۱۴۳۲سال قبل حضور ﷺ نے ایک لاکھ صحابہؓ کے ساتھ حج ادا فرمایا اور آج صرف60ہزار حجاج۔؟

الحمد ﷲ ! اﷲ سبحانہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس سال کم و بیش 60ہزار عازمین حج نے حج کی سعادت حاصل کرتے ہوئے فریضہ حج کی ادائیگی انجام دی۔ آج سے ۱۴۳۲سال قبل یعنی سنہ۱۰ہجری خاتم النبیےن رحمۃ للعالمین حضورنبی اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم نے ایک لاکھ صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کے ساتھ مناسک حج ادا فرماکر اسلام کے عظیم الشان فرض کی تکمیل فرمائی تھی۔اسی روز اﷲ رب العزت نے اپنے پیارے حبیب صلی اﷲ علیہ و سلم پر دینِ اسلام کے مکمل ہونے کی وحی فرماکر صحابہ کرام ؓ کو باخبر کردیا تھا کہ اب انکے محبوب آقا ، اپنی زندگیوں سے زیادہ عزیز ہستی فخر موجودات ،رحمۃ للعالمین راحت العاشقین ﷺ دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو خطبہ دیا یہ ساری انسانیت کے لئے اہمیت کا حامل ہے ۔خطبہ حجۃ الودع تمام دینی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ اس کا نقطہ آغاز اﷲ رب العزت اور اس کے بندے کے درمیان صحیح تعلق کی وضاحت کرتا ہے اور بھلائی کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام کے معاشرتی نظام کی بنیادیں مہیا کرتا ہے۔ معاشرتی مساوات، نسلی تفاخر کا خاتمہ، خواتین کے حقوق، غلاموں،یتیموں و مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک ایک دوسرے کے جان و مال اور عزت کا احترام، یہی وہ بنیادیں ہیں جن پر اسلام کا معاشرتی نظام ترتیب پاتا ہے۔حضور اکرم ﷺ نے اس خطبہ کے ذریعہ معاشی عدم توازن کا راستہ بند کرنے کے لیے سود کو حرام قرار دیا کیونکہ سود سرمایہ دار طبقہ کو محفوظ طریقہ سے دولت جمع کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے اور ان کی تمام افزائش دولت سودی سرمائے کے حصول ہی کی وجہ سے ہوتی ہے۔یہی وہ خطبہ ہے جس میں آپ ﷺ نے بہت سے اہم قانونی اصول متعین فرمائے ہیں۔ مثلاً انفرادی ذمہ داری کا اصول وراثت کے بارے میں ہدایت وغیرہ۔غرض کہ خطبہ حجۃ الوداع ﷺ سیاسی و سماجی طور پر اسلام کے منشور کی حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا بھر کو اس خطبہ کے پیغام دیا گیا کہ اسلامی حکومت کن اصولوں کی بنیاد پر تشکیل پائے گی۔ اور ان اصولوں پر تعمیر ہونے والا یہ نظام انسانیت کیلئے رحمت ثابت ہوگا۔ اسی بنا پر ڈاکٹر حمید اﷲ علیہ الرحمہ نے اسے انسانیت کا منشور اعظم قرار دیا ہے۔محسنِ انسانیت صلی اﷲ علیہ و سلم کا یہ آخری پیغام جو ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرام کی موجودگی میں دیا گیا اور اس میں تمامِ امتِ محمدیہ صلی اﷲ علیہ و سلم کو مخاطب بنایا گیا ۔ اس کی نوعیت پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی وصیت کی سی ہے۔عزیز قارئین کرام ! آپ ﷺ نے جس طرح اپنی امت کا ہمیشہ خیال رکھا اور جس طرح اﷲ رب العزت سے اپنی امت کے لئے ہمیشہ دعا گو رہے اور آخری وقت تک بھی اپنی امت کی جان کنی سے متعلق اﷲ تعالیٰ سے دعا گو رہے۔ بروز حشر بھی اﷲ رب العزت کے حضور مقام محمود پر اپنی امت کو بخشوانے کے لئے سربسجود ہونگے ۰۰۰ کاش ہم آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کی ایک ایک سنت پر عمل پیرا ہونے اور اﷲ رب الکریم کے احکامات پر عمل کرکے حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام اور اﷲ تعالیٰ سے سچی محبت کا ثبوت دینے کی سعی کرتے۰۰۰

جی ہاں! آج ۱۴۰۰سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے ، حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کی قیادت و رہبری میں ایک لاکھ صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علہیم اجمعین نے حج کی سعادت حاصل فرمائی۔ آج دنیا ترقی کے ایسے منازل پر پہنچ چکی ہے جہاں لاکھوں فرزندان توحید حج کی سعادت حاصل کرسکتے ہیں۔ گذشتہ دو سال قبل بھی کم وبیش 25لاکھ فرزندان توحید نے سعادت حج حاصل فرمائی۔ لیکن یہ کیا۰۰۰؟ اچانک اﷲ تعالیٰ نے’’کورونا وائرس یا کووڈ۔19‘‘ کے نام اپنی رحمت کے دروازے مسلمانوں کے لئے بند کردیئے۰۰۰حرمین شریفین کی عظیم الشان توسیع کے باوجود سعودی شاہی حکومت کے منصوبے تمام کے تمام ناکام ثابت ہوگئے۰۰۰ ان دو برسوں میں 60لاکھ سے زائد فرزندان توحید مناسکِ حج ادا کرسکتے تھے ۔ ہر سال کم و بیش 30لاکھ مسلمانوں کے لئے وسیع تر حج کے انتظامات کئے گئے تھے جو ناکام ہوگئے۰۰۰ گذشتہ دو سال کے دوران دنیا بھر کے لاکھوں فرزندانِ توحید عزم حج کئے ہوئے تھے لیکن اﷲ تعالیٰ نے انہیں حج کی سعادت سے محروم کردیا۰۰۰ عمرہ کرنے کیلئے دنیا بھر کے لاکھوں عازمین انتظار میں ہیں لیکن گذشتہ دو سال سے اﷲ تعالیٰ نے عمرہ کی اس بابرکت نعمت سے بھی فرزندانِ توحید کو محروم رکھا ہوا ہے۔ آخر کیوں۰۰۰؟ ہم مسلمانوں کو اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۰۰۰ اﷲ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی ہوگی۔ ہمارے اعمال کا ہی نتیجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ ایک معمولی وائرس’’ کورونا‘‘ کے ذریعہ اپنی عبادتگاہوں کے دروازے بند کردیئے۔ دنیا بھر کی لاکھوں مساجد میں کروڑوں فرزندان ِ اسلام اپنے خالق و مالک کو منانے، اس کے حضور حاضر ہوکر گریہ وزاری کرنے سے محروم کردیئے گئے۔ خیر اسلام کا عظیم الشان رکن حج ۱۴۴۲ اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ 60 ہزارفرزاندان توحید الحمد ﷲ رحمن و رحیم کے فضل و کرم سے حج کی سعادت سے مشرف ہوچکے ہیں۔ سعودی شاہی حکومت نے ’’کورونا وائرس‘‘ کے پھیلاؤ کو روکنے کے نام پر وسیع تر انتظامات کئے تھے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے ان تمام مہمان بندوں کا حج مقبول و مبرور فرمائے اور ان کی دعاؤ ں کو قبول فرماکر ہم تمام گناہگاروں کی بخشش فرمادیں۰۰۰آمین

۸؍ ذی الحجہ کو عازمین حج منیٰ رواہ ہوئے اور ۹؍ ذی الحجہ کو میدان عرفات پہنچ گئے۔ اس سال حج کے دوران میدان عرفات میں 60 ہزار حجاج کو ٹھہرانے کے لیے خیمے نصب کئے گئے۔ خیمہ پروجیکٹ کے عہدیدار طارق حریری کے مطابق’ میدان عرفات میں خیموں کا کل رقبہ 3 لاکھ مربع میٹر ہے۔ ہر حاجی کے لیے 5 میٹر کے لگ بھگ جگہ مختص کی گئی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ’کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے تمام حفاظتی تدابیر کی پابندی کی کوشش کی گئی ہے‘۔

خطیب حج عرفات
اس سال حج کا خطبہ عرفات کے میدان میں خادم حرمین شریفین کی منظوری سے ممتاز عالم دین، خطیب و امام مسجد الحرام مکہ مکرمہ فضیلت الشیخ ڈاکٹر بندر بلیلہ نے دیا۔شیخ ڈاکٹر بندر بلیلہ طائف یونیورسٹی کے معاون پروفیسر اور اسلامی علوم کے ماہر ہیں۔ ڈاکٹر بندر بلیلہ کا شمار مشہور قرا میں ہوتا ہے، وہ سعودی عرب کے ممتاز علما بورڈ کے ممبر بھی ہیں۔شیخ بندر بلیلہ 4 ذی الحجہ 1434ھ کو مسجد الحرام کے باقاعدہ امام تعینات ہوئے تھے۔عرفات میں دیئے جانے والے خطبہ حج کا ترجمہ اس سال 10 زبانوں میں کیاگیا۔

خیموں کا شہر منیٰ
منیٰ وہ مقام ہے جہاں سے عازمین حج چھ روزہ حج پروگرام کا آغاز کرتے ہیں۔منیٰ میں حجاج کرام ۸؍ ذی الحجہ کی صبح سے دوسرے روز فجر کی نماز تک قیام فرماتے ہیں۔ دوسرے روز بعد فجر عرفات کے لئے نکلتے ہیں جو حج کا اہم ترین فرض ہے۔پورے دن قیام ،ظہر و عصر کی آدائیگی کے بعد اﷲ رب العزت سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہوئے بخشش کے طلبگار ہوتے ہیں۔ غروب آفتاب تک اﷲ کی حمد و ثنا اور دعا کے بعد مزدلفہ کیلئے روانہ ہوتے ہیں جہاں مغرب اور عشاء کی نماز اد ا کی جاتی ہے۔ فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب کے ساتھ ہی شیطان کو کنگریاں مانے کیلئے دوبارہ منیٰ کو روانگی عمل میں آتی ہے ۔ دیگر فرائض و واجبات کے بعد ۱۲؍ یا ۱۳؍ ذی الحجۃ تک منیٰ کے خیموں میں حجاج کرام کا قیام رہتا ہے۔ منیٰ ایک خوبصورت شہر کا سا احساس دلاتا ہے۔ یہ تاریخی اور دینی اہمیت کا حامل مقام ہے۔منیٰ، مکہ اور مزدلفہ کے درمیان مسجد الحرام سے سات کلومیٹر شمال مشرق میں ہے۔ شمال اور جنوب میں دو طرف سے منی کا میدان پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔العربیہ نیٹ اور عرب نیوز کے مطابق منیٰ میں فائر پروف خیموں کا منصوبہ حج مقامات پر عازمین کے آرام و راحت اور سلامتی کے لیے نافذ کیے جانے والے بڑے منصوبوں میں سے ایک ہے۔جیسا کے ماضی میں بعد موقعوں پر کسی کی لاپروائی،غفلت یا لاعلمی کی وجہ سے حج کے دوران منی کے خیموں میں آتشزدگی کے واقعات پیش آتے تھے۔اسی لئے شاہی حکومت نے حالات کے پیش نظر اور ان واقعات کے سدّباب کیلئے فائر پروف خیموں کا انتظام کیا۔ منی میں ایسے خیمے نصب ہیں جن میں آگ لگنے کی صورت میں زہریلی گیس نہیں نکلتی۔جدید ٹیکنالوجی سے تیار ہونے والے خیموں میں شدید گرمی اور آگ کو لگنے سے روکنے والا مادہ ’ٹیفلن‘ استعمال کیا گیا ہے۔ متعدد خیموں پر مشتمل ایک کیمپ کے اطراف دھات کی دیواریں بنائی گئی ہیں۔ ہر کیمپ میں آنے جانے کے راستے بنائے گئے ہیں جبکہ ایمرجنسی گیٹ کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔منی میں فائر پروف خیمے 25 لاکھ مربع میٹر کے رقبے پر نصب ہیں۔ ان میں 26 لاکھ حجاج کی رہائش کی گنجائش ہے۔ خیموں کا منصوبہ امن و سلامتی کی بنیادوں پر بنایا گیا ہے۔ ہر خیمے میں یہ انتظام بھی ہے کہ جونہی آگ کا خطرہ پیدا ہو فورا ًہی خودکار سسٹم کے تحت پانی کی پھوار شروع ہوجائے۔ایک اور خوبی یہ ہے کہ پانی کی پھوار شروع ہوتے ہی معلم کے خیمے میں سائرن بجنا شروع ہوجاتا ہے۔ منی کے فائر پروف خیموں کے پروجیکٹ کے ساتھ ایک انتظام یہ کیا گیا ہے کہ منی میں پہاڑوں کے اوپر انڈر پاس کی شکل میں آگ بجھانے والے پانی کے ٹینک بنائے گئے ہیں جن میں دو لاکھ مکعب میٹر پانی ذخیرہ رہتا ہے۔یہاں سے مناسب مقدار میں آگ بجھانے والے نیٹ ورک کیلئے پانی کی سپلائی شروع ہوجاتی ہے۔ پانی کا یہ نیٹ ورک سو کلو میٹر طویل ہے۔ 250 ملی میٹر سے لیکر 750 ملی میٹر تک کے پائپوں سے پانی کی سپلائی ہوتی ہے۔ہر کیمپ میں راہداریاں بنائی گئی ہیں، روشنی کا انتظام ہے اور رہنما علامتیں ہیں۔ خیموں کے علاوہ شاہی حکومت نے گذشتہ چند سال قبل منی ٹاورز جمرات کے پل کے قریب بنائے ہیں۔ یہ 88 لاکھ 45 ہزار 245 مربع میٹر کے رقبے میں بنے ہوئے ہیں- ان میں 25 ہزار حاجیوں کی رہائش کی گنجائش ہے۔منی ٹاورز منی کے پہاڑوں کے دامن میں بنائے گئے ہیں۔ فی الوقت ان کی تعداد چھ ہے۔غرض کہ سعودی شاہی حکومت حجاج کرام کی ہر سہولت کا خیال کرتے ہوئے وسیع پیمارے پر انتظامات کئے ہیں۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے شاہی حکومت نے جو انتظامات کئے ہیں وہ اپنی جگہ قابلِ ستائش ہیں۔ اﷲ کے مہمان ان دنوں منیٰ میں قیام کئے ہیں ۔ ہم مسلمانوں کیلئے ضروری ہے کہ اپنے خالق و مالک کو منانے کی بھرپور کوشش کریں تاکہ آئندہ سال سے پھر وہی رونقیں اور رحمتیں لاکھوں فرزندانِ توحید حاصل کریں جو عزم حج و عمرہ کیلئے کوشاں ہیں۔ اﷲ تعالیٰ دنیا بھر سے اس کورونا وائرس کو ختم فرمادے اور اپنے فضل و کرم کے ذریعہ مسلمانوں کو پھر سے مساجد و حرمین شریفین میں داخلے کیلئے مواقع فراہم کریں ۰۰۰

خانعہ کعبہ کے غلاف کی تبدیلی
حرمین شریفین کی انتظامیہ نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب 9 ذی الحجہ کو پرانا غلاف اتار کر خانہ کعبہ پر نیا غلاف چڑھایا ہے۔بتایا جاتا ہیکہ غلاف کعبہ کی تبدیلی کا کام 200 ہنرمند وں کی مدد سے انجام دیا گیا۔
ہر سال 9 ذی الحجہ وقوف عرفہ کے موقع پر خانہ کعبہ کا غلاف تبدیل کرنے کی رسم ادا کی جاتی ہے۔نیا غلاف کعبہ چار برابر پٹیوں اور ستار الباب پر مشتمل ہے۔ خانہ کعبہ کے چاروں اطراف کی پٹیوں کو الگ الگ تیار کیا جاتا ہے۔تبدیلی کے عمل کے دوران پہلے ایک طرف کا حصہ اتار جاتا ہے۔ اس پر اس کی جگہ نیا غلاف چڑھا دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد دوسرا، تیسرا اور چوتھا حصہ اتارا جاتا اسی ترتیب کے ساتھ نیا غلاف چڑھایا جاتا ہے۔ سب سے پہلے الحطیم کی طرف سے غلاف کعبہ کو کھولا جاتا اس کی جگہ نیا غلاف ڈالا جاتا ہے۔ غلاف کعبہ کو اوپر سے نیچے کی طرف پھیلایا جاتا ہے۔ ’اﷲ اکبر‘ کے الفاظ پر مشتمل پانچ قندیلیں حجر اسود کے اوپر باب کعبہ کے بیرونی پردے پر لگائی جاتی ہیں۔ آخری مرحلے میں کعبہ کے دروازے کا پردہ تبدیل کیا جاتا ہے۔
***
 

Dr M A Rasheed Junaid
About the Author: Dr M A Rasheed Junaid Read More Articles by Dr M A Rasheed Junaid: 352 Articles with 209695 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.