مکافات تجھ پہ اعتبار نہ رہا

سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ بہت مقبول ہے کہ مکافات عمل کی چکی چلتی آہستہ ہے مگر پیستی بہت باریک ہے ۔ مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ یہ پیستی کسے ہے اور اس نے اب تک کس کس کو پیسا ہے؟ ایک سے ایک ظالم بےرحم جابر بےایمان خائن غاصب زانی سازشی منافق قاتل کسی بھی مکافات و مؤاخذے کا سامنا کیے بغیر ٹھاٹ کی زندگی بسر کرتے ہیں اور باٹ کی موت مر جاتے ہیں ۔ کتنے کسی عبرتناک انجام کو پہنچتے ہیں؟ سینکڑوں ہزاروں میں کوئی ایک آدھ ۔ اب کوئی ستر اسی سال کی عمر کو پہنچ کر بیمار و لاچار ہو گیا ہے بستر پر پڑا ہؤا ایڑیاں رگڑ رہا ہے تو اتنی عمر کو پہنچ کر تو ایک عام آدمی بھی کئی طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر ایک تکلیف دہ موت سے ہمکنار ہوتا ہے ۔ لہٰذا ایک معمول کی فطری سی صورتحال کو اس کی خطاکاریوں اور گناہوں کے خمیازے کا پیمانہ کیونکر بنایا جا سکتا ہے؟

اور جو بہت سے بہت بھلے اور بےضرر سے لوگ انتہائی خوفناک حادثوں کا شکار ہو کر اپنے بازوؤں اور ٹانگوں سے محروم ہو گئے کوئی مہلک بیماریوں کا شکار ہوئے کوئی شدید مالی نقصان سے دوچار ہوئے تو ان کے کیا گناہ تھے کہ جن کی انہیں سزا ملی؟ اور جو خدا سے نہیں ڈرتے ان کے ساتھ ایسا کچھ کیوں نہیں ہوتا؟ بیوہ ماں کے اکلوتے لخت جگر کا قاتل ، سی سی ٹی وی کیمروں کے سامنے غریب ٹریفک کانسٹیبل پر گاڑی چڑھا دینے والا فرعون ، بہن کی عزت بچانے والے بھائی کو گولیوں سے بھون دینے والا مسٹنڈا ، محسود جیسے جوان رعنا کو فنا کے گھاٹ اتار دینے والا درندہ اور چار سو چالیس نفوس کا ماورائے عدالت قتل عام کرنے والا سفاک قاتل اور ان جیسے اور کتنے ہی بیگناہوں کے بےرحم قاتل بھری سڑکوں پر کیمروں کی موجودگی میں اپنے گھروں کے چشم و چراغوں کو گل کر دینے والے چھ ماہ کی دلہن کو خود کشی پر مجبور کر دینے والے وحشی منہ زور مویشی کسی مکافات کا شکار ہوئے بغیر دھرتی پر دندناتے پھرتے ہیں ۔ کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑتا ان پر کبھی بجلی نہیں گرتی ان ناسوروں پر ۔ قدرت انہیں عبرت کا نشان نہیں بناتی جو باقی کے بےغیرتوں کو کچھ سبق حاصل ہو ۔ نور مقدم کو ذبح کرنے والے قصائی کو جیل میں وی آئی پی پروٹوکول دیا جا رہا ہے ذہین بچہ پیشی پر جانے کے لیے بالکل ایسے ہی بن ٹھن کر نکلتا ہے جیسے ایک ایماندار کسٹم آفیسر کے قتل کا سبب سمجھی جانے والی ماڈل گرل ۔ قانون صرف غریبوں اور کمزوروں کے لیے ہے بیگناہوں کو بیس بیس سال تک جیل میں رکھنے بلکہ انہیں پھانسی تک چڑھا کر دو دو سال بعد ان کی بیگناہی کا اعتراف کرنے کے لیے ہے اور ذمہ داروں کی کوئی سزا ہی نہیں کوئی بددعا انہیں نہیں لگتی ۔ اپنا تو مکافات پر سے اعتبار ہی اٹھ گیا ہے قدرت نے ہی سرکشوں کی رسی دراز کر رکھی ہے تو کسی سے کیا گلہ ۔ بس بیگناہ اور مظلوم ہی پسپا ہوتے رہیں گے اور انسانیت یونہی نادم و شرمسار رہے گی ۔
 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 223 Articles with 1683445 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.