حضرت اسامۃ بن شریک ؓ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ کچھ بدوی
لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ﷺ کیا ہم اپنی بیماریوں کا علاج نہ کریں؟
تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا کیوں نہیں علاج کرو کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی
بیماری ایسی پیدا نہیں کی کہ جسکا علاج نہ ہو مگر ایک بیماری؟تو صحابہ کرامؓ
نے عرض کیا کہ وہ کونسی بیماری ہے اے اللہ کے رسولﷺ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا
کہ”بڑھاپا“ (یعنی اسکاکوئی علاج نہیں) ترمذی۔
اس حدیث شریف میں یہ بات بیا ن کی گئی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر
بیماری کا علاج پیدا فرمایا ہے مگر بوڑھاپا ایک ایسی بیماری ہے جو کہ
لاعلاج ہے اور اسکا کوئی علاج نہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے ”ہم جس کو لمبی
عمر عطا کرتے ہیں اسکی تخلیق میں زوال (کمزوری، ٹوٹ پھوٹ)“پیدا کردیتے
ہیں،کیا تمہیں سمجھ نہیں؟(یسٰین36:68)۔
قرآن پاک کی آیت ہے ”اور جب بھی میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی(اللہ) مجھ کو
شفا دیتا ہے“(الشعراء:80)۔
بات یہ ہے کہ ہر بیماری کا علاج تو ہے مگر شفا اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ
میں رکھی ہے، شفاء صرف اللہ کے حکم سے ہوتی ہے دواسے نہیں اگر شفا دوا میں
ہوتی تو دنیا میں کوئی شخص مریض نہ ہوتا، ہاں علاج کرنا اللہ کا حکم ہے او
ر نبی پاکﷺ کی سنت ہے اور دوا کرنے کے بعد شفا کی امید بھی ہوتی ہے۔
اس حدیث شریف میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ بوڑھاپے کا کوئی علاج نہیں چاہے
کوئی شخص کتنی اچھی دوائیاں ہی کیوں نہ استعمال کرلے مگر کمزوری اور جسمانی
ٹوٹ پھوٹ اور ہڈیوں کی کمزوری کو نہیں روک سکتا، ہا ں وقتی طور پر فائدہ
ہوسکتا ہے مگر مستقل نہیں، کچھ حکیم یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ ہم گذری جوانی
اور لٹا ہوا شباب واپس لا سکتے ہیں اور اس کیلئے وہ بڑی بڑی مہنگی دوا ئیاں
بھی دیتے ہیں مگر حکمت کا اصول یہ ہے کہ ہر دوا ہر شخص کو ایک ہی قسم کا
فائدہ نہیں دیتی بلکہ وہ اسکے مزاج کے مطابق کام کرتی ہے۔
بڑھاپے کا اصل فائدہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی سفید بالوں وال شخص یعنی بوڑھا
آدمی اللہ تعالیٰ کے آگے دست سوال دراز کرتا ہے تو اسکی دعا عام طور پر
قبول کی جاتی ہے، یہ ہیں بوڑھا ہونے کے اصل فائدے!
دراصل میں یہ وقت ہے آخرت کی تیاری کرنے کا، اللہ سے لَو لگانے کا اور اپنا
محاسبہ کرنے کا کہ
میں نے آگے کیا لے کر جانا ہے جو میرے کام آئے اور میری نجات کا سبب ہو۔
|