#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{ سُورَةُالنُور ،
اٰیت 1 }}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیت !!
سورة
انزلنٰہا و
فرضنٰہا و
انزلنا فیھا
اٰیات بینٰت
لعلکم تذکرون 1
ھم نے اپنے تمام جہان کو اپنے تمام اہلِ جہان کے لیۓ ایک نُورانی جاۓ پناہ
بنا دیا ھے اور ھم نے اپنے تمام جہان و اہلِ جہان کے لیۓ ایک نُورانی
قانُون بنا کر اُس قانون کو اپنے جُملہ جہان و اہلِ جہان کے لیۓ ایک ایسا
قانُونِ راہ بنادیا ھے جس میں ھمارا ایک مُفصل بیانیہ ھے اور ھم نے اپنے
اِس مُفصل بیانیۓ کا یہ اہتمام اِس لیۓ کیا ھے کہ شاید تُم اُس قدیم قوم کے
اُس قدیم اور فطری قانُونِ جہان کو اپنے فکر و خیال میں لا سکو اور شاید
تُم اُس قدیم اور فطری قانُونِ جہان سے اپنے زمان و مکان میں ایک مُتمدن
انسانی معاشرہ بنا سکو !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
عُلماۓ روایت نے اپنے بیانِ بالا میں سُورةُالاَحزاب کی اٰیت 53 میں نازل
ہونے والے اللہ تعالٰی کے جس حُکم کو عورت کے لیۓ اللہ تعالٰی کا حُکم
"حجاب" قرار دیا ھے ھم نے اُن ہی سطُورِ بالا میں اُن کے اُس بیان کو رسُول
اللہ کے گھر گھرانے میں آنےجانے والوں کے لیۓ اللہ تعالٰی کا ایک حُکمِ
آداب کہا ھے اور ھم نے اللہ تعالٰی کے جس حُکم کو رسول اللہ کے گھر گھرانے
میں آنے جانے والوں کے لیۓ اللہ تعالٰی ایک حُکمِ آداب کہا ھے اُس حُکمِ
آداب کی پہلی ھدایت یہ ھے کہ تُم لوگ جب بھی اپنے نبی کے گھر میں آیا جایا
کرو تو اجازت لیۓ بغیر نہ آیا جایا کرو بلکہ اجازت لے کر آیا جایا کرو ،
دُوسری نصیحت یہ ھے کہ تُم جب کبھی بھی اپنے نبی کے گھر کھانا کھانے کے لیۓ
جایا کرو تو کھانا کھانے کے وقت پر جایا کرو کھانا کھانے کے وقت سے پہلے نہ
جایا کرو ، تیسری فہمائش یہ ھے کہ تُم جب اپنے نبی کے گھر میں کھانے کے وقت
پر جا کر کھانا کھا لیا کرو تو کھانا کھانے کے بعد وہاں مجلس جماکر بیٹھ نہ
جایا کرو بلکہ کھانا کھا کر رُخصت ہوجایا کرو اور اِس آداب نامے کا آخری
حُکم یہ ھے کہ { واذا سالتموھن فسئلوھن من وراء حجاب } اگر تُم نبی علیہ
السلام کی بیبیوں میں سے کسی بی بی سے بَھلائی کی کوئی بات پُوچھنا چاہو تو
پسِ دیوارِ پردہ رہ کر پُوچھ لیا کرو ، اللہ تعالٰی کا یہ حُکم بِلاشبہ
حجاب ہی کا ایک حُکم ھے لیکن حجاب کے اِس حُکم سے مُراد عورت کے جسم کی
چادر کا حجاب نہیں ھے بلکہ عورت کے گھر کی چاردیواری کا حجاب ھے ، چادر کا
یہ حجاب گھر سے باہر جانے والی خواتین کے لیۓ خاص ھے اور چار دیواری کا
حجاب گھر کے اندر رہنے والی غیر محرم عورتوں کے لیۓ ایک حُکمِ خاص اور گھر
سے باھر سے موجُود ہونے والے تمام غیر محرم مردوں اور تمام غیر محرم عورتوں
کے لیۓ ایک حُکمِ عام ھے جو سوال وراءِ حجاب کے لیۓ نازل ہوا ھے ، جلباب
علی الجیوب کے لیۓ نازل نہیں ہوا ھے لیکن بخاری کی اِس حدیث کے جاہل راوی
چونکہ حُکمِ حجاب و حُکم جلباب کے دو جُداگانہ اَحکام کو ایک ہی حُکم
سمجھتے تھے اِس لیۓ اُنہوں نے سیدہ عائشہ صدیقہ کے بیان میں یہ بات شامل کی
ھے کہ جب صفوان بن معطل سے میرا آمنا سامنا ہوا تو اُس وقت حُکمِ حجاب نازل
ہو چکا تھا ، حالانکہ صفوان سے اُن کا یہ مُبینہ آمنا سامنا ماہِ شعبان 6
ھجری بمطابق 626 عیسوی میں برپا ہونے والے غزوہ مری سیع کے بعد ہوا تھا اور
حجاب کا یہ حُکم ماہِ ذی قعد 7ھجری بمطابق 627 عیسوی کے بعد نازل ہوا تھا
اِس لیۓ بخاری کی یہ حدیث ایک ایسی حدیثِ حدث اور جُھوٹ کا ایک ایسا پلندہ
ھے جس میں شامل ہر جُھوٹ کا احاطہ کرنا ایک وقت طلب اور دِقت طلب کام ھے
تاہَم اِس مقام پر ھم بخاری کے اُُس بیان کے اُن راویوں کے اُن چند کُھلے
ننگے جُھوٹے پہلوؤں کی نشان دہی کرنا ضروری سمجھتے ہیں جن کے ذریعے امام
بخاری کے اُن کذاب راویوں نے سیدہ عائشہ صدیقہ کی سیرت و کردار کو دغدار
بانے کے لیۓ غزوہِ مری سیع کی اِس کہانی میں لشکر کی گری پڑی چیزیں اُٹھانے
اور لشکر کے پیچھے پیچھے آنے والے صفوان بن معطل کے جس کردار کو شامل کیا
ھے اور پھر جس کردار کو لشکرِ نبوی کے اُس پڑاؤ پر پُنہچایا ھے اور پھر
سیدہ عائشہ کا ہَمسفر بنایا ھے وہ اِس کہانی کے تسلسل میں اِس لیۓ فِٹ نہیں
ہوتا کہ لشکرِ نبوی نے اِس غزوے میں بنی مصطلق کی اِس بستی پر شعبان 6 ھجری
کی پہلی تاریخ کو دن کے پہلے پہر اُس وقت حملہ کیا تھا جب بستی کے لوگ اپنے
بستی کے جان وروں کو صُبح کا پہلا پانی پلا رھے تھے اور قبیلے کا سردار
بستی کے سرکردہ لوگوں کے ساتھ بستی سے فرار ہو چکا تھا اور بستی کے جو لوگ
آپ کے مقابلے کے لیۓ نکلے تھے اُنہوں نے اپنے پہلے دس جوانوں کے ہلاک ہوتے
ہی ہَتھیار ڈال دیۓ تھے ، لشکرِ نبوی نے اسی دن کی اسی دوپہر کے بعد اُس
جنگ سے واپسی کا سفر شروع کردیا تھا اور یہ لشکر اِس دن اور اِس دن کے بعد
آنے والی رات کو سفر کرتا ہوا ، اَگلے دن اُس مقام پر پُہنچا تھا جس مقام
پر بخاری کے راوی نے سیدہ عائشہ صدیقہ کا ہار گُم ہونے ، اُن کے ہار کی
تلاش کے لیۓ جانے اور لشکر کے وہاں سے کوچ کر جانے کی کہانی گھڑی ھے ، یہ
لشکر گزرے دن کی گزری جنگ اور رَفتہ شب کے سفرِ شب سے نڈھال ہو کر یہاں
پُہنچا تھا اور یہاں پر پُہنچتے ہی سو گیا تھا ، دن کے پچھلے پہر بیدار ہو
نے ، کھانا پکانے کھانے اور دُوسرے معمولاتِ حیات نمٹانے کے بعد نئی شب کے
آغاز میں اپنے واپسی کے سفر کے لیۓ چل نکلا تھا ، اگر صفوان بن معطل کو
لشکر کی پیچھے گری پڑی چیزیں اُٹھانے کے لیۓ پیچھے چھوڑا ہوگا تو خود اکرم
نے چھوڑا ہو گا اور نبی اکرم نے اُس کو اختتامِ جنگ کے بعد میدانِ جنگ میں
نہیں چھوڑا ہو گا بلکہ اسی لشکر گاہ میں چھوڑا ہو گا جس لشکر گاہ سے آپ کے
اُس لشکر نے آغازِ شب میں سفرِ شب شروع کیا تھا اور اِس صورت میں صفوان بن
معطل کو وہیں پر موجُود ہونا چاہیۓ تھا جہاں پر سیدہ عائشہ اپنا گم شدہ ہار
ڈھونڈ کر واپس پُنہچی تھیں اور "کوئی ھے کوئی ھے کی صدائیں لگا رہی تھیں ،
اگر صفوان وہاں موجُود تھا اور لشکر گاہ کے کسی گوشے میں لشکر کی کوئی گری
پڑی چیز تلاش کر رہا تھا تو اُس نے سیدہ عائشہ صدیقہ کی کسی صدا کا کوئی
جواب کیوں نہیں دیا تھا اور صُبح کے نمو دار ہوتے ہی وہ کہاں سے نمودار ہو
کر سامنے آگیا تھا ، اگر فرض کر لیا جاۓ کہ صفوان لشکر گاہ کے کسی حصے میں
موجُود ہو اور اُس نے سیدہ عائشہ صدیقہ کی آواز بھی سن لی ہو لیکن شب گزرنے
سے پہلے اُس نے سیدہ عائشہ صدیقہ کے قریب جانے سے بوجوہ احتراز کیا ہو اور
پھر صُبح ہوتے ہی وہ ام المؤمنین کے پاس آیا ہو اور اِن کو اپنے اونٹ پر
سوار کر کے لشکر کے تعاقب میں چل پڑا ہو لیکن بخاری کے اِن راویوں نے اِس
امکان کا اسی لیۓ ذکر نہیں کیا کہ اِس امکان کے اِس ذکر سے اُن کا وہ
بُہتان چُھپ جاتا جس بُہتان کو بیان کرنے کے لیۓ اُنہوں نے یہ طویل اور
ذلیل کہانی گھڑی ھے ، اِس کہانی کا سب سے زیادہ حیرتناک پہلو یہ ھے کہ
بخاری کے اِن راویوں نے اُس شب کے آغازِ شب میں ہی زوجہِ نبی کو لشکرِ نبوی
سے الگ کیا ھے جس شب کے آغازِ شب میں نبی اکرم کے اِس لشکر نے سفر شروع کیا
ھے ، رات بھر یہ سفر جاری رہا ھے ، اَگلے دن کے دوپہر گزرنے کے بعد اِس
لشکرنے ایک نۓ مقام پر پُہنچ کر ایک نیا پڑاؤ ڈال دیا ھے ، اِس اَثناء میں
اِس لشکر نے کہیں نہ کہیں پر صُبح کی نماز بھی پڑھی ہو گی ، آگے چلنے سے
پہلے کُچھ پکایا کھایا بھی ہو گا لیکن پُوری رات اور آدھے سے زیادہ دن
گزرنے کے بعد بھی نہ تو کسی کو سیدہ عائشہ صدیقہ کا خیال آیا ھے اور نہ اِن
کے بارے میں کسی نے کسی سے کوئی سوال کیا ھے ، نہ نبی اکرم کو اپنی بیوی کے
موجُود و غیر موجُود ہونے کی کوئی فکر ہوئی ھے ، نہ ابو بکر صدیق کو اپنی
بیٹی کے بارے میں کوئی تشویش ہوئی ھے اور نہ ہی اُن کے غیر موجُود ہونے کے
بارے میں اہلِ لشکر میں سے کسی نے کسی سے کوئی سوال کیا ھے یہاں تک کہ
دوپہر کے بعد جب لشکر کی گری پڑی چیزیں اُٹھا کر لانے والا صفوان بن معطل
سیدہ عائشہ صدیقہ کو اپنے اونٹ پر سوار کر کے لاتا ہوا نظر آیا ھے تو اُسی
ایک لَمحے میں اِس دروغ کا یہ طوفان آیا ھے کیونکہ درحقیقت تو اِس کہانی
میں زہری و بخاری کے یہ راوی یہ بتانا چاہ رھے ہیں کہ بنی اکرم کو جبریل نے
7 ھجری میں آپ پر کیۓ گۓ جس جادُو کی خبر دی تھی آپ پر اُس جادُو کا
ابتدائی اثر آپ کے اسی سفر میں ہونا شروع ہو گیا تھا اور اُس جادُو کی خاص
علامت یہ تھی کہ آپ محسوس کرتے تھے کہ آپ نے کوئی کام کیا ھے یا کوئی حُکم
دیا ھے حالانکہ آپ نے وہ کام بھی نہیں کیا ہوتا تھا اور وہ حُکم بھی نہیں
دیا ہوتا تھا ، زہری و بخاری کے راویوں نے یہ بات کُھلے لفظوں میں کُھلے
بندوں تو نہیں کہی ھے لیکن اُنہوں نے جو کہانی ترتیب دی ھے اُس کہانی کا
مطلب یہی ھے ، اِس کے سوا کُچھ بھی نہیں ھے !!
|