بیش قیمت تحقیقی مقالات پر مبنی کتاب’کم وبیش‘: مصنف خان حسنین عاقبؔ
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
|
بیش قیمت تحقیقی مقالات پر مبنی کتاب’کم وبیش‘: مصنف خان حسنین عاقبؔ (ایک جائزہ)
تبصرہ نگار: ذوالفقار علی بخاری، پاکستان
برقی پتہ: [email protected]
”کم وبیش (تحقیقی مقالات)“ بھارت سے تعلق رکھنے والے نامور ادیب خان حسنین عاقب کے ادبی تحقیقی مقالات پر مبنی کتاب ہے۔
تین دہائیوں سے شعرو ادب کی دنیا سے وابستہ خان حسنین عاقب کی ذات کے بارے میں جاوید ندیم کیا خوب لکھتے ہیں کہ”وسیع الجہات صلاحیتوں کے باوجود ادبی اشتہار بازی، خود نمائی، مصلحت کوشی کے فن سے ناواقف، جی حضوری اورخوشامد کے اسکول سے سدا غیر حاضر، نام و نمود کی تام جھام سے کوسوں دور رہتے ہوئے بھی زمین اورزمینی لوگوں سے جڑی ہوئی منکسرالمزاج شخصیت کا نام ہے حسنین عاقب، اگر کوئی شخص ان سے واقف نہیں تو سمجھ لیجئے کہ اُس کا اُردو ادب کے موجود ہ منظرنامے کا مطالعہ ادھورا ہے“۔
خان حسنین عاقب کی ایک منفرد شناخت یہ بھی ہے کہ انہوں نے قرآن پاک کے تیسویں پارے کی تمام سورتوں کا انگریزی زبان میں منظوم ترجمہ بھی کیا ہے اوراسی حوالے سے برصغیر میں ایک منفرد پہچان بھی رکھتے ہیں۔
سب سے پہلے ہم اس کتاب کے نام کے حوالے سے بات کرنا چاہیں گے کہ ایسا عنوان”کم وبیش“ رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے۔ راقم السطور کے مطابق تمام مقالات اس عنوان پر پورے اترتے ہوئے قاری پر خوب اپنا تاثر چھوڑتے ہیں۔
اس حوالے سے بقول مصنف”کتاب کا نام ’کم وبیش‘ رکھنے کے پس پشت وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مجھے نہ اپنی ہمہ دانی کا دعویٰ ہے اور نہ ہی زعم۔میں نے جو کچھ لکھا ہے، اس میں بہت سی باتیں میرے علم کے’کم‘ ہونے کی دلیل ہو سکتی ہیں اوربہت سی باتیں میری جنبش قلم کے اعتبار سے ’بیش‘ ہو سکتی ہیں یعنی ان کا شمار حشو و زوائد میں ہو سکتا ہے“۔
میری نظر میں بال بھارتی، پونہ کی اردو اورفارسی لسانی کمیٹی کے علاوہ کئی ادبی وعلمی تنظیموں کے رکن اورتقریباً سولہ کتابوں کے مصنف خان حسنین عاقبؔ کے ادبی تحقیقی مقالات پر مبنی اس کتاب میں اگر اُن کے ادبی نظریات کو غیرجانبداری سے دیکھیں تو اس پوری تحقیقی کتاب کو ایک تاریخی دستاویز قرار دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے بے شمار نظریات کو رد کرنے کی مضبوط دلیلیں دی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم ان نظریات پر گفتگو اور بحث و تمحیص کی گنجائشیں نکال سکتے ہیں۔
”کم وبیش“ کے نام سے شائع ہونے والی اس کتاب میں جو مقالات شامل ہیں آپ ذرا ذیل میں بیان کردہ عنوانات دیکھیں تو آپ کو علم ہوگا کہ اس کتاب میں حسنین عاقبؔ نے کتنے منفرد موضوعات پر تحقیقی مقالے رقم کئے ہیں۔
ان میں سے اکثر موضوعات ایسے ہیں جن پر ادبی حلقوں میں ہنوز سنجیدگی سے کام نہیں کیا گیا۔ یہ عاقبؔ کا اختصاص ہے کہ وہ ہمیشہ ایسے ہی موضوعات پر خامہ فرسائی کرتے ہیں جو منفرد، نئے اور اچھوتے ہوتے ہیں ، عنوانات ہی دیکھ لیجئے۔
٭اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے ٭اقبال، ہندوستان اور دو قومی نظریہ ٭معاصر فارسی غزل: ارتقاء اوررحجانات ٭معاصر فارسی نسائی ادب میں ”ماں کا تصور“ ٭خمسہ خسرواؔ ورخمسہ نظامی: تقابلی جائزہ ٭معاصر اُردو غزل میں حمدیہ عناصر ٭معکوس ترجمہ نگاری ٭ادب برائے ادب اورادب برائے زندگی ٭گوئٹے کی نظم”نغمہ محمدی ﷺ“ کے تین تراجم: ایک جائزہ ٭سیماب کی شعری کائنات ٭زبیر رضوی اورجدید نظم کا منظر نامہ ٭ظفر گورکھپوری کی شاعری میں ہندوسانیت ٭طنزومزاح کے اصلاحی پہلو ٭اُردو زبان پر انگریزی کا اثرونفوذ ٭اُردو کے معاصر غیر مسلم شعراء وادباء
یہ بات تو سب بخوبی جانتے ہیں کہ تحقیق کا مقصد اُن پہلوؤں پر کام کرنا ہوتا ہے جونظر سے اوجھل ہوتے ہیں، اُن نظریات کو منطقی دلیل سے غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو برسوں سے ہمیں گمراہی کی جانب دھکیلے جا رہے ہوتے ہیں۔
”کم وبیش“ آپ کی سوچ کے دھارے کو بدلتی ہے اورآپ کوغور وفکر کی دعوت دیتی ہے۔خان حسنین عاقب کی ادب سے محبت کے بارے میں اگر آپ جاننا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو اس کتاب کا انتساب اُن کی ذات کے حوالے سے بہت کچھ بتا سکتا ہے کہ وہ بطور ادیب اپنی سوچ کا ایک مخصوص زاویہ رکھتے ہیں۔
آپ ذرا انتساب ملاحظہ کیجئے۔ ”ادب میں زندگی کی بازیافت اور زندگی میں ہر سطح پر ادب کی کاشت کرنے والے ان مخلص، باادب، بانصیب اور باسعادت اہل قلم کے لئے جن کی وجہ سے آج بھی اُردو ادب میں امکانات کے جگنو روشنی نہ سہی، روشنی کا احساس ضرور پیدا کر رہے ہیں“۔
”اُردو زبان پر انگریزی کا اثرونفوذ“ کے عنوان سے تحریرمقالے کو راقم السطور اس کتاب کا سب سے بہترین مقالہ تصور کرتا ہے کہ اس جانب آج بہت کم توجہ دی جا رہی ہے کہ اُردو زبان پر انگریزی زبان کو حاوی نہیں ہونے دینا چاہیے۔جس طرح طاقتور ملک کسی غریب ملک پر قابض ہو جاتا ہے اسی طرح آج طاقتور انگریزی پرست طبقہ اُردو زبان کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ جب اُردو میں انگریزی زبان کے متبادل الفاظ موجود ہیں تو اُن کے استعمال کولازماً فروغ دیا جانا چاہیے۔اس مقالے پر مصنف داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اُردو سے اپنی گہری محبت کو ظاہر کرنے کے ساتھ بیداری ئ شعورکی کوشش کی ہے۔
بقول حسنین عاقب”ہم اُردو کو چند اشعار کو لہک لہک کر پڑھ لینے تک محدود نہ رکھتے ہوئے ہر میدان میں، ہر شعبہ ہائے علم و فن و حیات میں خالص اُردو بولیں، لکھیں، پڑھیں اورپڑھائیں“۔
”اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے“ میں صاحب کتاب نے کیا خوب لکھا ہے کہ ”اُس(اقبال) کی قلندری نے اسے تونگری سے دور دور ہی رکھا، یہاں تک کہ جب اس (اقبال) نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا تو صرف اتنا کماتا جتنا اس کی اور اہل خانہ کی ضروریات کے لئے کافی ہوتا“۔
مزید آگے چل کر مصنف لکھتے ہیں کہ ”اپنا بقیہ وقت نہاں خانہئ لاہوت کی عقد ہ کشائیوں کی نذ ر کر دیتا، اس منزل پر پہنچ کر احتیاط کا دامن اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا اور وہ بے اختیار کہہ اُٹھا: میں بندہئ ناداں ہوں مگر شکر ہے تیرا رکھتا ہوں نہاں خانہئ لاہوت سے پیوند ایک ولولہ ئتازہ دیا میں نے دلوں کو لاہور سے تاخاک بخارا و سمرقند
”وہ بھول جاتا کہ وہ تو ہمیشہ سے یہ کہتا رہا کہ ’اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں“
”اقبال، ہندوستان اور دو قومی نظریہ“کے عنوان سے جو مقالہ لکھا گیا ہے وہ بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مائل کرتا ہے۔بھارت اور پاکستان پہلے ایک ہی ملک ہندوستان کے طور پر دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوتے تھے مگر 14اگست 1947کے بعد معرض وجود میں آنے کے بعد سے اقبال، ہندوستان اوردوقومی نظریہ پر بہت بات ہوتی ہے۔ اس مقالے میں حسنین عاقبؔ نے مختلف حوالوں سے یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ اقبال کا جو نظریہ ہندوستان کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے وہ کچھ اور ہے۔بقول حسین عاقبؔ ”اقبال کا نظریہ دو قومی نہیں تھا، لیکن اس بے چارے کو،سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا،لکھنے کے باوجود اولین بانیان پاکستان میں شمار کیا گیا ہے“۔
یہ مقالہ تاریخ کے طالب علموں کو ضرور پڑھنا چاہیے تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کے پیشِ نظر حقائق مسخ کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اقبال کے نظریات کچھ اور تھے۔یہ بڑی دل چسپ بات ہے کہ اس مقالے کو پاکستان میں شائع کرنے سے کئی رسائل و اخبارات نے گریز کیا ہے۔
حالانکہ اظہار رائے کی آزادی کے قانون کے تحت کوئی بھی اپنی سوچ کو بیان کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود خان حسنین عاقب داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بڑی بہادری سے ایسے موضوع پر قلم اُٹھایا ہے جو علمی و ادبی بحث کی جانب مائل کرتا ہے۔
”معکوس ترجمہ نگاری“ ایک نئی اصطلاح ہے جو رفتہ رفتہ مقبولیت کا درجہ پا رہی ہے۔ یہ اصطلاح حسنین عاقبؔ ہی نے برسوں پہلے وضع کی تھی جو ان دنوں جامعاتی سطح پر اورسنجیدہ مترجمین کے حلقوں میں زیرِ بحث آرہی ہے۔ اس حوالے سے دیشکھ ساجد مقصود احمدکہتے ہیں کہ ’ترجمہ نگاری صدیوں سے ہو رہی ہے، یہ ایک پیچیدہ فن ہے۔ کسی زبان کے ادب، کہانیوں، افسانوں یا کتابوں کامادری زبان میں ترجمہ، پوری دنیاکے مترجمین کرتے رہتے ہیں، لیکن اپنی زبان کے ادبی فن پاروں یا شہ پاروں کو کسی اور زبان میں ترجمہ کرکے پیش کرنے کے سلسلے میں اب تک کوئی منظم اور باقاعدہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے، یہ محبان اُردو کے لئے بڑے فخر وانبساط کی بات ہے کہ خان حسین عاقب نے معکوس ترجمہ نگاری کی نہ صرف اصطلاح وضع کی ہے بلکہ قابلِ لحاظ تناسب میں اردو زبان کے نثری اورشعری ادب پاروں کو انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ کیا ہے۔‘
”گوئٹے کی نظم”نغمہ محمدی ﷺ“ کے تین تراجم: ایک جائزہ“میں خان حسنین عاقب نے جرمن زبان کے عظیم شاعر گوئٹے کی شہر ہ آفاق نظم نغمہ محمد ی ﷺ جو حضرت محممد ﷺ کی سیر ت پر مبنی ہے کے تراجم کے حوالے سے مقالہ تحریر کیا ہے جو کافی دلچسپ ہے۔گوئٹے کے بعد علامہ محمد اقبال نے فارسی میں اور شان الحق حقی نے اردومیں ترجمہ کیا تھا جسے ایک بارضرور پڑھنا چاہیے۔
”ادب برائے ادب اورادب برائے زندگی“ کے مقالے میں مصنف نے بڑی خوب صورتی سے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ سماج اورفرد کی زندگی کو نفع دینے والا ادب ہی پائیدار ہوتا ہے۔
اس کتاب کے دیگر موضوعات پر لکھتے ہوئے حسنین عاقب نے خوب انصاف کیا ہے۔
اس کتاب کے 255صفحات ہیں اور اس کی قیمت 155روپے ہے۔ اس کتاب کو درج ذیل پتوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
۱۔خان حسنین عاقب، علامہ اقبال ٹیچرس کالونی، واشم روڈ، پوسد، ضلع ایوت محل
۲۔ اشرف بک ڈپو، اقصیٰ چوک، وسنت نگر، پوسد۔
۳۔ محسن ساحل، ممبئی
|