بدبختی
(Dr B. A.Khurram, Karachi)
تحریر۔۔۔ ڈاکٹر فیاض احمد
اچانک سے ندیم صاحب کی بیگم زچگی کی تکلیف سے تڑپ اٹھی اس وقت تو حال ہی
برا ہو گیا تھا ندیم صاحب کا، مصیبت پے مصیبت،بڑی مشکل سے محلے کی نرس نے
اس مسئلے کو سنبھالا ایسے حالات میں بدبختی نے جنم لیا جو ساری زندگی
پیارومحبت کوترستی رہی اس کا نام نورین رکھا جو بالترتیب چوتھی بہن تھی نرس
ندیم بھائی۔۔۔ آج پھر قسمت آپ سے روٹھ گئی ندیم خاموش مگر آنکھیں نم ۔۔ندیم
ڈاک بنگلے میں ڈرائیور تھا حلال رزق کمانے اور اﷲ تعالیٰ پر پختہ یقین
رکھنے والا تھاکہ اﷲ تعالیٰ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے مگر محلے والے اور
رشتے دار نورین اور اسکی امی کو بد بخت کہتے تھے عرصہ پانچ سال کے بعد
نورین کا بھائی پیدا ہوا جو سارے خاندان کی توجہ کا مرکز بن گیا اسی دوران
نورین کی تینوں بہنوں کی شادی ہو گئی بچوں کی پیدائش کا یہ سلسلہ بہ ترتیب
جاری و ساری رہا نورین کے بعد دو بہنیں اور چار بھائی پیدا ہوئے مگر نورین
پیدائشی بدقسمت اور بدبخت رہی نورین کی قسمت میں بچپن ہی سے ذمہ داریوں نے
گھیرا ڈالا ہوا تھا نورین شادی کی عمر کو پہنچ گئی رشتے آتے اور چلے جاتے
حتیٰ کہ نورین کی چھوٹی بہن کی بھی شادی ہو گئی بچپن کی بد بختی نے جوانی
میں بھی نہ چھوڑا نورین اپنے بہن بھاہیوں میں زیادہ خوبصورت تھی مگر اس کی
خوبصورتی کو جیسے زنگ لگنا شروع ہو گیا تھا دیکھنے کو تو آئیڈیل لڑکی تھی
مگر کسی کے آئیڈیے میں نہیں تھی ندیم بھائی نورین کی وجہ سے بہت پریشان حال
تھے اپنے سب دوستوں کو بھی اس کی شادی کے بارے میں بول چکے تھے اچانک سے
انہی دنوں ندیم بھائی کے ایک دوست نے رشتہ بھیجا اور نورین کے ارمانو ں کے
پورا ہونے کے آثار نظر آئے بات پکی ہو گئی نورین کے ہاتھوں پے حنا اور جسم
پر سہاگ کا جوڑا ایسے لگ رہا تھا جیسے پری زمین کی سیر کو آئی ہو گھر میں
رونق اور رشتے داروں کی گہما گہمی ۔نورین کے گھر والے تنگ دست تھے اس لئے
جہیز کچھ زیادہ نہ دے سکے اس کا شوہر اسلم صاحب لالچی تھا چند دنوں کے بعد
وہ دوسری لڑکی کے چکر میں پڑ گیا لیکن نورین پھر بھی گزارہ کرتی کہ شاید
ایک دن عقل آ جائے دوسری طرف ساس اور سسر کے طعنے بھی نورین کو دن رات عذاب
الہی تھے اسی دوران نورین کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس سے نورین میں ایک
امید کی کرن پیدا ہوئی مگر حقیقت سے بہت دور۔۔اب شادی کو پانچ سال گزر چکے
تھے مگراسلم میاں پر ذرا سا بھی اثر نا ہوا ۔۔عید کا دن تھا لوگوں کے گھروں
میں رونقیں۔۔ نورین کے گھر میں لڑائی ۔۔مگر آج کچھ عجب ہوا نورین کا خاوند
اسلم نورین کی پٹائی کر رہا تھا کہ اتنے میں نورین کے بھائی عید ملنے کے
لئے گھر داخل ہوئے مگر یہاں تو ماحول ہی اور تھا بہن کو مار کھاتے اور روتے
دیکھ کر بہنوئی سے بات کرنے لگے مگر بات بنتے بنتے بگڑ گئی اور نورین کے
آخری ارمان بھی سبق بدوش ہو گئے اور نوبت کمرۂ عدالت تک جا پہنچی۔۔نورین کی
زندگی اب میکے کی چوکھٹ پر جل رہی تھا کبھی بھابھیوں کے طعنے اور کبھی بد
کرداری کے الزام نے زندگی دوبھر کر دی تھی پہلے تو زندگی میں کبھی کبھی غم
تھا لیکن اب تو بغیر باپ کے اولاد کی پرورش کا غم بھی زندگی کا حصہ بن گیا
تھاپھول سی ننھی کلی کو دکھوں کی آندھی نے پت جھڑ کے پتوں کی طرح شاخ سے
توڑ کر بکھیر دیا۔۔۔آخر کا رنورین کی زندگی میں ایسا موڑ آیا کہ دنیا کے
ظلم و ستم اور اپنوں کی حقارت نے اسے پتھر بنا دیا تھا ۔۔پتھروں پر آندھیوں
اور طوفانوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا وہ فرصت کے لمحات میں اپنے خالق حقیقی
سے عشق کرنے لگی ۔۔سردیوں کی ایک پر اصرار رات بچوں کو سلانے کے بعد نورین
حسب معمول جائے نماز پر بیٹھی ۔۔۔تیز سرد ہوا کے جھونکے ایسے کہ درخت بھی
سجدے میں تھے۔۔ہر طرف خوف و حراس پھیلا ہوا تھا مگر نورین ٹس سے مس بھی نا
ہوئی کیونکہ وہ عشق حقیقی میں تھی جہاں پر دنیا کی کوئی خبر نہیں ہوتی صرف
اور صرف عاشق ہی نظر آتا ہے۔۔اچانک سے کیا دیکھتی ہے اس کی آنکھیں کھلی کی
کھلی ہی رہ گئی۔۔ایک خوبصورت نوجوان اس کی طرف اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے ۔۔نورین
خوف سے۔۔ڈرسے دیکھتی ہے مگر نورین کو اپنے سپنوں کا شہزادہ نظر آ رہا تھا
نورین نے ہمت سے کام لیا اوراس کا ہاتھ تھام لیا۔ہاتھ تھامتے ہی دنیا سے بے
خبر ہو گئی ۔اس کے ہاتھوں میں ہاتھ لئے چلی گئی ۔۔اسکو جیسے سارے غموں سے
چھٹکارا سا مل گیا ہواتنے میں نورین کے بھائی نے نورین کو سجدے میں پڑی
ہوئے دیکھا۔آوازدی۔۔ نورین ۔۔مگر نورین تو یہاں جیسے موجود ہی نہیں
تھی۔بھائی نے ہاتھ لگایا تونورین زمین پر ڈھیر ہو گئی ۔۔نورین تو عالم
مدہوشی میں اس دنیائے فانی کے عذابوں سے چھٹکارا حاصل کرکے اپنی اصل منزل
مقصود پر چلی گئی تھی جہاں سے واپسی ناممکن تھی گھر میں چیخ وپکار سے کہرام
مچ گیا۔ |
|