باغ بوٹا تا نوتھیہ روڈ کی تعمیر میں ناقص مٹیریل کا استعمال

 اس وقت تحصیل کلر سیداں میں بے شمار ترقیاتی کام ہو رہے ہیں ہر اگلے ماہ کو کسی نہ کسی کام کا اعلان ہو رہا ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی بھی منصوبے میں معیار کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے ٹھیکیدار صرف چند افراد کو اپنے قابو میں کر لیتے ہیں اور ملی بھگت کر کے ناقص تعمیر شدہ منصوبوں کو پاس بھی کروا لیتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں غیر معیاری مٹیریل سے تعمیر ہونے والے منصوبے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیتے ہیں اور منصوبے کے لیے گرانٹ فراہم کرنے والے کی بد نامی کا باعث بننا شروع ہو جاتے ہیں اسی طرح 6سال قبل دو کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی باغ بوٹہ تا نوتھیہ روڈ جس کی لمبائی 5 کلو میٹر ہے اور اس کی تعمیر کیلیئے اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ چوھدری نثار علی خان نے جاری کیئے تھے ناقص مٹیرل کے استعمال سے اس وقت کھنڈرات کا منظر پیس کر رہی تھی جب یہ سڑک بنائی جارہی تھی تو مقامی آبادیوں کے متعدد افراد نے مختلف قسم کے اعتراضات اٹھائے مگر کسی کی بھی نہ سنی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت مختصر عرصہ میں سڑک کی حالت خراب ہو گئی لیکن اس وقت یو سی غزن آباد کے وائس چیرمین ظفر عباس مغل نے اس روڈ کی تعمیر کے دوران اپنا بھر پور کردار ادا کیا تھا جس وجہ سے روڈ کی تعمیر میں کچھ بہتری ممکن ہو سکی تھی اور وہ کچھ عرصہ گزار گئی پچھلے کئی سالوں سے نا گفتہ حال ہونے کی وجہ سے اس پر سے گاڑیوں کا گزرنا بہت مشکل ہو چکا تھا اور آئے روز گاڑیوں کے حصے ٹوٹ رہے تھے جس وجہ سے ٹرانسپورٹر حضرات سخت مالی مشکلات سے دو چار ہو رہے تھے اب حالت یہ بنتی جارہی تھی کہ بہت سے سوزوکی مالکان یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ گاڑیوں کی تباہی کرنے سے بند کر دینا ہی بہتر ہے اس کے علاوہ بقایا روڈ پر بھی جگہ جگہ کھڈے پڑ چکے تھے اور ان میں پانی کھڑا ہوجانے سے مزید کئی مسائل بھی پیدا ہو رہے تھے ایم این اے صداقت علی عباسی کی طرف سے اس روڈ کی مرمت کیلیئے 3کروڑ 57لاکھ روپے کی گرانٹ جاری کی گئی ہے جو کہ ایک بہت بڑی رقم ہے مگر یہاں پر ایک بہت قابل افسوس بات یہ ہے کہ کروڑوں روپے اس طرح کے منصبوں میں لگا دینا اور پھر ان پر چیک اینڈ بیلنس نہ رکھنا سمجھ سے بالا تر اور اہل علاقہ کے ساتھ بہت بڑی زیاتی ہے ہے اس روڈ کی تعمیر میں نہ تو معیار کا خیال رکھا جا رہا ہے اور نہ ہی اچھے برے مٹیریل پر توجہ دی جا رہی ہے روڈ بلکل بھی ناقص نہیں بنائی جا رہی ہے لیکن بہت زیادہ اچھی بھی نہیں بنائی جا رہی ہے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ محض چند سالوں میں روڈ کی صورت حال بگڑ نا شروع ہو جائے گی غلطی زمہ داران کی ہو گی اور بدنامی ایم این اے کی ہو گی اگر 3کروڑ کی 57لاکھ خطیر رقم کی لاگت سے تعمیر ہونے والی سڑک ناقص پالیسیوں کی وجہ سے معیاری نہ بن سکے تو پھر خدا ہی حافظ ہے اس کے علاوہ بھی جو سڑکیں تعمیر ہو رہی ہیں ان کا حال بھی ایسا ہے جن میں سر فہرست کلر سیداں تا دھانگلی روڈ ہے جس پر ناقص میٹیریل کے استمعال کی وجہ سے ایم پی اے راجہ صغیر احمد نوٹس بھی لے چکے ہیں مذکورہ سڑکوں کے مٹیریل میں اتنی بھی طاقت نہیں ہے کہ وہ پانی یا تیز دھوپ کو برداشت کر سکے یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ اتنے زور و ں شوروں سے تعمیر ہونے والے منصوبے ناقص پالیسیوں کی وجہ سے خرابی کا شکار ہو رہے ہیں اور اس طرح دلیرانہ سے طریقے سے ناقص میٹیریل کا استمعال یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ کہیں بھی کوئی پوچھنے والا موجود نہیں ہے سرکاری اداروں کا حال یہ ہوچکا ہے کہ اول تو کوئی شخص کسی بھی ادارے کے کام کے خلاف شکایت کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا ہے اور اگر کوئی ہمت کر کے تیار بھی ہو جاتا ہے تو ٹرخانے کے لیے کوئی فرضی انکوئری لگا دی جاتی ہے جس کا مطلب کرپٹ افراد کو کلیئر کرنا ہوتا ہے اور چند دنوں کے بعد معاملات جوں کے توں ہو جاتے ہیں کسی بھی سڑک کو سامنے رکھ لیا جائے تو ہر روڈ کی تعمیر میں نقائص نظر آئیں گے اسی طرح باغ بوٹا نوتھیہ روڈ بھی نقائص سے بھری پڑی ہے رہنما پی ٹی آئی راجہ فیصل زبیر اس روڈ کی تعمیر پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں لیکن شاید ٹھیکیدار ان کی بات پر کوئی خاصادھیان نہیں دے رہا ہے اعلیٰ حکام سے گزارش ہے کہ محض منصوبوں کا اعلان ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان پر خصوصی توجہ دینا بھی انتہائی ضروری ہے ناقص مٹیریل کے استعمال پر سرکاری ادارے حرکت میں آئیں اس علاقہ میں صرف ایک سڑک ایسی ہے جس کو بنے کئی سال گزر چکے ہیں جس کو تمام خامیوں سے پاک کہا جا سکتا ہے وہ ہے روات تا کلر سیداں روڈ اور اس کی تعمیر کو معیاری بھی کہا جا سکتا ہے جب اس روڈ پر سفر کیا جائے تو یہ روڈ آواز دیتی ہے مجھ پر معیاری کام ہو ا ہے اور میں باغ بوٹا تا نوتھیہ اور کلرسیداں تا دھانگلی روڈ سے بالکل مختلف ہوں اسی طرح ان جگہوں پر گلیاں بن رہی ہیں وہاں پر بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے اکثر گلیوں میں دیکھا گیا ہے کہ وہاں پر نالیاں نہیں بنائی جارہی ہیں جس کی وجہ سے پانی پوری گلی میں کھڑا ہو جاتا ہے اور اس سے گلیاں بہت جلدی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں جب تک سڑکوں اور گلیات کی تعمیر کے دوران ناقص مٹیریل کے استعمال کی روک تھام نہ کی جائے گی اس وقت تک تمام مسائل حل ہونے کے باجود حل نہیں ہوں گے جہاں کہیں بھی ناقص مٹیریل کے استعمال کی صورتحال نظر آئے وہاں پر ذمہ داروں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی عمل میں لا کر عوام کے دکھوں کا کچھ تھوڑا سا مداوا ضرور کیا جا سکتا ہے اور عوام کو بھی چاہیے کہ جہاں اس قسم کی صورتحال نظر آئے تو وہاں پر کسی بھی نزدیکی متعلقہ ادارے سے رجوع کریں ایم این اے صداقت علی عباسی کلرسیداں کیلیئے بہت زیادہ فنڈز دے رہے ہیں اور اس وقت ہر طرف ان کے کاموں کی باز گشت سنائی دے رہی ہے لیکن اس طرف بھی خصوصی توجہ دینا ہو گی کہ فنڈز روز روز نہیں ملتے ہیں اور نہ ہی کام روز ہوتے ہیں جو فنڈز مل چکے ہیں ان کے استمعال پر نظر رکھی جائے میٹیریل کے استمعال پر دھیان دیا جائے اور زمہ داران سے پوچھ گچھ کی جائے اس کے ساتھ ایک کمیٹی بنائی جائے جو روڈ کی تعمیر کی مکمل زمہ دار ہو تو بہت زیادہ بہتری آ سکتی ہے اور ایم این اے صداقت علی عباسی کی ساکھ مزید بہتر ہو سکتی ہے
 

Muhammad Ashfaq
About the Author: Muhammad Ashfaq Read More Articles by Muhammad Ashfaq: 244 Articles with 145354 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.