مقامِ شکر ہے کہ ملک کی دوسری طویل ترین موٹر وے
پشاور تا ڈیرہ اسمعیل خان کی منظوری دے دی گئی ہے ۔ یہ موٹر وے 360کلو میٹر
طویل 6 لین پر مشتمل ہوگی ۔جس میں 7 کلومیٹر طویل دو ٹنلز اور 19 انٹر
چینجز شامل ہیں ۔ اس موٹر وے پر کم و بیش 258ارب روپے کی لاگت آئی گی ۔ یہ
منصوبہ چار سال میں مکمل کیا جائے گا ۔ بِلا شک و شبہ یہ منصوبہ جنوبی
اضلاع کی ترقی اور پسماندگی دور کرنے کے لئے سنگِ میل ثابت ہوگا ۔ مگر اس
کے موٹر وے کے نقشہ کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ یہ منصوبہ بھی پشاور میں بی
آر ٹی منصوبے کی طرح تضحیک ، تذلیل اور تمسخر کا باعث بنے گا ۔ جس کی بڑی
وجہ اس موٹر وے کا بل کھاتی ، راستہ بھول جانے والے مسافر کی طرح یمین و
یسار گھومتے پھرتے منزل کی طرف روانی ہے ۔ موجودہ انڈس ہائی وے پر پشاور سے
ڈی آئی خان کا فاصلہ 297کلو میٹر ہے جبکہ مجوزہ موٹر وے پر یہ فاصلہ
360کلومیٹر ہو گا یعنی موٹر وے پر 63کلومیڑ زائد فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔
عوام کی طرف سے اس منصوبہ پر ابھی سے انگلیاں اٹھنی شروع ہو گئی ہیں اور اس
پر متعدد لوگوں کے اعتراضات و تحفظات ہیں ۔بِلا شک و شبہ موٹر ویز یا
شاہراہیں کسی بھی ملک کے لئے خون کی شریانوں کی حیثیت رکھتے ہیں جس سے
معیشت رواں دواں ہوتی ہے، کاروبار کے مواقع میسر آتے ہیں ۔سفر کرنا آسان
اور وقت کی بچت ہوتی ہے ، فیول کم مقدار میں خرچ ہوتا ہے ۔ موٹر وے پر ملک
کا زرِ کثیر خرچ ہوتا ہے اس لئے اس کی منصوبہ بندی کرتے وقت انتہائی احتیاط
اورلالچ سے پاک، تجربہ کار انجنئیرز کی ضرورت ہوتی ہے ۔مگر مقامِ افسوس ہے
کہ پشاور تا ڈی آئی خان موٹر وے کے لئے راستے کا تعین درست نہیں ہوا ۔
پشاور سے کوہاٹ اور پھر کوہاٹ سے اسے مغرب کی جانب ہنگو کی طرف مڑ دیا گیا
ہے جو سراسر غلط ہے کیونکہ اس طرح سے موٹر وے کا فاصلہ تریسٹھ کلومیٹر بڑھ
جا تا ہے ۔ ہنگو کے عوام کو اس موٹر وے سے استفادہ کے لئے کوہاٹ انٹر چینج
سے لنک روڈ دینا چاہیئے اور موٹر وے کو موجودہ انڈس ہائی وے کے قریب ترین
علاقوں سے گزارنا چائیے ۔کیونکہ ہنگو یا اس سے ملحقہ علاقے کے لوگوں کو اگر
ایک طرف فائدہ پہنچے گا تو دوسری طرف اس سے دوگنا علاقہ اس موٹروے سے فائدہ
نہیں اٹھا سکے گا ۔ اگر صوبہ خیبر پختونخوا کے نقشہ اور مجوزہ موٹر وے کے
نقشہ پر نظر دوڑائی جائے تو پشاور سے ڈی آئی خان کے مجوزہ موٹر وے کے بائیں
طرف جنوبی اضلاع کا بیشتر حصہ اس موٹر وے سے مستفید نہیں ہو سکتا ۔کوہاٹ سے
ڈی آئی خان کی طرف جاتے ہوئے لاچی، شکردرہ اور صابر آباد کی طرف بہت بڑا
علاقہ اس موٹر وے سے محروم رہے گا۔ علاوہ ازیں 63کلومیٹر فاصلہ بڑھ جانے کی
وجہ سے قومی خزانے پر اربوں روپے اضافی خرچ آئے گا ۔ وقت بھی زیادہ لگے گا
اور یوں فیول بھی زیادہ خرچ ہو گا جس کی وجہ سے ملکی خزانہ پر مسلسل اضافی
بوجھ پڑے گا ۔ موجودہ ڈیزائن دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اسے کسی کے خواہش پر
ترتیب دیا گیا ہے ۔ جس طرح راولپنڈی رنگ روڈ کو زیگ زاگ کی صورت میں صرف اس
لئے لے جایا گیا تاکہ اس روڈ سے اپنے مستفید ہو سکیں ۔پشاورتا ڈی آئی خان
کے موٹروے میں بھی اگراپنوں کو نوازنے کا پوشیدہ ہاتھ کام کر رہا ہے تو
یقینا یہ بھی راولپنڈی رِنگ روڈ کی طرح دوسرا بڑا سکینڈل ثابت ہوگا اور کسی
وقت منظرِ عام پر آہی جائے گا ۔ مناسب ہوگا کہ اس موٹر وے کے ڈیزائن پر نظر
ثانی کی جائے اور اس کے مجوزہ روٹ کو تبدیل کیا جائے ۔کوہاٹ سے براستہ
لاچی،کرک بنوں اور لکی مروت سے ہوتے ہوئے اسے ڈی آئی خان تک لے جایا
جائے،لاچی میں شکردرہ کو انٹر چینج دیا جائے جہاں سے میانوالی تک لوگ
مستفید ہونگے ۔کڑپہ کے مقام پر زنٹر چینج دے کر بانڈہ داود شاہ تحصیل کو
لنک روڈ کے ذریعے منسلک کیا جا سکتا ہے ۔ اس سلسلہ میں اپنے پڑوس میں موجود
ایک بہت سینئر انجینئیر سے رابطہ کرکے رائے پوچھی تو انہوں نے بھی مجوزہ
روٹ کو قومی خزانے اور عوام دونوں کے لئے باعثِ نقصان قرار دیا اور اس کے
ڈیزائن کو تبدیل کرنے پر زور دیا کیونکہ 297کلومیٹر فاصلے کو 360کلو میٹر
میں بدلنے سے نہ صرف یہ کہ لاگت میں بہت بڑا اضافہ ہوگا بلکہ عوام کی ایک
بڑی تعداد بھی اس پر سفر کرنے سے محروم ہو گی ۔
لہذا صوبہ خیبر پختونخوا کے حکام بالا اور خصوصا وزیر اعلیٰ محمود خان سے
گزارش کی جاتی ہے کہ اس مجوزہ موٹروے کے ڈیزائن پر فوری طور پر نظر ثانی کی
جائے یہ ایک بڑا قومی منصوبہ ہے اور اس کی غلط ڈیزائننگ صوبے کے عوام اور
صوبے کے خزنہ دونوں پر مستقبل میں عذابِ مسلسل ثابت ہو گا ۔اگر اس کو ہنگو
لے جانے کی بجائے موجودہ انڈس ہائی وے کے دائیں یا بائیں طرف تعمیر کیا
جائے تو نہ صرف یہ کہ 258ارب روپے کے لاگت میں 58ارب روپے کی بچت ہو سکتی
ہے بلکہ عوام کی ایک کثیر تعداد بھی اس سے مستفید ہو سکے گی ۔
|