شاتم رسول ﷺ کی اک سزا دھڑ سے منڈی جدا

نبی کریم ﷺ کی شان سب سے نرالی ہے ، اللہ تعالی نے آپ کی عظمت وشان کا ذکر کرتے ہوئے قرآن میں ذکر فرمایا: وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ ( الشرح : 4)ترجمہ: "اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کیا ہے "۔

اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی ایسا لمحہ نہیں گذرتا جب نبی کریم ﷺ کا ذکر نہ ہوتا ہو، اذان میں ، نماز میں ، مساجد میں ، مدارس میں ، بیانات واجتماعات میں ہر جگہ آپ کا ذکر پاک ہوتا ہے۔ اور کیوں نہ ہوکہ اللہ نے آپ کو اتنا بلند مقام دیا کہ آپ سب سے افضل و اشرف ہیں ۔ آپ کی شان میں نازیبا کلمات کہنے والا، آپ کا استہزاء کرنے والا، آپ کی توہین کرنے والا، آپ کو گالی دینے والا، آپ پر طعن کرنے والا اور آپ کی شان میں گستاخی کرنے والا "شاتم رسول" کہلاتا ہے ۔ شاتم رسول ہرطرح کی لعنت کا مستحق ہے ۔ ایسے بدخت پراللہ کی لعنت ، رسول اللہ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور تمام مسلمانوں کی لعنت کی ہو ۔

نبی کریم ﷺ کے کئی حقوق ہم پر ہیں ۔ ان میں سے آپ پر ایمان لانا، آپ کی فرمانبرداری کرنا، آپ سے محبت کرنا، آپ کی تعظیم وتوقیر کرنااور آپ کو گزند پہنچنے والی تمام باتوں سے دور رہنا ہے۔ جو نبی ﷺ کی توہین کرتاہےاور آپ کی شان میں نازیبا کلمات کہتا ہے اس کی گستاخی شریعت میں جرم عظیم ہے ۔ ایسا شخص ملعون ہے وہ شان نبیﷺ کی حددرجہ پامالی کرنے والا ہے۔اس کے جرم عظیم کا صلہ لعنت کے ساتھ اسلام نے قتل ٹھہرایا ہے۔
اللہ کا فرمان ہے : مَّلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا (الاحزاب:61)
ترجمہ: ان پر پھٹکار(لعنت) برسائی گئی جہاں بھی مل جائیں ،پکڑے جائیں اور خوب ٹکڑے ٹکڑے کردئے جائیں ۔
انگلش ترجمہ:
(and that too in a state of being)
accursed. Wherever they are found, they shall be seized, and shall be killed throughly
اس بات پر تمام علماء متفق ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والا واجب القتل ہے ۔ قرآن و حدیث کےمتعدد دلائل سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔ایک دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے: إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا (الاحزاب:57)
ترجمہ: اور جولوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسواکن عذاب ہے ۔
Surely, Those who annoy Allah and his Messenger are cursed by Allah in this world and in the hereafter, and he has prepared for them a humiliating Punishment
سورہ توبہ کی چودہویں آیت میں اس قسم کے لوگوں کے ساتھ قتال کا حکم دیا گیاہے اور عملی طور پر اللہ کے رسول ﷺنے اس قرآنی حکم کو برت کر دکھایا۔ شاتم رسول کعب بن اشرف اور ابورافع کوآپ ﷺنے قتل کا حکم دیا اور وہ قتل کئے گئے ۔ اسلام میں عورت کی بڑی قدرومنزلت ہے یہاں تک کہ جنگ جہاں سبھی کو قتل کیا جانا چاہئے اسلام نے وہاں عورتوں کو قتل کرنے سے منع کیا ہے لیکن شاتم رسول ﷺ نے ایسا مرحلہ ہے کہ عورت کو بھی نہیں بخشا جائے گا۔ آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والی عورتوں کو بھی قتل کیا گیا ہے ۔ عمیر بن امیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک بہن جو مشرکہ تھی اور نبی ﷺ کو گالیاں دیا کرتی تھی تلوار سے وار کرکے قتل کردیا، اسی طرح ایک یہودی عورت جو نبی ﷺ کی شان میں نازیبا کلمات کہتی تھی کسی صحابی نے اس کا گلا دبا کر مار دیا۔ ایک نابینا آدمی کی ام ولد تھی جو نبی ﷺ کو گالیاں دیا تھی تو انہوں نے برچھے سے قتل کردیا۔ یہ سب واقعات بتلاتے ہیں کہ نبی کی شان میں گستاخی کرنے والا مرد یا گستاخی کرنے والی عورت بطور سزا قتل کئے جائیں گے ۔

نبی کریم ﷺ کی گستاخی کرنے والے کے لیے حکم اگر وہ گستاخ مسلمان ہو؟ اور اگر وہ کافر ہو؟

پاکستان کے قانون کے آرٹیکل 295 C کے تحت گستاخِ رسول ﷺ کی سزا بطورِ حد قتل ہے, مسلمان اور کافر کی تفریق کے بغیر۔ اور اس جرم کے پائے جانے اور اقرار یا شرعی گواہوں کی گواہی سے یہ ثابت ہو جانے کی صورت میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس سزا کا اطلاق کرے۔ فقہاءِ کرام نے لکھا ہے کہ گستاخِ رسول کی سزا بطورِ حد ہے، لہٰذا توبہ کرنے سے بھی یہ سزا اس سے معاف نہیں ہوگی۔

اسلام کی مسلمہ تاریخ کی رو سے گستاخ رسول
ﷺکی سزا صرف اور صرف موت ہے۔ رحمة للعالمین
ﷺنے فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کیا تھا سوائے گستاخان رسول ﷺ کے کہ، ان کے بارے میں آپ نے یہ حکم دیا کہ اگر یہ لوگ خانہ کعبہ کے پردے میں بھی لپٹ جائیں۔ تب بھی انہیں معاف نہ کیا جائے اور انہیں ہر صورت قتل کیا جائے ابن خطل کو خانہ کعبہ کے پردے پکڑنے کی حالت میں ہی قتل کیا گیا اسی طرح دو گستاخ رسول
ﷺ عورتیں سارہ اور قریبہ بھی قتل کی گئیں۔ (تاریخ طبری ص۴۰۱) اسی طرح 3 ہجری میں کعب بن اشرف ایک گستاخ رسولﷺ کو حضرت محمد بن مسلمہؓ کی قیادت میں ایک کمانڈو آپریشن کے ذریغے جہنم واصل کیا گیا۔ (تاریخ طبری، ص ۳۱۲)

1۔ امیر المومنین حضرت علیؓ نے ایک یہودی عورت کے بارے میں بتایا کہ وہ حضور کی توہین کیا کرتی تھی ایک شخص نے اسے قتل کر دیا اور حضور نے اس کے خون کا بدلہ قصاص و دیت کی صورت میں نہیں دلوایا۔ (سنن ابی داﺅد6/2)

2۔ ایک شاعر جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کلام کے ذریعے ہدف طعن تشنیع بناتا تھا، اسے قتل کر دیا گیا (کتاب البخاری۔ باب المغازی صفحہ: ۶۷۵،۷۷۵)

3۔ ایک صحابیؓ نے حضور صلی اللہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والی عورت کو قتل کر دیا اور حضور ﷺ کو خبر ہوئی تو آپ نے تحقیق کی۔ جب ثابت ہو گیا کہ وہ توہین کی مرتکب ہوتی تھی تو آپ نے ارشاد فرمایا ، کہ تم سب گواہ رہو، اس کا قتل ضائع ہو گیا، اس کا بدلہ نہیں دیا جائے گا۔ (سنن ابی داﺅد)
اسلام ہمارا طریق زندگی ہے۔ جس کو ہم نے برضا و رغبت اختیار کیا ہے۔ اس کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے۔ جس میں عقیدہ توحید کے ساتھ ساتھ عقیدہ رسالت کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ کیونکہ حضور اکرم ﷺ کی بدولت ہی معرفت الٰہی اور دین اسلام کی پہچان ممکن ہوتی ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے۔

لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة (الاحزاب:۱۲)

ترجمہ: ”یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے۔“

اسلام کی اساسی تعلیمات میں آپ کی محبت و اطاعت لازم اور آپ کی نافرمانی اور اذیت دینے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

حضور اکرم رحمت للعالمین ہیں آپ کی محبت و شفقت بے مثال رہی ہے۔ اس لئے آپ کو اختیار حاصل تھا کہ آپ ﷺ عفو و درگزر کی مثال قائم کریں یا سختی کریں۔ مگر امت مسلمہ کے کسی فرد کو یہ حق کبھی نہیں دیا گیا کہ وہ توہین رسالت کے ضمن میں معافی نامہ جاری کر سکے۔

اُمت کا مفاد اسی میں ہے کہ اس عظیم ترین محبوب دو جہان کی مرکزی شخصیت کے حقوق و مفادات کا دفاع کرے تاکہ معاشرے کا امن قائم رہے اور افراد کی اصلاح کیلئے بھی یہ ضروری ہے کہ اس مثالی شخصیت کے ساتھ عقیدت و محبت میں ذرہ برابر کمی نہ ہو۔

مغرب روحانی اقدار سے بیگانہ ہو گیا ہے اور یہ زمانہ اپنی روح کے اعتبار سے مادے پر استوار عقلیت (Rationalism) کا شکار ہے۔ مسلمان بھی اسی مادی ماحول سے متاثر ہوکر ایمان کو اپنے جلیل القدر رب العالمین اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی روشنی میں پرکھنے کی بجائے یورپی مادی عقلیت کے میزان میں تولتے ہیں اور اپنی غیرت و خود داری سے غافل ہو جاتے ہیں۔

عشق رسول ﷺ لازم ایمان ہے اور ہر مسلمان کے رگ و پے میں خون کی طرح جاری و ساری ہے۔ حقیقی مسلمان کبھی یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی دریدہ دہن حضور کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہو۔ تاریخ زندہ مثالوں سے بھری پڑی ہے چاہے وہ صحابہ کا دور ہو یا امت کے زوال کا دور، ناموس رسالت کے باب میں امت حد درجہ حساس رہی ہے اور والہانہ عقیدت سے سرشار رہی ہے اس لئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ نظریاتی سرحدوں کی بھی اسی طرح حفاظت کی جائے جس طرح جغرافیائی حد بندیوں کی، کی جاتی ہے اور معاشرے کا استحکام بھی تبھی ممکن ہے کہ شر پسند عناصر جوتوہین رسالت کے مرتکب ہوں ان کیلئے سخت ترین قانون موجود ہو کیونکہ دنیا کے ہر قانون میں ہتک عزت کا قانون موجود ہے، تاکہ وطن عزیز فتنہ و فساد سے پاک رہ سکے۔

اگر یہ قانون موجود نہ ہو تو پھر مجرموں اور ان کے خلاف مشتعل ہونے والے مدعیوں پر عدالت کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ جس کی وجہ سے ہر کوئی قانون اپنے ہاتھ میں لیکر مجرموں سے انتقام لے گا۔ جس سے ملک میں انارکی پھیلے گی اور یہ ملکی سلامتی کیلئے انتہائی خطرناک ہوگا جہاں تک قانون توہین رسالت ﷺ کے غلط استعمال کا تعلق ہے تو یہ غلط استعمال تو تمام قوانین کا ہو رہا ہے۔ انگریز کے بنائے ہوئے تمام قوانین میں خرابی اور سقم موجود ہے اور انہیں غلط طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ مثلا محض FIR کاٹنے پر ملزم کو جیل بھیج دیا جاتا ہے جبکہ اسلامی عدالتی نظام میں اس کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن و سنت کی واضح تعلیمات پر مبنی قوانین کا نفاذ کیا جائے جس میں کسی بے گناہ کو سزا نہیں مل سکتی اور گناہگار سزا سے بچ نہیں سکتا اور جن برگزیدہ ہستیوں کی بدولت یہ دنیا نیکی اور سچائی، حق پرستی و عدل و انصاف جیسی قدروں سے آشنا ہوئی۔ ان کی شان میں گستاخی کو کوئی مذہب، معاشرہ برداشت نہیں کر سکتا اور جب بات حضور نبی کریم ﷺ کے احترام کی ہو جو آج بھی اس گئے گزرے دور میں اُمت کو متحد رکھنے کا آخری سہارا ہے

رسول اللہ ﷺ کی شان و عظمت ،پرواز ورفعت،مقام ومرتبے سے متعلق ہماری کیا ذمہ داری بنتی

ہیں ،آپؐ کی شانِ اقدس اﷲنے بیان کی ہے،کہ آپ ؐ پر وہ خود اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں ۔آپؐ کی تعریف قرآن میں جابجا کی گئی ہے ، آپ ﷲ کے آخری نبیﷺ اور تمام انبیاء کے سردارہیں، جنہیں اﷲ نے خود رحمت اللعالمین ﷺ کہہ کر پکارا ،جنہیں سرور کائنات ﷺ کہہ کر پکارا ہے۔آپ کی شان میں گستاخی کرنے والے کی ایک ہی سزا سر دھڑ سے جدا۔
 

Syed Maqsood ali Hashmi
About the Author: Syed Maqsood ali Hashmi Read More Articles by Syed Maqsood ali Hashmi: 171 Articles with 173358 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.