آتے دن کی آتی خوشیاں اور آتے دن کے آتے خوف !

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالفُرقان ، اٰیت 1 تا 3 آتے دن کی آتی خوشیاں اور آتے دن کے آتے خوف !! اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
تبٰرک الذی
نزل الفرقان علٰی عبدہ
لیکون للعٰلمین نذیرا 1 للذی له
ملک السمٰوٰت والارض ولم یتخذ ولدا
ولم یکن له شریک فی الملک وخلق کل شئی
فقدره تقدیرا 2 واتخذوا من دونهٖ اٰلھة لا یخلقون
شیئا وھم یخلقون ولایملکون لانفسھم ضرا ولا یملکون
موتا ولا حیٰوة ولا نشورا 3
عالَم کے اُس عالِم کشادہ کار کا یہ عملِ کشاد کار ہی تو ھے کہ اُس نے اپنے ایک بندے کے دل پر اپنا وہ آفتابِ عالَم تاب روشن کر دیا ھے جس کے نُور نے عالَم کے ہر پَست کو بالا سے اور ہر ادنٰی کو اعلٰی سے مُمتاز کر دیا ھے اور اپنے اِس عمل سے اُس کی غرض صرف یہ ھے کہ اُس کا یہ بندہ ہر انسان کو آتے دن کی آتی خوشی اور آتے دن کے آتے خوف سے آگاہ کر دے ، یہ عالَمِ مُطلق کا وہ عالِمِ مُطلق ھے جس نے کسی کو اپنا بیٹا بناکر اپنا شریکِ کار نہیں بنایا ھے کیونکہ عالَم کے اُس عالِم نے اپنی ہر مخلوق کو خود تَخلیق کیا ھے اور اپنی ہر مخلوق کی حیات و مُدتِ حیات اور حسابِ عملِ حیات کا نظام الاَوقات بھی خود ہی بنایا ھے اور انسان نے عالَم کے اُس عالِم کے اقتدار و اختیار سے انکار کر کے اپنے خیال میں اپنے جو خیالی اِلٰہ بناۓ ہوۓ ہیں وہ بھی اُسی خالقِ عالَم کے پیدا کیۓ ہوۓ ہیں اور خالقِ عالَم کے پیدا کیۓ ہوۓ اُن اَفراد میں سے کسی بھی فرد نے کسی بھی فرد کو کبھی بھی پیدا نہیں کیا ھے اور اُن میں سے کوئی بھی فرد مخلوق کے کسی فرد کو کوئی نفع دینے یا نقصان پُہنچانے پر بھی قادر نہیں ہوا ھے اور اُن اَفراد میں سے کوئی بھی فرد اَفرادِ مخلوق کو موت و حیات دینے اور اَفرادِ مخلوق کو جمع کر کے اُن سے اُن کا حسابِ عمل لینے پر بھی قادر نہیں ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
عالَمِ نظر جب شَب کی سیاہی میں ڈَھل کر سیاہ ہو جاتا ھے تو اہلِ نگاہ کی نگاہ و نظر کو اُس وقت تک ایک سیاہ رَنگ کے سوا کوئی دُوسرا رَنگ نظر نہیں آتا جب تک کہ دن کا اُجالا نہیں ہو جاتا اور جب تک دن کا اُجالا نہیں ہوجاتا تب تک انسان جن چیزوں کو اپنے حواس اور احساس سے محسوس کرتا ھے اُن چیزوں کی کمیت و کیفیت اور اَہمیت کا بھی اُس کوئی خاطر خواہ ادراک نہیں ہو پاتا اور جن چیزو کے بارے میں انسان کو جس وقت تک ادراک نہیں ہو پاتا اُس وقت تک انسان اُن چیزوں کے بارے میں ایک مُستقل شک و شُبہے میں مُبتلا رہتا ھے ، اِس کی ایک عام سی مثال یہ ھے کہ جو انسان پہلی بار دینِ حق پر ایمان لا تا ھے تو اُس وقت تک وہ دین و ایمان کی چند بُنیادی معلومات کے سوا دین کے دیگر علمی و عملی اعتقدات و مُعتقدات سے لا علم ہوتا ھے اور جب کبھی اُن اعتقادات و مُعتقدات پر عمل کرنے کا وقت آتا ھے تو وہ اُن اعمال کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں یہ خیال کر کے شک و شُبہے میں مُبتلا ہو جاتا ھے کہ خُدا جانے کہ میں جو کُچھ کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں وہ صحیح بھی ھے یا نہیں ھے اور یہی حال اُن دُوسرے لوگوں کا بھی ہوتا ھے جو صرف اپنے دین اور دَھرم کی معروفات سے آگاہ ہوتے ہیں لیکن اپنے دین کے حقیقی اعتقادت و مُعتقدات سے باکُل ہی لا علم ہوتے ہیں ، اِس کی وجہ یہ ھے کہ انسان عُمر بھر اپنے اور بیگانے عقائد و نظریات کے ایک میدانِ جنگ میں رہتا ھے اور اِس میدانِ جنگ میں وہ جو کُچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ھے اور وہ جو کُچھ اپنے کانوں سے سُنتا ھے وہ سب کُچھ جب اُس کی سماعت و بصارت سے گزر کر پہلے اُس کے دل میں جاتا ھے اور پھر دل سے گزر کر اُس کے خیالات میں جمع ہوتا ھے اور جو کُچھ انسان کے خیالات میں جمع ہوتا ھے وہ انسان کے جسم و جان کو اُس پر عمل کی ترغیب بھی دیتا رہتا ھے اور انسان اُس وقت اُس کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں اُسی شک و شُبہے میں مُبتلا ہوجاتا ھے جو شک و شُبہ اُس کے جسم و جان میں مل کر اُس کا جسم و جان بن چکا ہوتا ھے ، اِس کی ایک دُوسری مثال ھمارے زمان و مکان میں پھیلا ہوا کرونا وائرس ھے جس کے بارے میں ملنے والی مُتضاد معلومات نے انسان کو اِس کی ویکسین لینے یا نہ لینے کے بارے میں ایک ایسے شک میں مُبتلا کیا ہوا ھے کہ جس شک کے باعث اِس کی ایک چھوٹی سی اقلیت نے تو اِس وائرس سے بچنے کے حاصل ذرائع کو قبول و اختیار کر لیا ھے لیکن اِس کی بڑی اکثریت نے اِس کو مُسترد کر دیا ھے کیونکہ انسانی سماعت و بصارت نے اِس کے بارے میں جو مُتضاد معلومات حاصل کی ہیں وہ اِس کے جسم و جان کو کبھی ایک طرف کھینچ رہی ہیں اور کبھی دُوسری طرف دھکیل رہی ہیں ، عالَم میں انسان کے دینی و رُوحانی مُعتقدات بھی انسان کے اِنہی جانی و جسمانی خیالات کی طرح عملی تضادات کا شکار ہیں جن کو شَک سے نکال کر یقین میں لانے کے لیۓ قُرآن کی یہ سُورت نازل ہوئی ھے جس سُورت کا نام سُورَةُالفرقان ھے اور جس کا مفہوم انسان کو وہ نُورِ بصیرت و نُورِ بصارت فراہم کرنا ھے جو انسان کو شک کی بے یقین دُنیا سے نکال کر یقین کی اُس پُریقین دُنیا میں لے آۓ جہاں شک کی سیاہی نہیں ھے بلکہ ایمان و یقین کی وہ روشنی ھے جہاں پر ہر سیاہ و سفید انسان کو اَلگ اَلگ نظر آتا ھے ، اِس سُورت کا پہلی سُورت کے ساتھ اور اُس پہلی سُورت کا اِس دُوسری کے ساتھ معنوی رَبط و تعلق یہ ھے کہ اُس پہلی سُورت کے نام میں جس نُور کا ذکر کیا گیا ھے اِس دُوسری سُورت میں اُس نُور کا ایک عام فہم نتیجہِ فہم بیان کیا گیا ھے اور اِس سُورت میں اُس نُور کا جو عام فہم نتیجہ بیان کیا گیا ھے وہ یہ ھے کہ عالَم کے اندھیرے میں جب نُور کا اُجالا آتا ھے تو ہر ایک انسان کی چشمِ بصیرت پر ہر ایک چُھپی ہوئی چیز ظاہر ہوجاتی ھے اور جب اہلِ عالَم پر عالَم کی ہر ایک چُھپی ہوئی چیز ظاہر ہو جاتی ھے تو اہلِ عالَم کے دل میں شک کا جو قدیم یا جدید بیج ہوتا ھے وہ بیج اُس کے دل و دماغ اور اُس کے جسم و جان سے نکل کر بتدریج دُور ہوتا چلا جاتا ھے یہاں تک کہ خیالات کی زمین سے شک کے اُس بیج کا وجُود ہی نیست و نابُود ہوجاتا ھے جہاں تک نفسِ اٰیات کا تعلق ھے تو اُن کا مُکمل مفہوم بھی اٰیاتِ بالا کے زیرِ متن ھم نے تحریر کر دیا ھے لیکن اِس مفہوم میں ھم نے پہلی اٰیت کے جس پہلے لفظ کا مُناسب مفہوم اَدا کرنے کے لیۓ"کشاد کار" کا لفظ استعمال کیا ھے وہ لفظ "تبٰرک" ھے جس کا معنٰی عام طور پر برکت کیا جاتا ھے لیکن لفظِ تبٰرک جو "بابِ تفاعل" سے "تقابل" کے وزن پر آتا ھے یہ دو طرفہ عمل کا متقاضی ہوتا ھے اور جس کا مقصد و مُدعا یہ ہوتا ھے کہ جو شخص اللہ تعالٰی سے اپنی ذات کے لیۓ اپنے دل سے خیر و برکت چاہتا ھے وہی اللہ تعالٰی سے خیر و برکت پاتا ھے اور برکت کا معنٰی چونکہ فراوانی مانگنے والے کو فراوانی عطا کرنے والے کی طرف سے فراوانی عطا کرنا ھے اِس لیۓ ھم نے اِن سارے مفاہیم کی اَدائگی کے لیۓ کشاد کار کا لفظ مُناسب خیال کیا اور استعمال کیا ھے اور لفظِ برکت کا اپنا مفہوم کیا ھے اِس کی وضاحت اِس سُورت کی اٰیت 10 کے تحت آۓ گی !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558325 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More