للن سلطانپوری سے کلن جونپوری نے کہا یاریہ بتاو کہ کیا
تم اب بھی رام نام کے چمتکار کے قائل ہوے یا نہیں ؟
ہاں بھائی میں تو اسی وقت ہوگیا تھا جب 10 منٹ کے اندر دو کروڈ کی زمین 18
کروڈ کی ہوگئی تھی ۔ اس کے آگے تو جادوگر سرکار بھی فیل ہے ۔
یار للن خاں صاحب آپ تو موقع دیکھ کے فوراً چوکا لگا دیتے ہو لیکن میں رام
مندر کی نہیں پنچایت چناو کی بات کررہا تھا ۔
لیکن کلن سنگھ صاحب وہاں تو سب توقع کے مطابق ہوا ۔ میرا مطلب ہے’یہ تو
ہونا ہی تھا ‘۔
کیسی باتیں کرتے ہیں للن بھیا ۔ 3ہزار میں سے 600 اور 75 میں 67 کیا معمولی
بات ہے؟ میں تو کہتا ہوں ’یوگی ہے تو ممکن ہے‘
سچ بتاوں کلن بھیا یہ تو آپ بھی کرسکتے ہیں کیونکہ ’ڈنڈا ہے تو ممکن ہے‘
یہ مناسب نہیں آپ ہمارے یوگی جی تو ہین کررہے ہیں ہے۔ آپ کو کبھی تو ان
کی صلاحیت کا اعتراف کرنا چاہیے ؟
صلاحیت اگر ہو تو ضرور کریں گے لیکن موجود تو ہو۔
اچھا تو کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ بغیر کسی مہارت کے یہ کمال اپنے آپ
ہوگیا ؟
جی نہیں لیکن اگر یوگی جی اتنے ہی باصلاحیت ہوتے تو 3 ہزار میں سے کیول 6
سو پر اکتفاء کرنے کے بجائے اپنے 2 ہزار ڈی ڈی سی کامیاب کروادیتے ۔
ارے خاں صاحب آپ تو آم کھانے کے بجائے پیڑ گننے لگے ۔ اس سے کیا فرق پڑتا
ہے ۔ پیڑ کسی کے بھی ہوں بالآخر آم تو ان کی ٹوکری میں آگئے۔
سنگھ صاحب آپ کی بات درست ہے لیکن ان آموں اور ان کی گٹھلیوں کے داموں پر
اگر آپ غور کرتے تو کاشتکاری چھوڑ کر سیاست میں چلے آتے ۔
للن خاں صاحب آپ پہیلیاں بجھواتے ہیں ۔ کھل کر بتائیے کہ کہنا کیا چاہتے
ہیں ؟
اب میں کیا بتاوں ہمارے سلطان پور ضلع پنچایت کی مثال بیان کردیتا ہوں سب
سمجھ میں آجائے گا ۔
یہ اچھا ہے۔ چلیے یہ بتائیے کہ آپ کے سلطانپور میں کیا ہوا؟
بھئی دیکھو ہمارے یہاں کل 44 ڈی ڈی سی کے ارکان ہیں اس لیے صدر بنانے کے
لیے 23 کی ضرورت تھی ۔
جی ہاں سمجھ گیا ۔ ان میں سے 20 تو بی جے پی نے جیت لیا ہوگا اورباہر سے
تین کی حمایت لے کر کامیابی درج کرالی ۔
جی نہیں سنگھ صاحب الٹا ہوگیا ۔
الٹا ! تو کیا بی جے پی کے 20 ؍ ارکان نے پارٹی سے بغاوت کردی ؟
ارے بھائی 20 جیتے ہی نہیں تو بغاوت کیسے کرتے ؟
پھر الٹا کیسے ہوگیا؟
ہوا یہ بی جے پی کے صرف 3 کامیاب ہوئے اور انہوں نے باہر سے 20کی حمایت
حاصل کرکے اپنا صدر بنوادیا ۔
اچھا ! تعجب ہے ؟ تب تو وہ بیس مل کر بی جے پی کے مکھیا کو کوئی کام ہی
نہیں کرنے دیں گے ۔
کیوں نہیں کرنے دیں گے ۔ سنگھ صاحب جوبھی کام ہوتا ہے وہ مل جل کر کیا جاتا
ہے ۔
میں نہیں سمجھا ۔ ان کو اگر مل جل کر کام کرنا تھا تو مل جل کر انتخاب بھی
لڑتے۔ الیکشن تو ایک دوسرے کے خلاف لڑا اور اب ساتھ ہوگئے۔
سنگھ صاحب آپ کو شاید نہیں پتہ کہ پنچایت میں کام کیا ہوتا ہے ؟
اچھا چلیے آپ ہی بتا دیجیے ۔ ہمیں تو اس کا تجربہ نہیں ہے ۔
دیکھو بھائی پنچایت میں سرکاری اسکیموں سے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے
روپیہ آتا ہے۔
یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔ اس سے جنتا کی سیوا کا موقع ملتا ہے ۔
جی ہاں لیکن اس سے عوام کی خدمت کم ہی ہوتی ہے ۔
کیا مطلب گاوں میں ، اسکول اسپتال وغیرہ نہیں بنتے ؟
بنتے تو ہیں لیکن کون بناتا ہے ؟ سب ٹھیکیدار ڈی ڈی سی کے ممبر بن جاتے ہیں
تاکہ زیادہ سے زیادہ ٹھیکے لے کر اپنی جیب بھر سکیں ۔
ارے ہاں لیکن نظریات بھی تو کوئی چیز ہوتے ہیں ؟ روپیہ کے لیے انسان اپنا
ضمیر بیچ دے یہ کیونکر ممکن ہے؟
بھائی کلن سنگھ آپ اپنی بات کررہے ہیں میں ڈی ڈی سی ٹھیکیداروں کی بات
کررہا ہوں؟
میں نہیں سمجھا للن سلطانپوری صاحب ۔ ہمارے جونپور میں یہ نہیں ہوتا اس لیے
ذرا کھول کر بتائیں۔
بھائی ایسا ہے کہ موجودہ سیاست میں آنے سےقبل ضمیرکا گلا گھونٹ دیا جاتا
ہے ۔ اس لیے سیاست کےبازار میں اس کی کوئی اوقات نہیں ہوتی ۔
اچھا تو وہاں کیا بکتا ہے ؟
سیاست کا بازار بھی رسد اور کھپت کے اصول پر چلتا ہے۔ کھپت کم ہوتو قیمت کم
اور رسد زیادہ ہو تب بھی قیمت، ورنہ بھاو آسمان چھونے لگتا ہے۔
سمجھ گیا خان صاحب یہی تو ہمارے ساتھ ہوتا جب دھان زیادہ ہوجاتی ہے تو کم
قیمت پر اور کم ہوجاتی ہے تو زیادہ قیمت پر بکتی ہے۔
ہاں تو ہمارے سلطانپور میں کھپت بہت زیادہ تھی 3 سے 22 پر جانا تھا اس لیے
خوب بولیاں لگیں ۔ خوب ایمان بکے اور کھلے عام سودے بازی ہوئی ۔
اچھا ! لیکن آپ کے علاقہ میں تو مسلمانوں کی تعداد ٹھیک ٹھاک ہے۔ آپ لوگ
ان کو کامیاب کرتے تو بی جے پی کے لیے مشکل ہوجاتا ۔
نہیں سنگھ صاحب ایسی بات نہیں ہم لوگوں نے اپنی آبادی کے تناسب سے پانچ
مسلمانوں کو کامیاب کردیا ۔
اچھا تو انہوں نے کیا کیا ؟ وہ تو باقی 22 میں رہے ہوں گے؟
جی نہیں ان کو روپیہ پیسے کی ضرورت بہت زیادہ تھی۔ ساڑھے چار سال سے ترس
رہے تھے اس لیے سب سے پہلے وہی فروخت ہوئے۔
اچھا تو کیا مسلمانوں کے دشمن یوگی نے مسلم ڈی ڈی سی ارکان کی اونچی قیمت
چکائی ؟ یہ ان کی بڑی سخاوت ہے۔
سخاوت نہیں دوست، مجبوری ہے۔ ویسے سیاست میں نہ کوئی کسی کا دوست ہوتا ہے
اور نہ دشمن ۔ یہاں وقت پڑنے پر گدھے کو باپ بنالیا جاتا ہے۔
اچھا تو کیا ہاتھی والے اور سائیکل والے مسلمان بک گئے؟
جی ہاں سبھی بک گئے سنگھ صاحب ۔ ایک بھی نہیں بچا ۔
اسی لیے اویسی صاحب کہتے ہیں سائیکل اور ہاتھی کو چھوڑ کر پتنگ اڑاو ۔ آج
اگر اتر پردیش میں پتنگ ہوتی تو یہ وقت نہیں آتا ۔
یہ آپ کی خام خیالی ہے سنگھ صاحب ۔ اس بار ہم نے بھی خوب پتنگ بازی کی اور
ایم آئی ایم کے تین تین امیدواروں کو کامیاب کیا ۔
اچھا ! تو کیا کمل نے ان کی بھی’ کائی پوچے‘ کردی ۔
جی ہاں افسوس کہ وہ سب بھی کٹ کر کمل کی جھولی میں چلی گئے ۔
جی ہاں سمجھ گیا ۔ اس بدعنوانی کا مقابلہ تو صرف کیجریوال کا جھاڑو ہی
کرسکتا ہے ۔ اب اسے آزماناچاہیے ۔
ارے بھائی کیا بتائیں ہم نے تو اس بار ایک جھاڑو والے مسلمان کو بھی کامیاب
کیا ۔
اچھا تو وہ بھی!
جی ہاں سنگھ صاحب۔ جب ایمان ہی نہ ہو تو پتنگ اور جھاڑو سے کیا ہوتا ہے؟
اچھا تو اویسی صاحب اب کس منہ سے یہ کہیں گے کہ ’ہم یوگی کو پھر سے وزیر
اعلیٰ نہیں بننے دیں گے؟‘‘۔
عصر حاضر کے بے چہرہ سیاستدانوں کے پاس دکھانے کے لیےمنہ نہیں بولنے کے لیے
زبان ہوتی ہے اور اس سے وہ اپنے من کی بات کہتے رہتے ہیں ۔
ہاں لیکن لوگ اگرسوال کریں کہ آپ کے رکن پنچایت کو بی جے پی نے کیسے خرید
ا تو کیا بولیں گے ؟
تو وہ جواب دیں گے کہ ہم نے انہیں نکال باہر کیا ؟ اور ہمارے علاوہ باقی
بھی تو بکے اس لیے جس کو بھی ووٹ دو گے وہ بک جائے گا ۔
مجھے تو لگتا خاں صاحب کے آپ بھی اگلے الیکشن میں پتنگ اڑاوگے ۔
بھائی دیکھو اپنا کیا ہے ؟ سائیکل ملی تو سائیکل، ہاتھی ملا تو ہاتھی اور
کچھ نہیں تو پتنگ ۔ سیاست میں خالی بھی تو نہیں رہ سکتے ۔
آپ تو کہہ رہے تھے سیاست ایک تجارت ہے ۔ انسان تجارت منافع کے لیے کرتا ہے
وقت گزاری کے لیے نہیں ۔
جی ہاں لیکن آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ اتر پردیش کے پچاس مقامات پر مسلمان
30فیصد ہیں اس لیے ان کی مرضی کا امیدوار کامیاب ہوجاتا ہے ۔
تو کیا آپ ان پچاس مقامات سے قسمت آزمائیں گے ؟
کوشش تو کروں گا لیکن 130؍ ایسے حلقے بھی ہیں جہاں مسلمان راج بھر جیسوں کے
ساتھ جوڑ توڑ کرکے جیت سکتے ہیں۔
یہ سب خیالی باتیں ہیں ۔ اس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن مغربی بنگال میں کیا ساری پتنگ کٹ گئی اور ایک کی بھی
ضمانت نہیں بچی ۔
دیکھیے سنگھ صاحب آپ میرے دوست ہیں پھر بھی بار بار غلط مثال دے کر میری
حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ یہ ٹھیک بات نہیں ہے ۔
ارے بھائی آپ بیکار میں ناراض ہوگئے ۔ میں نہ سہی آپ ہی اچھی مثال دے دیں
۔
آپ کو یاد ہوگا صرف 10سال قبل اترپردیش میں 54 ؍ مسلمان ارکان اسمبلی
منتخب ہوئے تھے
لیکن آپ تو 100 سے زیادہ کی بات کررہے تھے
جی ہاں اور 47 مقامات پر مسلم امیدوار دوسرے نمبر پرآیا تھا یعنی سمجھ لو
101 ہوگئے۔
یہ اچھا ہے لیکن یاد ہے نا پچھلے ریاستی انتخاب میں ایم آئی ایم کے 36
امیدواروں کی ضمانت ضبط ہوگئی تھی اور صرف ایک اپنی ضمانت بچا پایا تھا ۔
ہاں لیکن آپ نے سنا ہوگا گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں وہ طفل کیا
گریں گے جو سائیکل کے بل چلیں‘
لیکن گرنا ہی ہے تو لڑنا کیوں ؟
ارے بھائی نقصان کیا ہے۔ ہمارے پاس گنوانے کے لیے تو کچھ ہے نہیں ۔ ہار بھی
گئے تو نقصان کیا ہے؟
لیکن آپ اتنی محنت کریں گے پیسے کوڑی خرچ ہوگا تو کوئی فائدہ بھی تو ہونا
چاہیے ۔
بھئی سنگھ صاحب سیاست جوا ہے۔ سب قسمت آزماتے ہیں۔ ایک کی جیت اور باقی سب
کی ہار ہوجاتی ہے پھر بھی کھیل چلتا رہتا ہے ۔
لیکن امید بھی تو کوئی چیز ہے؟
ہاں تو ہم بھی ناامید کہاں ہیں ۔ 2015میں ایم آئی ایم کو بہار میں ایک سیٹ
بھی نہیں ملی تھی 2020 میں 5 ہوگئی 2025 میں 25 ہوجائے گی ۔
ارے خان صاحب شیخ چلی کے خواب چھوڑ کر حقیقت کی دنیا میں آئیں ۔ اتنے تو
تلنگانہ میں بھی نہیں آتے اور پھر یاد ہے مغربی بنگال میں کیا ہوا؟
جو ہمارا ہوا وہی حال کانگریس کا بھی ہوا تو کیا وہ الیکشن نہیں لڑے گی ؟
سیاست میں چلتا رہتا ہے آپ نہیں سمجھیں گے ۔
ٹھیک ہے للن خان صاحب۔ ہم کسان آدمی ہمیں سمجھنا بھی نہیں ہے۔ بس آپ کے
ساتھ تھوڑی بہت دل لگی کرلیتے ہیں چلیے اجازت دیجیے۔
جی کلن سنگھ صاحب آتے رہیے آپ سے بات کرکے بڑ ا مزہ آتا ہے ۔ دماغ کی
کئی کھڑکیاں کھل جاتی ہیں ۔
شکریہ خاں صاحب یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے چلتا ہوں ۔
|