#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{ سُورَةُالنُور ،
اٰیت 3 }}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کیں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیت !!
الزانی
لاینکح الّازانیة
او مشرکة والزانیة
لاینکحھاالّازان اومشرک
وحرم ذٰلک علی المؤمنین 3
انسانی معاشرے کے یہ تمام مُشرک و مُنحرف لوگ ایک دُوسرے کے وہ فطری حلیف
ہیں جو اپنے مُشرکانہ و مُنحرفانہ اَعمال میں ہمیشہ ہی ایک دُوسرے کے ساتھ
شریکِ عمل ہوتے اور شریکِ عمل رہتے ہیں لیکن اہلِ ایمان کے لیۓ ھم نے چونکہ
یہ سارے مَنفی کام حرام کردیۓ ہیں اِس لیۓ اہلِ ایمان بھی صرف مومنانہ
اَعمال میں ایک دُوسرے کے ساتھ شریکِ عمل ہوتے اور شریکِ عمل رہتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی اِس تیسری اٰیت کا اجتماعی مضمون اگرچہ اِس سُورت کی دُوسری
اٰیت کے اجتماعی مضمون کے ساتھ بیان ہو چکا ھے لیکن اِس اٰیت کے کُچھ
انفرادی گوشے اُس اجتماعی مضمون کے وہ انفرادی گوشے ہیں جن پر ایک اَلگ
مضمون کی ضرورت ھے اِس لیۓ اِس مضمون میں ھم اِس مضمون کے اُن انفرادی
گوشوں کا جائزہ لیں گے جن انفرادی گوشوں کا انفرادی جائزہ لینے کی ضرورت ھے
لیکن اِس مضمون کو سمجھنے کے لیۓ اِس مضمون میں واقع ہونے والے اُس فرق کو
پیشِ نظر رکھنا ضروری ھے جو فرق اِس مضمون میں اٰیات کے فہم اور روایات کے
وہم نے پیدا کیا ھے اور وہ فرق یہ ھے اِس اٰیت کے اِس مضمون میں "زانی" اور
"زانیة" کے جو الفاظ وارد ہوۓ ہیں اہلِ روایت کے نزدیک اُن الفاظ سے مراد
زنا کرنے والی وہ زانی عورتیں یا زنا کرنے والے وہ زانی مرد ہیں جو اُن کے
خیال میں موجُود ہیں اِس لیۓ اُنہوں نے عربی متن کے اِن الفاظ کا ترجمہ
نہیں کیا ھے بلکہ ترجمے کی جگہ پر "زانی" اور "زانیة" کا وہی لفظ لکھ دیا
ھے جو متنِ اٰیت میں موجُود ھے اور پھر اپنی اِس سَہل خیالی کے مطابق اِس
کی یہی سَہل الخیال تفسیر بھی کردی ھے کہ زانی و مُشرک مرد زانی و مُشرک
عورت کو چھوڑ کر کسی غیر زانی و غیر مُشرک عورت کے ساتھ نکاح کرنا پسند
نہیں کرتا اور زانیہ و مُشر کہ عورت بھی زانی و مُشرک مرد کو چھوڑ کر کسی
غیر زانی و غیر مُشرک مرد کے ساتھ نکاح کرنا پسند نہیں کرتی لیکن اہلِ
روایت کی یہ تفسیر ایک خلافِ عقل و خلافِ واقعہ تفسیر ھے کیونکہ دُنیا کا
کوئی بدکار مرد کسی بدکار عورت کے ساتھ نکاح کرنا پسند نہیں کرتا اور دُنیا
کی کوئی بَدکار عورت بھی کسی بَدکار مرد کے ساتھ نکاح کرنا پسند نہیں کرتی
، عُلماۓ روایت کی اِس خیالی تفسیر میں دُوسری خرابی یہ ھے کہ اُنہوں نے
اِس تفسیر میں زانی و مُشرک مرد و زَن کا زانی و مُشرک مرد و زن کے ساتھ
ہونے والے نکاح کا معنٰی بھی عملِ جماع کیا ھے جب کہ اِن مُشرک و مُنحرف
افراد کے کردار و عمل کے سیاق و سباق میں یہاں نکاح کا مقصدی و مُرادی
معنٰی مرد و زَن کا وہ قانُونی جماع نہیں ھے جو عملِ نکاح کا ایک عملی
نتیجہ ہوتا ھے بلکہ اِس سے اُن زانی و مُشرک مرد وزن کا وہ غیر قانُونی
اجتماع مُراد ھے جو نکاح کیۓ بغیر ہی مُنعقد کیا جاتا ھے اور اہلِ روایت کی
اِس خیالی تفسیر میں تسیری خرابی یہ ھے کہ اُنہوں نے اِس اٰیت کی اپنے خیال
کے مطابق جو خیالی تفسیر کی ھے اُس خیالی تفسیر میں اُنہوں نے اپنے اُس
مزعومہ زانی و مُشرک مرد اور اپنی اُس مزعومہ زانیہ و مُشرکہ عورت کے نکاح
کی بات کی ھے جو زندہ و موجُود ہی نہیں ہیں کیونکہ اُن کے نزدیک زانی و
مُشرک مرد یا زانیہ و مُشرکہ عورت اُن ہی اَفرادِ مرد و زَن کو کہا جاتا جن
کا جُرمِ زنا ثابت ہوچکا ہوتا ھے اور اُن کا جُرم زنا ثابت ہونے کے بعد اُن
پر اُن کی خیالی حَدِ رجم جاری کرنے کے بعد اُن کو سَنگسار کیا جا چکا ہوتا
ھے اور اِسی بنا پر اہلِ ایمان کو اللہ تعالٰی نے اِن مُشرکانہ و مُنحرفانہ
اعمال سے روک دیا ھے تاکہ وہ اُن مُہلک جرائم اور اُن کی مُہلک سزاۓ جرائم
سے ہمیشہ بچے رہیں جن جرائم و سزاۓ جرائم کا مُشرک و مُنحرف لوگ شکار ہوتے
ہیں اور ہوتے رہتے ہیں لیکن ھمارے نزدیک چونکہ "الزانیة" سے مُراد وہ قوم
ھے جو اللہ تعالٰی کے اَحکامِ نازلل کا انکار کرتی ھے اور "الزانی" سے
مُراد وہ فرد ھے جو اللہ تعالٰی کے اَحکامِ نازلہ کا انکار کرتا ھے اِس لیۓ
ھم نے اِن الفاظ کا معنٰی مُنحرف کیا ھے اور اِس معنی سے یہ وسیع البنیاد
مفہوم اخذ کیا ھے کہ مُشرک اور مُنحرف اَقوام و اَفراد اِس بنا پر ایک
دُوسرے کے فکری و فطری حلیف ہوتے ہیں کہ مُشرک اَقوام و مُشرک اَفراد اللہ
تعالٰی کی توحید سے اِنحراف کرکے اللہ تعالٰی کی ذات کے ساتھ شرک کا ارتکاب
کرتے ہیں اور مُنحرف اَقوام و مُنحرف افراد اللہ تعالٰٰی کے کلامِ توحید سے
انحراف کر کے شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور وہ دونوں انسانی طبقے اپنے اسی
مُشرکانہ و مُنحرفانہ اشتراکِ خیال و عمل کی بنا پر ایک دُوسرے کو پہچانتے
اور ایک دُوسرے کو پہچان کر ایک دُوسرے کے ساتھ شریکِ خیال و عمل ہوتے رہتے
ہیں ، یعنی دَرحقیقت یہ معاملہ اُن مُشرک و مُنحرف اَقوام و افراد کا ایک
معاشرتی معاملہ ھے اُن کے ایک دُوسرے کو پسند و ناپسند کرنے کا معاملہ نہیں
ھے بلکہ ایک دُوسرے کو پہچاننے کا اور ایک دُوسرے کو پہچان کر ایک دُوسرے
کے ساتھ شریکِ عمل ہونے کا معاملہ ہوتا ھے ، اہلِ ایمان چونکہ اللہ تعالٰی
کی ذات کے ساتھ کسی وجُودِ غیر کو شریک نہیں کرتے اور اللہ تعالٰی کے کلامِ
ذات کے ساتھ کسی کلام غیر و اَحکامِ غیر کو بھی شریک نہیں کرتے اِس لیۓ وہ
اِس مُشرکانہ خیال و عمل اور اِس مُنحرفانہ خیال و عمل سے الگ تَھلگ ہوتے
ہیں اور وہ بھی اپنی اسی مُؤحدانہ خوبی کی بنا پر ایک دُوسرے کو اسی طرح
پہچانتے اور ایک دُوسرے کے ساتھ اسی طرح اِشتراکِ خیال و عمل کرتے ہیں جس
طرح مُشرک و مُنحرف افراد اپنی مُشرکانہ خرابی کی بنا پر ایک دُوسرے کو
پہچانتے اور ایک دُوسرے کے ساتھ اشتراکِ خیال و عمل کرتے ہیں ، یہی وہ
بُنیادی نُکتہ ھے جو قُرآنی معاشرت اور غیر قُرآنی معاشرت کو مُمیز عن
التمیز کرتا ھے اور یہی وہ بُنیادی نُکتہ ھے جو اہلِ ایمان کی اس غیر
مُشرکانہ معاشرت کو اِس طرح مُمیز عن التمیز کر دیتا ھے کہ اِس جُداگانہ
معاشرت کو ہر دیکھنے والا دیکھتے ہی جان جاتا ھے کہ ؏
خاص ھے ترکیب میں قومِ رسُولِ ہاشمی
|