نُورِ علم کے فوائد اور ظُلمتِ جَہل کے نقصانات !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالنُور ، اٰیت 41 تا 44 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
الم تر
ان اللہ یسبح له
من فی السمٰوٰت والارض
والطیر صٰٓفٰت کل قد علم صلاته
وتسبیحه واللہ علیم بما یفعلون 41
وللہ ملک السمٰوٰت والارض والی اللہ المصیر
42 الم تران اللہ یزجی سحاباثم یؤلف بینه ثم
یجعله رکاما فتری الودق من یخرج من خلٰله وینزل
من السماء من جبال فیھا من برد فیصیب بهٖ من یشاء
و یصرفهٗ عن من یشاء یکاد سنا برقه یذھب بالابصار 43
یقلب اللہ الیل والنھار ان فی ذٰلک لعبرة لاولی البصار 44
اٰیاتِ بالا سے پہلے ھم نے اپنے جس علمِ نُور و عالَمِ نُور کا ذکر کیا ھے اور انسان نے ھمارے جس علمِ نُور و عالَمِ نُور کا مُشاھدہ کیا ھے ھمارے اُس عالَمِ نُور میں انسان کے سوا ھماری ہر ایک مخلوق ھمارے اُس علمِ نُور کے مطابق اپنے اپنے دائرہِ علم و عمل میں رہ کر اپنے اپنے فرائضِ حیات اَنجام دے رہی ھے اور اللہ تعالٰی اپنی ہر ایک مخلوق کے ہر ایک عمل کو جانتا ھے ، اگر تُم نے ھماری کسی ایک مخلوق کے کسی ایک ہی عمل کا مُشاھدہ کرنا ھے تو فضاۓ عالَم میں پرواز کرنے والے ھمارے اُن ہزاروں پرندوں کو دیکھو جو زمین و آسمان کے درمیان غول دَر غول اُڑتے ہوۓ ہزاروں میل دُور جاتے ہیں اور کوئی غلطی کیۓ بغیر اپنی اپنی منزلِ مقصود پر پُہنچ جاتے ہیں کیونکہ خالق کی جو مخلوق بھی خالق کے علمِ نُور سے فیض پاتی ھے وہ اُس علمِ نُور کے نُور سے اپنی منزلِ مقصود پر پُہنچ جاتی ھے ، ھماری اِس ایک با مُراد مخلوق کا یہ ایک عمل ہی اِس بات کی دلیل ھے کہ ھمارے اِس عالَم پر ھمارے اُسی ایک خالق کی حکمرانی ھے جس ایک خالق نے ہر ایک مخلوق کو پیدا کیا ھے اور ہر ایک مخلوق کو وہ قانُونِ حیات دیا ھے جس قانُونِ حیات پر عمل کر کے ہر ایک مخلوق اُسی ایک خالق کی طرف بڑھ رہی ھے ، تُم اپنے اِس مُشاھدے کے بعد فضاۓ زمین میں پھیلنے والے اُن بادلوں کو بھی دیکھ لو جو اپنے خالق کے حُکم سے فضاۓ زمین کی مُختلف اَطراف میں کبھی سمٹ کر ، کبھی پھیل کر ، کبھی ایک دُوسرے سے دُور ہَٹ کر ایک دُوسرے سے گُم ہو جاتے ہیں اور کبھی ایک دُوسرے سے قریب ہو کر ایک دُوسرے میں مُدغم ہو جاتے ہیں اور پھر جب بادلوں کے یہ لطیف تودے کثیف ہو جاتے ہیں تو اِن بھاری بادلوں سے زمین کی طلب کے مطابق جہاں پر پانی برسانا منظور ہوتا ھے وہاں پر پانی برسایا جاتا ھے ، جہاں پر اَولوں کو گرانا مطلوب ہوتا ھے وہاں پر اَولوں کو گرایاجاتا ھے اور جہاں جہاں پر برف کی چاندنی بچھانی مقصود ہوتی ھے وہاں پر برف کی چاندنی بچھا دی جاتی ھے اور اِس پر مُستزاد یہ کہ اِن بادلوں کے اِس تال میل سے جو بجلی گرج گرج کر چمکتی ھے اور پھر چَمک چمک کر گرجتی ھے وہ بجلی انسانی نگاہ کو خیرہ کر کے اُس کو جاۓ پناہ پانے اور جاۓ پناہ میں چلے جانے پر مجبور کر دیتی ھے اِس لیۓ جو انسان یا خاندان زمین پر اپنی مُناسب بُود و باش کا انتظام کرتا ھے وہ اِس بارش سے نفع پاتا ھے اور جو انسان یا خاندان یہ اہتمام نہیں کرتا وہ اِس بارش سے نقصان اُٹھاتا ھے ، یاد رکھو کہ اِس عالَمِ نُور کا جو خالقِ عالَم اِس عالَم اور اِن اہلِ عالَم پر ایک موسم کے بعد دُوسرا موسم لاتا ھے وہی خالقِ عالَم اِس عالَم و اِن اہلِ عالَم پر مُشقت بھرے دن کے بعد ایک سکون بھری شَب بھی لاتا ھے اور پھر اِس سکُوت بھری شَب کے بعد وہ دوبارہ حرکت و عمل کا وہی دن لے آتا ھے جو انسان کو حرکت و عمل کے لیۓ تیار کرتا ھے اور اِن روز و شب کے ایک کے بعد ایک ایک ہو کر آنے اور جانے کے اِس عمل میں اہلِ عبرت کے لیۓ اَنگنت عبرتیں اور اہلِ بصیرت کے لیۓ اَنگنت بصیرتیں موجُود ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات
اٰیاتِ بالا سے پہلی اٰیاتِ نُور و ظُلمت کی دو تَمثیلات کے بعد اُس سلسلہِ کلام کی آخری اٰیت کا آخری مضمون یہ تھا کہ جو انسان اللہ تعالٰی کے علمِ وحی سے ھدایت نہیں پاتا ھے وہ ھدایت سے محروم ہوجاتا ھے اور جو انسان وحی کی ھدایت سے محروم ہوجاتا ھے اُس انسان کو عالَمِ فطرت کے کسی علم اور مُشاھدے سے ھدایت نہیں مل سکتی کیونکہ عالَمِ فطرت میں وحی کا نُور ہی فطرت کا سب سے بڑا علم اور سب سے بڑا مُشاھدہ ھے اور اُس اٰیت کے بعد موجُودہ اٰیات میں وحی کی اُسی پہلی بات کو اِس اُمید پر دُوسری بار دُوسری دو تَمثیلات کے ذریعے دُھرایا گیا ھے کہ شاید انسان اِن اَمثال کو سمجھ کر ھدایت کا وہ راستہ اختیار کر لے جو اُس کی فلاح و نجات کا راستہ ھے اور انسان چونکہ اپنے فطری تجسس کے تحت فضاۓ آسمان کو دیکھنے کا خُوگر ھے اِس لیۓ اُس کو پہلے فضاۓ آسمان میں اُڑنے والے پرندوں کی طرف متوجہ کر کے یہ بتایا گیا ھے کہ تُم دیکھو کہ یہ ہزاروں پرندے کس علم اور کس کے علم کے تحت فضاۓ آسمانی میں پزاروں میل دُور تک پرواز کرتے ہیں اور کسی غلطی کے بغیر اپنا سفر مُکمل کر کے اپنی منزلِ مقصود پر پُہنچ جاتے ہیں ، عھدِ جدید کے عُلماۓ جدید نے اِس عھدِ جدید میں فضاۓ آسمانی میں پرواز کرنے والے اِن پرندوں کی اس پرواز پر اپنی جو علمی تحقیق کی ھے اور اُس تحقیق سے جو سراغ لگایا ھے اُس میں یہ بتایا ھے کہ ھمارا یہ عالَم ایک بے خُدا عالَم نہیں ھے بلکہ وہ باخُدا عالم ھے جو ظاہری اَسباب کے بغیر ایک چھوٹے سے پرندے کو بھی ایک مقام سے اُڑا کر ہزاروں میل کے اُس فاصلے تک پُہنچاتا ھے جو فاصلہ انسان کے فکر و خیال میں بھی نہیں آتا ھے اور اِس کی ایک مشہور مثال امریکا کے گولڈن پرندے "پلور" کی مثال ھے جو ہر سال امریکا کی ریاست الآسکا سے امریکا کے جزیرہِ ھوائی تک 4000 کلومیٹر کی پرواز کرتا ھے جو 88 گھنٹوں کی ایک مُسلسل پرواز ہوتی ھے اور اِس پرواز کے دوران کسی جگہ پر ایک لَمحے کے لیۓ بھی رُک کر وہ دَم بھی نہیں لیتا ھے ، عُلماۓ سائنس نے جب اِس پرندے پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ اِس پرندے کی یہ پرواز 88گھنٹوں کی ایک مُسلسل پرواز ہوتی ھے اور اِس پرندے کے پاس 88 گھنٹوں کی اِس طویل پرواز کے لیۓ ایندھن کے طور پر 88 گرام چکنائی کی ضرورت ہوتی ھے اور اِس پرندے کے پاس اِس پرواز سے پہلے صرف 70 گرام چکنائی موجُود ہوتی ھے لیکن اِس نسل کے اِن پرندوں کو اللہ تعالٰی نے جو علم دیا ھے وہ اُس علم کے مطابق گروہوں کی صورت میں v کی شکل بنا کر پرواز کرتے ہیں اور پرواز کے دوران اپنی جگہ بھی بدلتے رہتے ہیں جس سے اِن کو ہَوا میں پرواز کرتے ہوۓ ہَوا سے وہ رگڑ ملتی رہتی ھے جس رگڑ سے اِن کی % 23 توانائی محفوظ ہو جاتی ھے جس توانائی کی وجہ سے تَکمیلِ سفر کے بعد بھی اِن کے پاس % 6 توانائی بَچ جاتی ھے اور یہ توانائی اُس آخری وقت میں اُن کے کام آتی ھے جب وہ اپنی لینڈنگ سے پہلے ہَوا میں تیزی کے ساتھ بار بار اپنا رُخ بدلتے ہیں ، یہ فضاۓ آسمانی میں پرواز کرنے والے ایک پرندے کی ایک مثال ھے ، آخر اِس پرندے کو اللہ تعالٰی کے سوا اور کون بتا سکتا ھے کہ اُس کے پاس اِس پرواز کے لیۓ کتنا ایندھن موجُود ھے ، کتنا ایندھن اُس نے خود پیدا کرنا ھے اور کس طرح پیدا کرنا ھے اور پھر اپنے پیدا کیۓ گۓ اِس اضافی ایندھن میں سے کتنا ایندھن اُس نے ہَوا میں ہَوائی کے اُس سیدھے سفر میں استعمال کرنا ھے اور کس قدر ایندھن اُس نے اپنی پرواز کے اُن آخری لَمحات کے لیۓ بچانا ھے جن آخری لَمحات میں اُس نے اپنی لینڈنگ کے دوران مُخالف ہَواؤں کے ساتھ مقابلہ کرتے وقت اپنے استعمال میں لانا ھے ، علم کا یہی وہ آخری مرحلہ ھے جس کے مُشاھدے سے انسان ھدایت پاتا ھے اور اٰیتِ بالا میں اللہ تعالٰی نے یہ مثال اسی لیۓ دی ھے کہ انسان اِن چھوٹے چھوٹے پرندوں کے علمِ خُدا داد پر غور کرے اور اپنی جہالت کے خول سے باہر آکر حیات کے علم اور حیات کے عمل کی جستجو کرے ، اٰیاتِ بالا میں فضاۓ بالا کے حوالے سے بادلوں ، بجلیوں ، بارشوں اور سیلابوں اور آسمانی رحمتوں اور آسمانی عذابوں کی جو دُوسری مثال دی گئی ھے اُس پر ھم سُورةُالرعد کے ابتدایۓ میں تفصیلی گفتگو کر چکے ہیں جس کا اِس وقت اِس مقام پر اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ھے ، اٰیاتِ بالا کے اِس فرمان میں اللہ تعالٰی نے انسانِ نافرمان کو بتایا ھے کہ اُس کے عالَم کی ہر مخلوق اپنے مقصدِ حیات کو جانتی ھے اور ہر مخلوق اپنے اُس مقصدِ حیات کے مطابق عمل کرتی ھے لیکن اللہ تعالٰی کے اِس عالَم میں انسان ہی وہ واحد سرکش مخلوق ھے جو اللہ تعالٰی کا ہر فرمان سُننے اور سمجھنے کے بعد ایک نئے عزمِ سرکشی کے ساتھ ایک نئی نافرمانی کے لیۓ اُٹھ کھڑی ہوتی ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 463335 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More