عید نامہ : نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا

قرآن حکیم میں خانہ کعبہ کی تعمیر کا ذکر نہایت دلنشین انداز میں کیا گیا ہے لیکن اس کی تمہید میں ارشاد ربانی ہے: ’’ یاد کرو کہ جب ابراہیمؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزما یا اور وہ اُن سب میں پورا اتر گیا‘‘۔ حضرت ابراہیم ؑ کا لڑکپن ہو یا جوانی یہاں تک کبر سنی بھی آزمائشوں پُر ہے۔ یہ ایسی ایمان افروز آزمائشیں ہیں کہ جن کو پڑھتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ انہیں آزمائشوں نے ابوالانبیاء حضرت ابراہیم ؑ کو خلیل اللہ اور امام عالم کے مقام عظمت پر فائز کیا ۔ آگ کے دریا سے گلزار کی مانند گزر جانے کے بعد گھر بار اور وطن چھوڑ دینا انہوں نے خوشی خوشی گوارہ کرلیا اور بالآخرخوشنودیٔ رب کی خاطر اپنے لختِ جگر کو اللہ کی راہ قربان کرنے کا عزم کرکے ایک ایسا خواب سچا کردکھایا کہ جو رہتی دنیا تک اپنی مثال آپ ہے ۔ ان ابتلاء وآزمائشں میں کامیابی کے بعد یہ بشارت دی گئی کہ : "میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں"۔ علامہ اقبال اس کیفیت کا موجودہ حالات پر انطباق کرتے ہوئے فرماتے ہیں ؎
آگ ہے، اولادِ ابراہیمؑ ہے، نمرُود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصُود ہے!

اس شعر کی خوبی یہ ہے کہ اس میں علامہ اقبال نے ماضی کے بجائے حال کا صیغہ استعمال کیا ہے اس لیے کہ آج بھی چہار جانب نفرت و عناد کے شعلے اٹھ رہے ہیں ۔ بے شمار نمرود وقت جمہوریت و آمریت کی نقاب اوڑھ کر مختلف ممالک میں عوام کی گردن پر مسلط ہوچکے ہیں۔ اولادِ ابراہیم ؑ یہ سب دیکھ رہی ہے۔ کہیں وہ باطل سے پنجہ آزمائی کررہی ہے اور کہیں اس کے آگے سجدہ ریز ہے۔ دنیا کے کسی حصے میں صدائے حق بلند کرکے اپنی جان عزیز کا نذرانہ پیش کیا جارہا ہے اور کہیں وہ بے بسی کے عالم میں فریاد کناں ہے۔ کوئی اس امتحان کے اندر کامیابی سے ہمکنار ہورہا ہے اور کوئی ناکامی کو گلے لگا رہا ہے۔ افسوس کہ امت کے اندر ایک بڑی تعداد ایسے بے حس افراد کی بھی ہے کہ جن پر یہ شعر صادق آتا ہے ؎
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

حضرت ابراہیمؑ کا حال تو یہ تھا کہ جیسے ہی انہیں عالم انسانیت کے امامت کی بشارت ملی انہوں نے فوراً بارگاہِ خداوندی میں استفسار کیا : "اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟"۔ یہ سوال ہمارے آپ کے بارے میں تھا ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے خلیل کو جواب دیا : "میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے" ۔ ہم جیسے لوگ جو خود اپنے آپ ظلم کرتے ہیں اور دوسروں کی حق تلفی کرکے ان پر طرح طرح کے مظالم کا ارتکاب کرتے ہیں بھلا منصبِ امامت کے حقدار کیونکر ہوسکتے ہیں؟ ایسے کچے پکے اسلام کے علمبرداروں کو اگر رب کائنات قوموں کی قیادت و سیادت سونپ دے تو وہ اللہ کے دین کو بدنام کردیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ فی الحال قوم مسلم قیادت ِ عالم سے محروم ہے لیکن علامہ اقبال اس حالت سے نکلنے کی خاطر صداقت، عدالت اور شجاعت کا نسخۂ کیمیاء تجویز فرماتے ہیں ؎
سبَق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

خانۂ کعبہ کے اعزاز و تکریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبے) کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیمؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنا لو اور ابراہیمؑ اور ا سماعیل کو تاکید کی تھی کہ میرے گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو‘‘ ۔ کورونا کی وباء کے باوجود اللہ کے گھر کو حج و عمرہ کی خاطر پاک صاف رکھنے کے لیے روبوٹ تک کا بندوبست کردیا گیا لیکن افسوس کہ اس کو امن کا عالمی مرکز بنانے میں امت ناکام ہے ۔ لوگ امن عالم کی خاطر اقوام متحدہ کی جانب رجوع کرتے ہیں جہاں ظالم و سفاک لوگوں کو ویٹو کی طاقت سے نوازہ گیا ہے اور وہ وقتاً فوقتاً اپنے جبر و استبداد کا جواز اس اندھی لاٹھی سےفراہم کرتے ہیں اور اپنے حامیوں کی جارحیت و زیادتی کی پشت پناہی بھی کرتے رہتے ہیں۔

تعمیر کعبہ کے وقت حضرت ابراہیمؑ نے دعا کی تھی : "اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے، اور اس کے باشندوں میں جو اللہ اور آخرت کو مانیں، انہیں ہر قسم کے پھلو ں کا رزق دے"۔ اس دعا میں امن و سلامتی کو مادی وسائل پر فوقیت دے کر ان کا باہمی مقام متعین کردیا گیا ہے۔ مادی وسائل کے حصول کی اندھا دھند دوڑ دھوپ نے عصرِ حاضر کے انسانوں کا داخلی سکون چھین لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حرص و ہوس کے ان بندوں کی انا اور جارحانہ رویہ نے امن عالم کو غارت کردیا ہے۔ رب کائنات ایسے نافرمان بندوں کی رسی دراز کرتا چلا جاتا ہے اس دعا کے جواب میں : ’’ اس کے رب نے فرمایا کہ "اور جو نہ مانے گا، دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تومیں اُسے بھی دوں گا‘‘۔ اس لیے نافرمانوں کے پاس موجود دھن دولت کو دیکھ کر حیران و پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس وعید کو یاد رکھنا چاہیے کہ :’’ مگر آخرکار اُسے عذاب جہنم کی طرف گھسیٹوں گا، اور وہ بد ترین ٹھکانا ہے"۔ ہم چونکہ خود اپنی عاقبت سے غافل ہیں اس لیے دوسروں کی آخرت سنوارنے کی فکر کرنے سے قاصر ہیں۔
خانہ کعبہ کی تعمیر کے دوران حضرت ابراہیم اور ان کے فرزندِ جلیل نےجس کمال عجز و انکسار کا مظا ہرہ کیا، قرآن حکیم میں اس کی منظر نگاری ملاحظہ فرمائیں :’’ یاد کرو ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ جب اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے، تو دعا کرتے جاتے تھے: "اے ہمارے رب، ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے ‘‘۔ ہمارے اندر معمولی سی خدمتِ دین کے بعد فخرو استکبار پیدا ہوجاتا ہے اس کے برعکس ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کیسا عظیم کارنامہ انجام دے رہے ۔ انسانیت کا عالمی مرکز اور بیت اللہ کی تعمیر کرتے ہوئے یہ سبق آموز دعا فرما رہے ہیں جو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے ۔ ہم کوئی شکوہ اس لیے نہیں کرسکتے کیونکہ جواب شکوہ کا یہ شعر ہمیں آئینہ دکھاتا ہے ؎
باپ کا عِلم نہ بیٹے کو اگر اَزبر ہو
پھر پِسر قابلِ میراثِ پدر کیونکر ہو!

حضرت ابراہیم ؑو اسماعیلؑ نے اس مبارک موقع پر خود اپنے اور آنے والی نسلوں کے لیے یہ دعا فرمائی :’’ اے رب، ہم دونوں کو اپنا مسلم (مُطیع فرمان) بنا، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا، جو تیری مسلم ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا، اور ہماری کوتاہیوں سے در گزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ‘‘۔ یہ تو ایک عمومی دعا ہے مگر انہوں نے ایک مخصوص دعا یہ کی تھی کہ : ’’اور اے رب، ان لوگوں میں خود انہیں کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھا ئیو، جو انہیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے"۔ قرآن حکیم میں دیگر مقامات پر نبی کریم ﷺ کی جو ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں وہ بعینہ یہی ہیں جن کا اس دعا میں ذکر ملتا ہے یعنی دعوت ، حکمت کی تعلیم نیز امت کا تزکیہ و تربیت ِ ۔

ان سلسلہ وار آیات میں آگے رب کائنات بندگان عالم سے استفسار فرماتا ہے:’’ اب کون ہے، جو ابراہیمؑ کے طریقے سے نفرت کرے؟ جس نے خود اپنے آپ کو حماقت و جہالت میں مبتلا کر لیا ہو، اس کے سو ا کون یہ حرکت کرسکتا ہے؟ ابراہیمؑ تو وہ شخص ہے، جس کو ہم نے دنیا میں اپنے کام کے لیے چُن لیا تھا اور آخرت میں اس کا شمار صالحین میں ہوگا‘‘۔ اس آیت میں جہاں اللہ بزرگ و برتر کے ذریعہ ابراہیم ؑ کے انتخاب و امتیاز کا ذکر ہے وہیں اس کی اگلی آیت میں وجہ بھی بیان کردی گئی۔ فرمایا: ’’اس کا حال یہ تھا کہ جب اس کے رب نے اس سے کہا: "مسلم ہو جا"، تو اس نے فوراً کہا: "میں مالک کائنات کا "مسلم" ہو گیا‘‘۔ یعنی کسی تشکیک و تردد کا شکار نہیں ہوا۔ حضرت ابراہیم نے اطاعت و فرمانبرداری کا وہ بے مثال نمونہ پیش کیا کہ علامہ قابل فرماتے ہیں؎
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

اپنی اولاد کے حوالے سے حضرت ابراہیم ؑ کی فکرمندی بھی منفرد وممتاز تھی ۔ اس کا بیان قران حکیم میں اس طرح ملتا ہے کہ جو طرزِ زندگی انہوں نے اپنایا :’’اسی طریقے پر چلنے کی ہدایت اس نے اپنی اولاد کو کی تھی‘‘ ان کے فرمانبر دار فرزند نے بھی اس روایت کو آگے بڑھایا ، رب کائنات نے اس کا ذکر اپنی کتاب میں اس طرح کیا ہے کہ :’’ اور اسی کی وصیت یعقوبؑ اپنی اولاد کو کر گیا اس نے کہا تھا کہ: "میرے بچو! اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند کیا ہے لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا۔ پھر کیا تم اس وقت موجود تھے، جب یعقوبؑ اس دنیا سے رخصت ہو رہا تھا؟اس نے مرتے وقت اپنے بچوں سے پوچھا: "بچو! میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے؟" ان سب نے جواب دیا: "ہم اسی ایک خدا کی بندگی کریں گے جسے آپ نے اور آپ کے بزرگوں ابراہیمؑ، اسماعیلؑ اور اسحاقؑ نے خدا مانا ہے اور ہم اُسی کے مسلم ہیں‘‘۔

نبی اکرم ﷺ کے توسط سےیہ سلسلہ ہم تک پہنچتا ہے لیکن ہمیں بےوجہ کسی زعم میں مبتلا ہوکر بےعملی کا شکار ہونے سے بچانے کےلیے آگے فرمایا ’’وہ کچھ لوگ تھے، جو گزر گئے جو کچھ انہوں نے کمایا، وہ اُن کے لیے ہے اور جو کچھ تم کماؤ گے، وہ تمہارے لیے ہے تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے ‘‘۔ یعنی ہم سب کو اپنے اعمال کاحساب دینا ہوگا ۔ ہم محض ان سے تعلق خاطر کی بنیاد پر باریاب نہیں ہوسکیں گے۔ سورۂ مائدہ میں ارشادِ حق ہے:’’اے محمدؐ! کہو میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیمؑ کا طریقہ جسے یکسو ہو کر اُس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا‘‘۔ اس آیت میں نبی اکرم ﷺ کو حضرت ابراہیم کے ساتھ اپنی نسبتِ خاص کے اعلان کا حکم دیا گیا ہے۔ آگے فرمایا ’’ کہو، میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔ اس دعا میں مراسمِ عبادت سے مراد بہت سارے علماء نے قربانی لیا ہے یعنی وہ سنت ابراہیمی جو عیدالاضحیٰ کے دن امت محمدیہؐ ادا کرتی ہے ۔

توحید خالص یعنی اس خدائے واحد کی خوشنودی ان تمام عبادات کی روح ہے:’’ جس کا کوئی شریک نہیں اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔ کہو، کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں حالاں کہ وہی ہر چیز کا رب ہے؟‘‘۔ اس کے بعد فرمایا کہ ان جلیل القدر انبیائے کرام کے ساتھ نسلی یا زبانی نسبت کسی کے کام نہیں آئے گی بلکہ :’’ ہر شخص جو کچھ کماتا ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے، کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا، ۰۰۰‘‘۔ اس لیے ہماری دعا یہ ہونی چاہیے کہ : ’’ اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما‘‘۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1232004 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.