یہ پردیسی یہ تیرے پراسرار بکرے

وہ یتیم تھا اور آٹھ بہنوں کا سب سے بڑا بھائی تھا ۔ آخر میں بھی ایک بھائی تھا جو بہنوں جیسا ہی تھا ۔
تین بہنیں بیاہ دینے کے بعد وہ اپنے لیے بھی دلہن بیاہ لایا جو ایسی بھاگوان نکلی کہ اس کی آمد کی برکت سے اس کی عرصہء دراز سے بغرض بہتر روزگار سعودیہ روانگی کی کوششیں بارآور ثابت ہوئیں اس کا ویزہ لگ گیا ۔ پھر اسے اپنی چھ ماہ کی حاملہ بیوی کو روتا تڑپتا چھوڑ کر بادل نخواستہ روانہ ہونا ہی پڑا ۔ پھر بچہ ڈیڑھ سال کا ہو چکا تھا جب وہ چھٹی پر گھر آیا ۔ پیچھے سے بیٹی پیدا ہوئی وہ دو سال کی ہو چکی تھی جب یہ واپس آیا ۔ بس ایسے ہی آتا جاتا رہا اور اسی دوران تین بچے اور ہوئے کسی کی بھی پیدائش کے موقع پر وہ موجود نہ تھا اور اسی عرصے کے دوران اس نے اپنی تین اور بہنیں بیاہ دیں ۔ اور یہ بھی وہی زمانہ تھا جب بہنوں کو بیاہ دینے کے بعد بھی پردیسیوں کی جان چھوٹتی نہیں تھی بلکہ مزید پھنس جاتی تھی ۔ ان کے لالچی اور شاطر شوہروں کی فرمائشیں اور مطالبات پھر عید تہوار پر ان کے لیے تحائف اور نقدی بھی بچوں کی تقریبات پر رسم و رواج کی آڑ میں طلائی گہنے بھی ۔ اور اس سارے سازشی ماحول کو پروان چڑھانے اور اسے ہوا دینے میں خودغرض اور مطلب پرست بہنوں کے ساتھ ساتھ ایک ماں کا بھی پورا پورا ہاتھ ہوتا تھا ۔ وہی ماں جس کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے اور اسی جنت کو پکی کرنے کے لیے لوگ اپنے بیوی بچوں کو جوائنٹ کے جہنم کا ایندھن بنا دیتے ہیں ۔ اپنی پردیس کی خون پسینے کی کمائی سے اپنے پورے خاندان کو پالتے ہیں مگر خود اپنے بیوی بچوں کو ان کی زندگی جینے نہیں دے سکتے ۔ بلکہ بارہا انہی کی ضروریات و خواہشات کو پس پشت ڈال کر باقی لوگوں کی ہر جائز و ناجائز مانگ کو پورا کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔

خیر کوئی پندرہ برس کا پردیس کاٹ کر وہ مستقل واپس آ گیا ۔ اور اس عرصے کے دوران خستہ و سادہ سے گھر کی بہت اچھی تزئین و آرائش کر لی گئی تھی ایک اچھے اور کافی مہنگے علاقے میں دکان بھی لے لی تھی ۔ ذمہ داریاں بدستور سر پر تھیں باقی دونوں بہنوں کی اعلا تعلیم اور شادیوں کے بعد بھائی کی نوکری لگتے ہی اس کی بھی شادی کر دی ۔ جس کی بیوی شوہر کی غیر موجودگی میں ایک رات بھی سسرال میں گزارنے کی روادار نہ تھی وہ کمپنی کی طرف سے کبھی بیرون شہر جاتا تو یہ فوراً اپنے میکے روانہ ہو جاتی اور اس کے واپس آنے تک وہیں رکی رہتی ۔ پھر چند برس اور گزرے اور ماں کے انتقال کے بعد حسب دستور مکان کے بٹوارے کا شوشہ چھڑا کچھ بہنیں اتاؤلی ہوئی پڑی تھیں کہ بھائی کہیں اکیلا ہی سب کچھ ہضم نہ کر جائے کیونکہ موصوف نے ابھی تک خود اپنی چھت کا کوئی بند و بست نہیں کیا تھا یا یوں کہہ لیں کہ موقع ہی نہیں ملا تھا ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ رشتوں اور رسموں کو نبھاتے ہوئے ہاتھ پلے کچھ بچتا ہی نہیں تھا ۔ لہٰذا مشترکہ گھر کو ہی اپنا آخری ٹھکانہ سمجھ رکھا تھا اور کوئی صبر کرنے کے لیے تیار نہ تھا ۔ کسی کو اس کی مجبوریوں اور مسائل سے کوئی سروکار نہیں تھا ہر کوئی اپنے دکھڑے رو کر مکان بکوانے پر کمر بستہ ہؤا پڑا تھا انہیں بس اپنا حصہ درکار تھا ۔ ساری زندگی محنت کرنے والا اور قربانیاں دینے والا بھائی بیشک بھاڑ میں جائے ۔ پھر مکان اچھی حالت میں ہونے کی وجہ سے اس کے دام بھی اچھے لگے پہلے مال کس نے خرچ کیا تھا اس کا کوئی حساب کتاب نہیں کیا گیا اور اب سب نے برابر سے اپنا اپنا حصہ وصول کیا ۔ اس کے حصے میں جو کچھ آیا اس میں کرائے کے مکان میں جانا پڑا ، شوگر اور بلڈ پریشر کا مریض تو تھا ہی ہارٹ اٹیک کے بعد فالج کا بھی حملہ ہؤا جسمانی معذوری کے ساتھ ساتھ بینائی بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ۔

دراصل اس قسم کے عقل کے اندھوں کی بینائی تو اسی روز چلی جاتی ہے جب یہ اپنے خاندان کی خوشحالی اور مالی آسودگی کے لیے دیار غیر جا بستے ہیں پھر وہاں دن رات گدھوں کی طرح محنت کرتے ہوئے ان کی مت مر جاتی ہے اور یہ خود اپنوں خونی رشتوں کی سیان پتیوں سے بےخبر آنکھ بند کر کے اندھا دھند قربانیاں دیئے چلے جاتے ہیں اپنے بیوی بچوں تک کو اپنے نام نہاد فرائض کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں وہ گھر کی مرغی دال برابر ہوتے ہیں ۔ ساری عمر ان لوگوں سے ڈرنے میں گزار دیتے ہیں جو خود خدا سے بھی نہیں ڈرتے ۔
(رعنا تبسم پاشا)
 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1854552 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.