شعبہ صحافت کے عظیم ہیرو ڈاکٹر مجید نظامی
(Muhammad Aslam Lodhi, Lahore)
جناب مجید نظامی کے ذکر کے بغیر شعبہ صحافت کی تاریخ
مکمل نہیں ہوتی ۔کیونکہ ان کا شمار ان عظیم اور بے باک صحافیوں میں ہوتا ہے
جو ایوب خان جیسے جابر سلطان کے سامنے بھی کلمہ حق کہنے سے نہیں ڈرے ۔مجید
نظامی سانگلہ ہلز میں 3اپریل 1928ء کو ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے ۔
ابتدائی تعلیم مقامی طور پر حاصل کی ،پھر میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے لیے
لاہور چلے آئے ۔انہوں نے ایف اے کا امتحان اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے
1946ء میں پاس کیا ۔یہ کالج اس دور میں مسلمانوں کی علیحدہ قومیت کا ترجمان
اور تحریک پاکستان کے عروجی دور میں قومی سرگرمیوں کے حوالے سے بے حد فعال
تھا ۔ 1945ء میں نوابزادہ لیاقت علی خاں جب اسلامیہ کالج تشریف لائے تو
انہوں نے مجید نظامی کو "مجاہد پاکستان "کا سرٹیفیکٹ ایک تلوار کے ساتھ عطا
کیا ۔ 1950ء میں آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے سیاسیات کے
امتحانات یکے بعد دیگرے پاس کیے ۔ زیور تعلیم سے آراستہ ہونے کے بعد 1954ء
میں آپ نوائے وقت کے نامہ نگار کی حیثیت سے لندن جا پہنچے ۔یہ وہ دور تھا
جب نوائے وقت مسلم قومیت کا واحد ترجمان اخبار تھا۔برطانیہ میں قیام کے
دوران آپ نے لندن یونیورسٹی سے "انٹرنیشنل افیئر "کورس کیا اور" گریزان"
میں بارایٹ لاء کے لیے شرکت اختیار کرلی ۔ فروری 1962ء میں حمید نظامی
لاہور میں حرکت قلت بند ہونے کی وجہ سے اچانک انتقال کرگئے تو آپ کو قانون
کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر ہنگامی طور پر واپس لاہور آنا پڑا۔بھائی کے
ناگہانی انتقال کے بعد آپ نے نوائے وقت کا نظم و نسق سنبھالا اور نہایت
محنت سے اس کی کاروباری اور انتظامی بنیادوں کو مستحکم کیا ۔1969ء میں آپ
نے "ندائے ملت " کوشروع کیا ۔یہ ان کی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج نوائے
وقت لاہور، اسلام آباد ،کراچی اور ملتان سے روزانہ شائع ہوتا ہے ۔جبکہ ایک
انگریزی اخبار "دی نیشن "لاہور ،اسلام آباد اور کراچی سے چھپتا ہے ۔خاندان
کے ہر فرد کے ذوق مطالعہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک ہفت روزہ میگزین "فیملی
"کا آغاز بھی آپ ہی کی بہترین کاوشوں کا ثمر ہے ۔جبکہ بچوں کی دلچسپی سے
آراستہ ایک ماہنامہ میگزین "پھول "کا آغاز کیاگیا جو دور حاضر میں بچوں کی
صحت مند سرگرمیوں کے حوالے سے سب سے نمایاں رسالہ تصور کیا جاتا ہے ۔نوائے
وقت گروپ کے تحت شائع ہونے والی تمام مطبوعات ایک ٹرسٹ کے زیرانتظام ہیں ۔
مجید نظامی مرحوم کے بعد اس ٹرسٹ کی روح رواں رمیزہ نظامی ہیں ۔
اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ مجیدنظامی کو نظریاتی اور فکری صحافت میں
ایک مرد آہن کی حیثیت بھی حاصل رہی ہے ۔صداقت کا برملا اظہار اور وقت کے
حکمرانوں کے سامنے کسی بھی حالت میں نہ جھکنا ان کی شخصیت کا خاصا رہا ۔ظاہری
وضع قطع کے اعتبار سے وہ ہمیشہ سادہ لباس کو زیب تن کرتے لیکن قلبی طور پر
وہ مضبوط ارادوں کے انقلابی انسان تھے اور اتنے ہی جرات مند کہ انہوں نے حق
بات ایوب، یحیی ،بھٹو ، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے سامنے کہنے میں کبھی
عار محسوس نہیں کی ۔وہ نہ صرف نظریہ پاکستان کے سب سے مضبوط ستون تھے بلکہ
انہوں نے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی دور اسیری میں پرویزی مظالم
کے خلاف حق کا علم بلند رکھا اور ایٹمی دھماکوں کے موجد ڈاکٹرعبدالقدیر خاں
کی پارسا ئی کی گواہی نوائے وقت اخبار میں روزانہ دی جاتی رہی ۔اﷲ تعالی نے
انہیں حق اور سچ بات کہنے کی ہمت اور حوصلہ عطا کررکھا تھا ۔مجید نظامی
مرحوم کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ وہ ایک ہی وقت میں دو بلند پایہ
تنظیموں اے پی این ایس اور سی پی این ای کے صدر بھی رہ چکے تھے ،اس دوگانہ
انتخاب کی وجہ شاید یہ تھی کہ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا ء نافذ تھا اور
کوئی اور مارشل لا کا سامنا کرنے کی ہمت نہ رکھتا تھا ۔ذوالفقار علی بھٹو
اور بینظیر بھٹو کے دور میں نوائے وقت کے اشتہارات بند کرکے نظامی مرحوم کو
جھکانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن پھربھی انہوں نے جابر سلطان کے سامنے
جھکنے سے انکار کردیا اور ہر مشکل گھڑی میں ثابت قدم رہے ۔یہ بات بھی قابل
ذکر ہے کہ نہ صرف وہ نوائے گروپ کے محافظ تھے بلکہ انہوں نے زندگی بھر اپنے
صحافتی اداروں میں کام کرنے والے صحافیوں کا ہر مشکل لمحات میں تحفظ بھی
کیا ۔ان کے ہوتے ہوئے کسی حکمران یا سرکاری افسر کو یہ جرات نہ تھی کہ وہ
نوائے وقت کے کسی رپورٹر یا ملازم کے خلاف کارروائی کرتے ۔دوسرے لفظوں میں
مجید نظامی مرحوم اپنے صحافتی ادارے اور ماتحت ملازمین کے تحفظ کے لیے سیسہ
پلائی ہوئی دیوار تھے ۔مجید نظامی صاف گو اور بے باک نظریاتی صحافی تھے، وہ
علامہ محمد اقبال ؒ اور حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی نظریاتی وراثت
کے محافظ بھی تھے ۔وہ برصغیر میں بھارت کی چودھراہٹ اور بالادستی کے خلاف
گہرے اور موثر جذبات بھی رکھتے تھے ۔وہ کشمیر کی آزادی کے لیے ہرسطح پر
اپنی کاوشیں جاری رکھے ہوئے تھے ۔پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے انہیں ڈاکٹریٹ
کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی گئی ۔جب زمانہ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا معترف
تھا تو 26جولائی 2014ء کو موت کے فرشتے نے شعبہ صحافت کے اس عظیم ہیرو کو
ہم سے جدا کردیا ۔بیشک جسمانی طور پر وہ ہم سے جدا ہوچکے ہیں لیکن ان کے
افکار اور بہترین کردار، موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ثابت
ہونگے۔ان شا ء اﷲ |
|