اللہ کا عالَم اور اللہ کا نُورِ عالَم !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{ سُورَةُالنُور ، اٰیت 35 تا 40 }}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
اللہ
نورالسمٰوٰت
والارض مثل نورهٖ
کمشکٰوة فیھا مصباح
المصباح فی زجاجة الزجاجة
کانھا کوکب درّی یوقد من شجرة
مبٰرکة زیتونة لاشرقیة ولا غربیة یکاد
زیتھایضئی ولم تمسسه نار نور علٰی نور
یھد اللہ لنوره من یشاء ویضرب اللہ الامثال
للناس واللہ بکل شئی علیم 35 فی بیوت اذن اللہ
ان ترفع ویذکر فیھااسمه یسبح له فیھابالغدو والاٰصال 36
رجال لاتلھیھم تجارة ولا بیع عن ذکر اللہ واقام الصلٰوة وایتاء
الزکٰوة یخافون یوما تتقلب فیه القلوب والابصار 37 لیجزیھم اللہ
احسن ماعملواویزیدھم من فضله واللہ یرزق من یشاء بغیر حساب 38
والذین کفروا اعمالھم کسراب بقیعة یحسبه الظماٰن ماء حتٰی اذا جاه لم یجده
شیئا ووجداللہ عنده فوفٰه حسابه واللہ سریع الحساب 39 اوکظلمٰت فی بحر لجی
یغشٰه موج من فوقه موج من فوقه سحاب ظلمٰت بعضہا فوق بعض اذااخرج یده لم
یکد یرٰھا ومن لم یجعل اللہ نورا فماله من نور 40
اِس کتابِ اِلٰہی کے حرفِ اَوّل سے حرفِ حاضر تک اِس عالَمِ اِلٰہی کے لیۓ جس علمِ اِلٰہی کا بیان ہوا ھے وہ علمِ اِلٰہی صرف عالَمِ مشرق و عالَمِ مَغرب کے انسانوں کے لیۓ ہی کوئی خاص عِلم نہیں ھے بلکہ وہ مشرق و مَغرب اور جنوب و شمال کے سارے انسانوں کے لیۓ ایک عام علم ھے اور عالَم و اہلِ عالَم کے لیۓ نازل کیۓ گۓ اِس عام علم کے عام فہم کی بصری و نظری مثال یہ ھے کہ جیسے اِس گُنبدِ عالَم کے درمیان ایک طاقِ عالَم ہو ، اُس طاقِ عالَم کے درمیان ایک فانُوسِ عالَم ہو اور اُس فانُوسِ عالَم کے درمیان علمِ عالَم کا وہ جگمگاتا چراغ ہو جس چراغ کی روشنی شَجرِ زیتون کے اُس تیل سے روشن کی گئی ہو جو عالَمِ مشرق و مَغرب میں پیدا ہونے کے بجاۓ عالَمِ مشرق و مغرب کے اُس اَعلٰی مرکز میں پیدا کیا ہواہو جس مرکز میں صُبحِ نُور کی پہلی کرن پہلی ساعت میں آتی ہو اور جس مرکز میں نُور کی وہ پہلی کرن ہر دُوسری صُبحِ نَو تک موجُود رہتی ہو ، اِس مُبارک چراغ میں اِس مُبارک شَجرِ زیتون کا وہ تیل خود سے خود جلتا رہتا ہو اور خود سے خود اُجالا دیتا رہتا ہو ، علمِ ھدایت کی اِس روشنی کے بارے میں اللہ کے علمِ بے خطا نے انسان کے علمِ خطا میں بھی یہ بات شامل کردی ھے کہ جو انسان علم کے اِس علمی اُجالے میں رہنا چاہتا ھے تو اللہ تعالٰی اُس کو اِس کے اُجالے میں رہنے کا موقع دیتا ھے اور جو انسان اِس علمی اُجالے سے نکلنا چاہتا ھے تو اللہ تعالٰی اُس انسان کو اِس علمی اُجالے سے نکال دیتا ھے اِس لیۓ جو انسان علم کی اِس روشنی میں رہتے ہیں اُن کے دِل اور دَر اِس علم سے اِس طرح روشن و رَخشاں ہو جاتے ہیں کہ اُن کو اُن کا کارِ جہان ، اُن کو اُن کی سَعیِ دین و ایمان اور اُن کو اُن کا تزکیہِ رُوح و جان نُور کے پہلے ہالے کے بعد نُور کے ایک دُوسرے ہالے میں لے جاتا ھے اور وہ اِس نُورانی سمندر کے لہردَر لہر دائروں میں دائرہ دَر دائرہ و موج دَر موج ہو کر صُبح سے شام تک آگے سے آگے بڑھتے رہتے ہیں اور یہ لوگ اپنی اِس دینی و رُوحانی جُھدِ عمل کے مطابق جو روزی پانا چاہتے ہیں وہ اپنی وہ روزی بھی اپنے گمان سے کہیں زیادہ پاتے ہیں بخلاف اِس کے کہ جو لوگ علم کی اِس روشنی سے بھاگ جاتے ہیں وہ جہالت کے اُس صحراۓ جَہل میں داخل ہو جاتے ہیں جس صحراۓ جَہل میں خواب و سراب کے سوا کُچھ بھی نہیں ہوتا اِس لیۓ وہ فریبِ خیال و نظر کے اسی صحراۓ جَہل میں بہٹکتے ہوۓ فنا ہو جاتے ہیں ، جب سے انسان کے عالَمِ نظر میں خالق کا یہ عالَمِ خَلق موجُود ھے تب سے اِس عالَمِ خَلق میں مکافاتِ عمل کا یہی انقلابِ عمل جاری ھے اور تب سے اَب تک اِس مکافاتِ عمل کے مُثبت و مَنفی نتائج بھی اسی طرح ظاہر ہوتے رھے ہیں جس طرح وہ ہمیشہ سے جاری ہوتے ہیں ، اگر تُم چاہو تو علم و جہالت کے اِس معرکے کو اِس مثال سے سمجھ لو کہ یہ عالَم ایک گہرا تاریک سمندر ھے جس کے چاروں اَور گھنگھور گھٹائیں ہیں اور اِس گہرے و تاریک سمندر میں اُٹھنے والی موج دَر موج اور تاریک دَر تاریک لہروں نے اِس کو ایسا تاریک بنا دیا ھے کہ اگر انسان اپنے ہاتھ کو سامنے لاکر اپنی نگاہ سے دیکھنا چاھے تو ہرگز نہ دیکھ سکے کیونکہ انسان نے علم و ھدایت کی اُس روشنی سے نکل کر جہالت کی اُس تاریکی میں اُتر گیا ھے جس تاریکی میں اُس کو خواہشِ دید کے باوجُود بھی کُچھ نظر نہیں آتا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کے حرفِ آغاز سے حرفِ حاضر تک جو کُچھ بیان ہوا ھے اٰیاتِ بالا کے اِس متن میں آنے والا یہ مضمون بظاہر قُرآنِ کریم کے اُسی مُفصل بیان کا ایک مُجمل بیانیہ ھے اور قُرآنِ کریم کے اُس مُفصل بیان کا یہ مُجمل بیانیہ بذاتِ خود اتنا وسیع ھے کہ اِس کے اِس مُجمل بیانیۓ کے لیۓ بھی اُس مُفصل بیان کی ضرورت ھے جو ایک یا چند ایک نشستوں میں بیان کردینا مُمکن نہیں ھے اِس لیۓ ھم اِس مضمون کی اُن علمی تفصیلات کو انسان کے شوقِ طلب اور ذوقِ جستجو پر چھوڑ دیتے ہیں تاکہ ہر انسان اپنے ظرف و ذوق کے مطابق جتنا سوچ سکتا ھے اتنا سوچے اور ہر انسان اپنے ذوق و ظرف کے مطابق جتنا سمجھ سکتا ھے اتنا سمجھے لیکن اِس مُفصل مضمون کو اگر ھم ایک مُجمل مضمون کے طور پر بیان کرنا چاہیں تو ھم کہہ سکتے ہیں کہ اِس مضمون کے جو تین اَرکان طاقِ عالَم و فانُوسِ عالَم اور نُورِ عالَم ہیں عُلماۓ روایت کے نزدیک اُن میں طاق سے مُراد خلاۓ عالَم ، فانُوس سے مُراد خلاۓ عالَم میں پھیلا ہوا دائرہِ نُور اور نُور سے مُراد انسانی نگاہ پر مُنعکس ہونے والا وہ احساسِ دید ھے جو پہلے انسانی نگاہ پر ایک احساسِ نُور کی صورت میں خود مُنعکس ہوتا ھے اور بعدا اَزاں انسانی نگاہ پر اُن دُوسری اَشیاۓ عالَم کو بھی مُنعکس کردیتا ھے جو اِس کے اپنے نُور سے مُنوّر ہوتی ہیں اور ظاہر ھے کہ یہ صرف اُس روشنی کی وہ معروف تعریف ھے جو ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ کی رَفتار سے خلاۓ عالَم میں سفر کر رہی ھے ، بعض اہلِ روایت کے خیال میں اللہ کی ذات ایک نُور ھے اور عالَم کا جو نُور ھے وہ اللہ کے اُسی نُورِ ذات کی ایک تجلّی ھے لیکن اَصل بات یہ ھے کہ علمی اعتبار سے عالَم سے مُراد خالقِ عالَم کا جو عالَم ھے اُس عالَم کے نُور سے مُراد خالقِ عالَم کی وہ وحی ھے جو اپنے مقصد کے اعتبار سے صرف اہلِ مشرق و اہلِ مَغرب کے لیۓ نہیں ھے بلکہ مشرق و مَغرب اور جنوب و شمال کی چاروں سمتوں میں پھیلے ہوۓ اُس سارے عالَم کے لیۓ ھے جس عالَم میں کوئی انسان رہتا ھے ، جہاں تک اِس بیانیۓ میں آنے والے شجرِ زیتون کا تعلق ھے تو اہلِ روایت کا خیال ھے کہ شجرِ زیتون کی ایک قِسم وہ ھے جو زمین کے مشرق یا مغرب میں پیدا ہوتی ھے اور شجرِ زیتون کی وہ قِسم چڑھتے اور ڈھلتے ہوۓ سُورج سے ایک محدُود حرارت پاتی ھے اور شجرِ زیتون کی دُوسری قِسم وہ ہوتی ھے جو مشرق و مَغرب کے وسط میں ایک بلند مقام پر پیدا ہوتی ھے اور شجرِ زیتُون کی اُس قِسم کو چڑھتے ڈھلتے سُورج سے زیادہ حرارت اور زیادہ روشنی ملتی ھے ، جُزوی طور پر اِس حَد تک تو یہ بات ضرور درست ھے کہ قدیم زمانے کے لوگ یہی سمجھتے تھے کہ زیتون کا جو درخت وسطِ زمین کی کسی بلند سطح پر پیدا ہوتا ھے اُس کا تیل دیۓ میں بہتر طور پر جلتا ھے اور اُس کی لَو بھی بہتر اور بلند ہوتی ھے اور وہ کھانے میں بھی ایک بے نظیر تاثیر کا حامل ہوتا ھے لیکن یہ ایک تَمثیل ھے جو روشنی کے استکمال کے لیۓ لائی گئی ھے کسی طبی نُسخے میں استعمال کے لیۓ نہیں لائی گئی اور اِس تَمثیل میں روشنی کے تسلسل و استکمال سے مُراد بھی وحی کی وہ روشنی ھے جس کا پہلا چراغ روشن ہونے کے بعد ہر چراغ اسی پہلے چراغ سے خود سے خود ہی روشن ہوتا چلا جاتا ھے اور انسان پر لازم ہو جاتا ھے کہ وہ عُمر بھر ھدایت کے اُس چراغ کی روشنی میں چلتا رھے اور عُمر بھر اُس چراغِ ھدایت کو کفر و شرک سے آندھیوں سے بچاتا رھے ، اِس نُور کے نُورانی سلسلہِ کلام میں یہ بھی بتا دیا گیا ھے جو لوگ وحی کی اِس روشنی کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں اُن کے دِل اور دَر کے سارے گوشے اِس علمِ ھدایت کے نُور سے بقعہِ نُور بنے رہتے ہیں اور جو لوگ اِس روشنی سے دُور رہتے ہیں اُن کے دِل اور دَر جہالت کے اندھیروں میں ڈُوبے رہتے ہیں اور وہ لوگ جہالت کے اِنہی اندھیروں میں ڈوب کر جیتے ہیں اور جہالت کے اِنہی اندھیروں میں ڈُوب کر مرجاتے ہیں اور یہ بات بذاتِ اِس بات کی ایک قوی تر دلیل ھے کہ اِس روشنی کی اِس تمثیل سے مُراد وحی کی روشنی ھے اور اسی سلسلہِ کلام کی دُوسری تَمثیل میں یہ اَمر بھی واضح کر دیاگیا ھے جو لوگ علمِ وحی کی اِس وحی کو چھوڑ کر کفر و شرک کے اندھیرے میں اُتر جاتے ہیں وہ ایک اندھرے کے بعد دُوسرے اندھیرے اور دُوسرے اندھیرے کے بعد تیسرے اندھیرے میں اُترتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ اُس آخری اندھیرے میں پُہنچ جاتے ہیں جہاں پر اُن کو اپنی کُھلی آنکھوں سے اپنا سامنے کا ہاتھ بھی نظر نہیں آتا ھے ، اٰیاتِ بالا سے یہ ثبوت اور یہ مقصدِ ثبوت سامنے آتا ھے کہ اللہ کا عالَم اللہ کے علمِ وحی کے لیۓ ھے اور اللہ کا علمِ وحی اللہ کے اِس عالَم کے لیۓ ھے جس عالَم میں انسان آباد ھے اور اللہ تعالٰی کے اِس علمِ وحی کا مقصد صرف اور صرف انسانی ھدایت ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558470 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More