تحریر :شہباز علی
آج کے اِس دَور کو کون سا دَور کہیں گے؟ فتنوں کادَور! گناہوں کا دَور! بے
حیائی اور بے لگامی کا دَور! خودسری اور خودغرضی کا دَور! شیطانی دَور!
یاجوجی ماجوجی دَور! سمجھ میں نہیں آتا کہ عصرِ حاضر کو کیا نام دیا جائے؟
دَورِ حاضر دَورِ جاہلیت کی طرف تیزی سے رَواں دَواں ہے؛ بلکہ بعض لحاظ سے
اِس سے بھی آگے جاچکا ہے۔ اِن جملہ خرابیوں کو دُور کرنے اور اِن پر قابو
یافتہ ہونے کی سارے عالم میں کوششیں کی جارہی ہیں؛ لیکن کوئی کوشش کامیاب
ہوتی نظر نہیں آتی۔ نئی نئی تجاویز روبہ عمل آکر فیل ہورہی ہیں؛ تعمیر کے
بجائے تخریب کا باعث بن رہی ہیں، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ، ہونا بھی یہی
چاہئے؛ اِس لیے کہ اِن جملہ خرافات، بے اطمینانی اور بے چینی پر قابو پانے
کے لیے محض انسانی تدبیریں اختیار کی جارہی ہیں۔ اور انسانی تدبیریں پورے
طور پر کامیاب ہی کب ہوتی ہیں؟
آج ضرورت ہے اُن تدبیروں کی اورنسخہٴ کیمیا کی جو نبیٴ اُمی صلی اللہ علیہ
وسلم نے بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے استعمال کیا تھا۔ یہ خالقِ کائنات کا
عطا کردہ نسخہ تھا، جس نے گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں پھنسی ہوئی انسانیت کو
روشن شاہ راہ پر لاکھڑا کردیا۔ جس نے بدترین خلائق کو بہترین خلائق بنادیا
اورجس نے مردوں کو مسیحا کردیا۔
لہٰذا عصر حاضر کے مذہبی اختلاف میں سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے
رہنمائی حاصل کرنی ہوگی.
عالمی پیمانے پر اتحاد واتفاق قائم کرنے کی ضرورت آج سب سے زیادہ محسوس کی
جارہی ہے۔ آج کوئی ایسا اقتدار نہیں جس کو سب لوگ تسلیم کریں، جس کی سب
اطاعت کریں، کسی متفقہ اقتدار کا نہ ہونا،آج کی سب سے بڑی کمی ہے، ایک قوم
دوسری قوم کو دیکھنا نہیں چاہتی،مختلف قسم کے معاہدے ہوتے ہیں اور ٹوٹ جاتے
ہیں، اِن کے حل کے لیے اگریہ سوچا جائے کہ کسی ایک انسان کی حاکمیت پر سارے
لوگ متفق ہوجائیں، ہر ایک اِس کی اتباع کریں، تو ایسا فطری طور پر ناممکن
ہے؛ اس لیے کہ آج ہر قوم دوسری قوم کی مخالف ہے، توجس انسان کا بھی انتخاب
ہوگا وہ کسی ایک قوم کافرد ہوگا،اس ایک پر اگراتفاق سے اپنی قوم متفق ہوگئی
تو دوسری اقوام کو متفق کرنا آسان نہیں ، پھریہ کہ انسان نفسانی اغراض اور
ذاتی خواہشات سے پاک نہیں ہوتا اگر کسی پر اتفاق کرلینے کی پوری دُنیا کوشش
بھی کرے تو وہ آدمی وقت کا ”فرعون“ اور دَورِ حاضر کا ”بُش“ ثابت ہوگا، وہ
سارے فوائد اپنے لیے، اپنے خاندان، اپنے فرقے اور اپنی قوم کے لیے سمیٹ لے
گا، دوسرے لوگ محروم اور منہ تکتے رہ جائیں گے۔ اِس طرح انصاف کی جگہ ظلم
اور مساوات کی جگہ بے اعتدالیوں کی حکومت ہوگی۔ کسی آدمی کا علم اتنا وسیع
نہیں ہوسکتا کہ ہر انسان کی ضروریات معلوم کرسکے۔ اصلاح و فلاح کی صورتوں
سے واقف ہو، ہر ایک کی فطرت کو جانتا ہو؛ اِس لیے وسیع ترین علم نہ ہونے کی
وجہ سے وہ جگہ جگہ ٹھوکریں کھائے گا،اور پوری انسانی آبادی کو تباہی کے
دہانے پر لاکھڑا کردے گا؛ اس لیے کسی انسان پر پوری نوعِ انسانیت کا متفق
ہونا ناممکن اور لاحاصل ہے۔
اِس اختلاف کے ختم کرنے کی ایک دوسری شکل بھی ممکن نہیں کہ ساری انسانیت مل
کر کسی ایک اِدارہ کی حاکمیت کو تسلیم کرلے، دُنیامیں جتنے اِدارے عالمی
پیمانے پر قائم ہوئے اُن سب کا حال یہی ہوا، آج اِس کی واضح مثال عالمی
تنظیم ”اقوامِ متحدہ“ ہے۔
لہٰذا آج اختلاف حل کرنے کے لیے وہی کرنا ہوگا، جو اللہ کے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے کیا، آپ نے اختلاف وانتشار سے تباہ دُنیا کو متحد کرکے عملی
مثال پیش کردی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دُنیا کو بتادیا کہ اے انسانو!
کسی انسان یا کسی اِدارے کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کے بجائے ایک ایسی ذات کی
حاکمیت کو تسلیم کرلو جس نے سارے انسانوں اور اِداروں کو جنم دیا ہے۔اُسی
کی حاکمیت کو تسلیم کرنے میں بھلائی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
”دعوتِ توحید“ کو جوق در جوق افرادِ انسانی نے قبول کیا، مذہبی اختلافات کے
ختم کرنے کا یہ سب سے بڑا مشترکہ پلیٹ فارم ہے۔
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عالم گیر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم
پوری دُنیا کے لیے چراغِ راہ بن کر تشریف لائے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
ہی کی سیرت و سنت کو سامنے رکھ کر دُنیا راہ یاب ہوسکتی ہے، ہر طرح کے
مسائل کا حل آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اتباع میں مضمر ہے، جملہ خرافات و
مصائب سے نجات کا ”نسخہٴ کیمیاء“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی مل
سکتا ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کو
جب کفار نے صرف ایمان باللہ اورایمان بالرسول کی وجہ سے اپنے محبوب وطن مکہ
مکرمہ میں ستانا شروع کیا اور ناقابلِ برداشت اذیتیں پہنچائیں، جان کے درپے
ہوگئے؛ تو ایسی صورت میں دین کی حفاظت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی، اِس کے بعد مدینہ کی؛ اخیر میں اپنے
رفیقِ غار صدیق و غمگسار کے ساتھ بہ نفس نفیس ہجرت کی، دین اور ایمان کی
حفاظت کے لیے مال و دولت، عزیز واقارب اور گھر بار ہر ایک کو قربان کردیا،
آج بھی دُنیا کے کسی کونے میں مسلمانوں کی یہ حالت ہوجائے تواُس کیلیے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ عمل
کے لیے موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ جانے کے بعد وہاں
بسنے والے قبائل اَوس اور خزرج اور یہود و نصاریٰ سے معاہدات کیے، آپسی
تعاون وتناصر اور رواداری کے دستاویزات مرتب کیے، پھر اپنی تحریک دعوت و
تبلیغ کو تیز تر کیا، آہستہ آہستہ لوگ اِسلام میں داخل ہوتے گئے، پھر
کیاتھا کہ چند برسوں میں سارا عرب کلمہ ”لآ الٰہ الی اللّٰہ محمد رسول
اللّٰہ“ کاقائل ہوگیا۔ ہر جگہ امن و امان پھیل گیا، وہ جنگجو قومیں جن کا
کام ہی قتل و غارت گری تھا، جنگ سے کبھی تنگ نہ آئی تھیں، آپسی چپقلش کا نہ
ٹوٹنے والا سلسلہ رکھتی تھیں، سب شیروشکر کی طرح مل گئیں، سب ایک دوسرے کے
دوست ہوگئے۔ع
جو نہ تھے خود راہ پر
اَوروں کے ہادی بن گئے
|