبیِ
کریم ﷺ نے مانگیں اور اپنی امت کو وہ دعائیں تلقین فرمائیں۔ ایک ایک دعا
ایسی ہے کہ انسان اس دعا پر قربان ہوجائے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ
دعائیں اللہ کی طرف سے حضورِ اقدسﷺ پر الہام ہوئی ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہی
آپﷺ کے قلب پر القا فرمایا کہ مجھ سے یوں مانگو! اللہ تعالیٰ کی شان بھی
عجیب و غریب ہے کہ دینے والے اور عطا کرنے والے بھی خود ہیں اور بندے کو
دعا کرنے کا طریقہ بھی خود سکھاتے ہیں۔[اصلاحی خطبات]
نجات دینے اور مہلکات سے بچانے والی
ملا علی قاری رحمہ اللہ نے مسنون دعاو اذکار کا ایک مستند مجموعہ- الحزب
الاعظم والورد الافخم (دعاؤں کا بڑا مجموعہ اور عظیم الشان وظائف)- کے نام
سے ترتیب دیا اور مقدمے میں تحریر فرمایا:اس کا نام میں نے الحزب الاعظم اس
لیے تجویز کیا کہ ان دعاؤں کی نسبت رسولِ اکرم ﷺکی جانب ہے، لہٰذا آپ ان
کے الفاظ کا خوب خیال رکھیں، معانی پر غور کریں اور ان مضامین پر عمل کریں،
کیوں کہ اس مجموعے میں وہ تمام دعا ئیں شامل ہیں جو آپ کو نجات دینے اور
مہلکات سے بچانے والی ہیں، کیوں کہ آپﷺنے کوئی عمدہ خصلت اور اچھی عادت
ایسی نہیں چھوڑی جس کی آپ نے دعا نہ کی ہو، اور کوئی برا کام اور بری خصلت
ایسی نہیں چھوڑی، جس سے آپ ﷺنے اللہ کی پناہ نہ مانگی ہو۔(مقدمہ المؤلف)
مسنون دعاؤں کے دو پہلو
ان دعاؤں کی اہمیت و افادیت کے دو پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے مولانامحمد
منظور نعمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’ان دُعاؤں کی قدر و قیمت اور افادیت کا
ایک عام عملی پہلو تو یہ ہے کہ ان سے دعا کرنے اور اللہ سے اپنی حاجتیں
مانگنے کا سلیقہ اور طریقہ معلوم ہوتا ہے اور اس باب میں وہ رہنمائی ملتی
ہے جو کہیں سے نہیں مل سکتی، اور ایک دوسرا خاص عملی اور عرفانی پہلو یہ ہے
کہ ان سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ کی روحِ پاک کو اللہ تعالیٰ سے کتنی
گہری اور ہمہ وقتی وابستگی تھی اور آپ کے قلب پر اس کا جلال و جمال کس قدر
چھایا ہوا تھا، اور اپنی اور ساری کائنات کی بےبسی اور لاچاری اور اس مالک
الملک کی قدرتِ کاملہ اور ہمہ گیر رحمت و ربوبیت پر آپ کو کس درجے یقین
تھا کہ گویا یہ آپ کے لیے غیب نہیں شہود تھا۔ حدیث کے ذخیرے میں رسول
اللہﷺ کی جو سیکڑوں دعائیں محفوظ ہیں، ان میں اگر تفکر کیا جائے تو کھلے
طور پر محسوس ہو گا کہ ان میں سے ہر دعا معرفتِ الٰہی کا شاہ کار اور آپ
کے کمالِ روحانی و خدا آشنائی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپﷺ کے صدقِ تعلق
کا مستقل برہان ہے، اور اس لحاظ سے ہر ماثور دُعا بجائے خود آپ کا ایک
روشن معجزہ ہے۔اس عاجز راقم سطور کا دستور ہے کہ جب کبھی پڑھے لکھے اور
سمجھ دار غیر مسلموں کے سامنے رسول اللہﷺ کا تعارف کرانے کا موقع ملتا ہے
تو آپﷺ کی کچھ دعائیں ان کو ضرور سناتا ہوں۔ قریب قریب سو فی صد تجربہ ہے
کہ وہ ہر چیز سے زیادہ آپﷺکی دعاؤں سے متاثر ہوتے ہیں اور آپﷺ کے کمالِ
خدا رسی و خدا شناسی میں ان کو شبہ نہیں رہتا۔[معارف الحدیث]
ان دعاؤں میں نبوت کا نور ہے
ان دعاؤں میں کیا جواہر موجود ہیں، اس کا ادراک صاحبِ دل ہی کر سکتا ہے
اور ان کی صحیح قدردانی اسے ہی نصیب ہو سکتی ہے جسے اللہ تعالیٰ کی معرفت
کا کوئی حصہ نصیب ہو۔ یہ دعائیں دلائلِ نبوت، معجزاتِ نبوت اور نورِ نبوت
کی آئینہ دار ہیں۔ بہ قول مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ :’یہ
دعائیں مستقل معجزات اور دلائلِ نبوت ہیں، ان کے الفاظ شہادت دیتے ہیں کہ
وہ ایک پیغمبر ہی کی زبان سے نکلے ہیں۔ ان میں نبوت کا نور ہے، پیغمبر کا
یقین ہے، عبدِ کامل کا نیاز ہے، محبوب رب العالمین کا اعتماد و ناز
ہے،فطرتِ نبوت کی معصومیت و سادگی ہے، دلِ دردمند و قلبِ مضطر کی بے تکلفی
و بے ساختگی ہے، صاحبِ غرض و حاجت مند کا اصرار و اضطرار بھی ہے اور
بارگاہِ الوہیت کے ادب شناس کی احتیاط بھی۔ دل کی جراحت اور درد کی کسک بھی
ہے اور چارہ ساز کی چارہ سازی اور دل نوازی کا یقین و سرور بھی۔[سیرتِ
محمدی دعاؤں کے آئینے میں]
ایمان کی پختگی کا مؤثر ترین ذریعہ
یہ دعائیں ایمان کی پختگی کا مؤثر ترین ذریعہ بھی ہیں، بہ قول مولانا عاشق
الٰہی بلند شہری رحمہ اللہ:حضورِ اقدسﷺ ہر وقت اللہ کا ذکر فرماتے تھے، اس
ذکر میں یہ دعائیں بھی شامل ہیں جن کو موقع بہ موقع پڑھنا مروی ہے۔ان
دعاؤں کے معانی میں غور وخوض کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں اسلام کی
بڑی اہم تعلیمات ہیں، ان کے پڑھنے اور سمجھنے سے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا
باربار اقرار ہوتا ہےاور دل وزبان پر باربار یہ با ت آتی ہے کہ اللہ ہی نے
پیدا فرمایاہے،اسی نے زندہ رکھا ،اسی نے سُلایا،اسی نے سوتے سے جگایا،اسی
نے کھلایااور اسی نے پلایااور پہنایا،اسی کے حکم سے صبح ہوتی ہے،اسی کے حکم
سے شام ہوتی ہے،سفر اور حضر میں وہی محافظ ہے،دشمنوں کے شر سے وہی بچاتا
ہے،شیطان سے وہی محفوظ رکھتا ہے،ہر دکھ کو دور کرنے والا وہی ہے،بارش اسی
کے حکم سے آتی ہے،ہوائیں اسی کے حکم سے چلتی ہیں،ہر خیر کا سوال اسی سے
کرنا چاہیے،اور ہر شر سے محفوظ رہنے کے لیے اسی کو پکار نا چاہیے ،ہر مصیبت
میں اسی کو پکارو،ہر مجلس اور ہر موقع اور ہر مقام میں اسی کو یاد کرو،اور
نعمت کے حاصل ہونے پر اور ہر دکھ تکلیف کے چلے جانے پر اسی کا
شکراداکرو۔[فضائلِ دعا] |