مخلوقات کو دو بڑی اقسام میں بے جان بےحس اور جاندارحساس
ہوتے ہیں ۔ محسوسات کے مختلف درجات میں مادی اور جبلی لذاّت نیز اس سے آگے
بڑھ کر روحانی اور اخروی نعمتوں کا ادراک شامل ہے۔بے شعور مخلوقات مثلاً
جانوروں کا احساس محدود ہوتا ہے ۔ باشعور انسانوں میں جس کا شعور جتنا وسیع
اس کا احساس اتنا بلند ہوتا ہے۔ انسانی زندگی خوشی اور غم کے دو پہیوں پر
چلتی ہے ۔ انسان ہمیشہ خوش رہنا چاہتا ہے لیکن رہ نہیں پاتا اور غم و اندوہ
کے بادل بھی مستقل نہیں ہوتے۔ غم احساس کبھی کم ہوجاتا ہے اور پھرغم کے
بادل چھٹ بھی جاتے ہیں۔ بقول غالب ؎
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
خوشی اور غم سےساری مخلوقات ہمکنارنہیں ہوتیں ۔ بے جان اشیاء اس احساس سے
محروم ہوتی ہیں مثلاً گاڑی گاڑی کے اندر چلنے ، مڑنے اور رکنے کی صلاحیت
ہوتی ہے۔ اس کا استعمال کرکے ڈرائیور اس کو چلاتا ہے لیکن رنج و مسرت گاڑی
کانہیں ڈرائیور کا مقدر بنتے ہیں کیونکہ کہ ڈرائیور کے اندر اپنی منزل
مقصود کا شعور اور اس تک پہنچنے کی خواہش ہوتی ہے ۔ اس کے لیے وہ کوشش اور
محنت کرتا ہے ۔حسبِ ضرورت گاڑی کی رفتا بڑھاتا یا کم کرتا ہے۔ دائیں بائیں
موڑتا ہے تاکہ مقرر وقت پر اپنی منزل تک پہنچ جائے۔اپنی کامیابی پر وہ خوش
ہوتا ہے لیکن اگر راستے میں اگر گاڑی خراب ہوجائے تووہ خود غمگین ہوتا ہے
مگر گاڑی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ راستے کے ٹرافک سے جو انسان کے اختیار سے
باہر ہونے کے باوجود ڈرائیورکو غمزدہ کردیتا ہے کیونکہ تاخیر کے سبب اس کی
خواہش ادھوری رہ جاتی ہے ۔
خوشی اور غم کا براہ راست تعلق ضرورت ، خواہش ، کوشش اور نتیجہ سے ہے۔بچے
کو بھوک کا احساس رلاتا ہےدودھ کی ضرورت پوری ہوجانے پروہ مطمئن ہوکر
سوجاتا ہے۔ اس کے بعد چاکلیٹ اور کھلونوں کی خواہش جنم لیتی ہے ۔ والدین سے
تقاضہ کرکےاس خواہش کو پوراکرتاہے خوش ہوجاتا ہے ورنہ اداس رہتا ہے۔ اسکول
کے امتحان میں کامیاب ہوکر اگلے درجات میں جانے کی خواہش طالبعلم سے محنت
کرواتی اور کامیابی اس کو خوش کردیتی ہے بصورتِ دیگر غمگین ہوجاتا ہے ۔ اسی
طرح اپنی پسند کے کورس میں داخلہ ، اپنی پسند کا کیرئیر اس کی خوشی و غم کا
سبب بنتا ہے ۔جوڈاکٹر بننا چاہتا ہے وہ افسر بن کر غمگین اور جو افسر بننا
چاہتا ہے وہ ڈاکٹر بن کر بھی اداس رہتا ہے۔ اصل مسئلہ ڈاکٹری یا افسری کا
نہیں بلکہ خواہش اور توقع کاہے۔ وہی انسان کو خوش یا ناراض کرتی ہے ۔
کیرئیر سے آگے ازدواجی زندگی ہے انسان جس سے شادی کرنا چاہتا ہے اس سے
نکاح کرکے خوش ہوتا ہے ورنہ غمگین ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد گھر کی خواہش اور
بچوں سے توقعات وغیرہ کا بکھیڑہ لگا رہتا ہے بقول غالب ؎
ہزاروں خوا ہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
یہ مادی چکر انسانوں کو کبھی خوشی اور کبھی غم سے دوچار کرتا رہتا ہے لیکن
جو کسی عظیم مقصد حیات کےلیے جیتے ہیں ۔ عامتہ الناس کی فلاح بہبود جن کا
مطلوب ہوتی ہے ۔ عدل و انصاف کے قیام کی خواہش میں انفرادی واجتماعی جدو
جہد کرنے والے اپنی کامیابی پر خوش ہوتےہیں مگر ناکامی کی صورت میں مایوسی
کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس سے آگے بڑھ کر اپنے خالق و مالک کی خوشنودی کے لیے
اس کے بتائے ہوئے طریقہ پر عدل و قسط کی خاطر جدوجہد کرنے والوں کو اس دنیا
کی ناکامی مایوس نہیں کرتی کیونکہ انہیں اپنے اجرو ثواب کا یقین ہوتا ہے ۔
وہ مشکل ترین حالات میں بھی ثابت قدم رہتے ہیں ۔ ان کے بارے میں ارشادربانی
ہے’’ ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے
عہد کو سچا کر دکھایا ہے ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت
آنے کا منتظر ہے انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی‘‘۔دنیوی خوشی
اور اخروی کامیابی کی شاہِ کلید یہی نسخۂ کیمیا ہے۔
|