ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو
لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا۔ وہ وہی ہے جو مکے میں ہے، وہ تمام جہانوں کے
لیے برکت اور ہدایت والا ہے۔ خانۂ کعبہ کی عظمت کی بابت یہ ارشاد کہ وہ
تمام جہان والوں کے لیے باعثِ خیرو برکت ہے تعجب خیز لگتا ہے کیونکہ وہاں
تو غیر مسلمین کا داخلہ تک ممنوع ہے ۔ آخر یہ اللہ کا گھر ان کے لیے برکت
و ہدایت کا ذریعہ کیونکر ہوسکتا ہے؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہوسکتا گوکہ وہاں
غیر مسلم آ نہیں سکتے لیکن اس دورِ جدید میں مختلف ٹیلی ویژن چینلس پر
ساری دنیا حج کے دوران اتحادو مساوات کا ایک ایسا حیرت انگیز منظر دیکھتی
ہے کہ کہیں اور اس کا تصور محال ہے۔ اسلامی عبادات میں فریضہ ٔحج مسلمانانِ
عالم کے بے مثال اتحاد و مساوات کی جیتی جاگتی علامت ہے۔جو لوگ یہ دعویٰ
کرتے ہیں کہ ان کے پاس بھی تو مساوات و اتحا د کے نمونے ہیں وہ یلی ویژن
چینل یا یو ٹیوب پر حج کا بسرو چشم مشاہدہ کر کے دیکھیں کہ کس طرح یہ عبادت
بڑے چھوٹے ، امیر غریب، کالے گورے اور عربی و عجمی گویا ہر قسم کے رنگ و
نسل کےتفریق امتیاز کی دیوار کو گرادیتی ہے۔ اس عالمی اجتماع میں کسی کے
پاس اپنی مرضی چلانے کے لیے ویٹو کی نہ طاقت ہوتی ہے اور نہ ضرورت ہوتی ہے۔
دنیا کے ہر ملک، ہر علاقے اور ہر خطۂ ارض کے لوگ اللہ کے گھرکا قصد کرتے
ہیں۔ ان میں سے کسی کی زبان انگریزی توکسی کی عربی ہوتی ہے ، کوئی چینی
توکوئی فارسی ، اردو، ہندی یا بنگالی وغیرہ بولتا ہے لیکن دوران حج سب کی
زبان پر ’’لبیک اللّٰھم لبیک ‘‘کا کلمہ ہوتا ہے ۔ وہ پکار رہے ہوتے ہیں ’’
میں حاضر ہوں اے اللہ میں تیرے دربار میں حاضر ہوں‘‘۔ رب کعبہ کے دربار میں
جس وقت یہ صدا لگائی جاتی ہے تو دل کو جو کیفیت ہوتی اس کو الفاظ سے بیان
نہیں کیا جاسکتا۔ وہ تو ایک محسوس کرنے کی چیز ہوتی ہے۔ اس عالمگیر اجتماع
کے ذریعہ ساری دنیا کے انسانوں کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ تم لوگ جس
اتحادو مساوات کو ناممکن سمجھتےہو اللہ کو رب مان لینے اور اس کی بندگی
اختیار کرلینے سے ازخود عالمِ وجود میں آجاتا ہے ۔
دوران حج تلبیہ کے کلمات کی گونج ایک طرف تو روح کو تازگی بخشتی ہے مگر ان
کے معنیٰ اور مفہوم میں ایک عظیم انقلاب کا پیغام مضمر ہے: ’’اے اللہ میں
تیری بارگاہ میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ تعریف، نعمت
اور بادشاہی تیری ہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘ قرآن حکیم میں حج کا مقصد
اللہ وحدہُ لا شریک کی کبریائی اور بڑائی کا اعلان بتایا گیا ہے جس کا کوئی
ہم سر یا برابر نہیں ۔رب ذوالجلال کو ہر قسم کی تعریف و توصیف کا سزا وار
قرار دینے کے بعد دنیا میں انسانوں کی جعلی اور عارضی بادشاہت اور اقتدار
کو مسترد کرکے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کا
اقتدارہی حقیقی ، دائمی اور لازوال ہے ۔ علامہ اقبال نے یہی بات اس طرح کہی
ہے کہ ؎
سروَری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حُکمراں ہے اک وہی، باقی بُتانِ آزری
اللہ کی کبریائی کے اعتراف سے اتحاد و مساوات کے پیدا ہونےکو ایک مثال سے
سمجھاجا سکتا ہے ۔ لاکھوں لوگ اگرہمالیہ پربت کے سامنے جمع ہو کر اپنی توجہ
اس کی چوٹی پر مرکوز کردیں تو ان کے قد کا فرق کہ ازخود بے معنیٰ ہوجائے
گا۔ اسی طرح جب ساری دنیا کے اہل ایمان بلندو برتر معبودِ حقیقی کی مل جل
کر تسبیح کرتے ہیں تو ان کے درمیان موجود مرتبہ کا فرق اوردیگر تمام
امتیازاتِ باطلہ مٹ جاتے ہیں۔ اس طرح رنگ و نسل کی بنیادپر باہم برسرِ
پیکار اقوام کے سامنے اسلامی امتیاز ابھر کر آجاتا ہے۔ یہ عالم انسانیت کے
لیے بہت بڑی رحمت و نعمت ہے ۔ فرمانِ خداوندی ہے:’’اس میں (یعنی حج میں )
کھلی ہوئی نشانیاں ہیں،جن میں سے ایک ابراہیمؑ کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے۔جو
شخص اس (مبارک) گھر میں داخل ہوا، اس نے امن پا لیا‘‘۔ حج کی برکت سے
مسلماناں عالم اگر آپسی تفریق کو مٹا کرمتحد ہوجائیں تووہ امن عالم کے
پیغامبر بن سکتے ہیں ۔
|