آپ کا نام عثمان اور لقب ذوالنورین تھا آپ کی ولادت واقعہ فیل کے چھ سال
بعد ہوئی آپ حضرت ابوبکر صدیق کی دعوت پر مسلمان ہوئے اور غزوہ بدر کے
علاوہ تمام غزوات میں شامل رہے ھضرت عمر کی شہادت کے بعدآپ مسلمانوں کے
تیسرے خلیفہ منتخب ہوئے حضرت عثمان کی کل آمدن کا زریعہ تجارت تھی آپ ہر
موقعہ پر مسلمانوں کی بھر پور مدد فرماتے تھے حضرت عثمان غریبوں ،یتیموں
اور بے سہارا افراد کے غم خوار تھے اور انکی ہر وقت مدد فرماتے رہتے تھے آپ
کے دور خلافت میں ہر طرف امن ومان تھا آپ کی نرم طبیعت نے لوگوں کو بہت
آرام پہنچایاجس سے بعض لوگوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا اور انکے خلاف فتنہ
پیدا کیا یہودیوں کے سازش کے تحت ابن سبا نے بظاہر اسلام قبول کیامگر وہ
اسلام سے بغض رکھتا تھا اور اس نے مختلف علاقوں میں جاکر لوگوں کو حضرت
عثمان کے خلاف بھڑکانا شروع کردیا من گھڑت کہانیاں حضرت عثمان کے خلاف
لوگوں کو سنانا شروع کردی کچھ لوگ اسکی باتوں میں آگئے اور پھر دن بدن
مخالفین میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا حضرت عثمان نرم طبیعت ہونے کے وجہ سے ان
سبائیوں کو سمجھاتے رہے مگر وہ مخالفت سے باز نہیں آئے اور انہوں نے حضرت
عثمان سے خلافت سے دستبرداری کا مطالبہ کرنا شروع کردیا حضرت عثمان کی
خلافت کے بارہویں سال یہ لوگ مدینہ منورہ کے گردونواح میں جمع ہوئے حضرت
عثمان نے انہیں مسجد نبوی میں بلایا اور وجہ پوچھی جس پر انہوں نے حضرت
عثمان پر مختلف قسم کے الزامات لگائے آپ نے انکے تمام الزامات کا مدلل جواب
دیا اس موقعہ پر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے بھی ان لوگوں کو سمجھایا مگر وہ
اپنے موقف سے باز نہ آئے بعد ازاں انہوں نے حضرت عثمان کو گھیرے میں لے لیا
اہل مدینہ کو دھمکی دی کہ جو ہمارے مقابلے میں نہیں آئے گا وہ امان میں رہے
گا محاصرے کے دوران بلوائیوں نے حضرت عثمان کو مسجد میں آنے سے بھی روک دیا
اس موقعہ پر حضرت عثمان نے فرمایا کہ مسلمان کی تلوار جب نیام سے نک آئے تو
پھر واپس نہیں جاتی اور آپ نے اپنے تمام غلاموں سے بھی فرمایا جو میرے دفاع
میں نہیں لڑے گا وہ آزاد ہوگا حضرت عثمان سے زیادہ مظلام کون ہوگا جنہوں نے
اپنا دفاع بھی نہیں کیا اور آخر کارتیسرے خلیفہ راشد عثمان بن عفان کو ان
کے گھر میں شہید کردیا گیاجس دن یہ واقعہ پیش آیا وہ 18 ذوالحجہ 35ء کو
جمعہ کا دن تھا اور پھر اگلے پانچ دن تک کوئی خلیفہ نہیں تھا باغیوں نے
اعلان کروا دیا کہ اگر علی بن ابی طالب نے خلافت قبول نہ کی تو ہم قتل عام
کریں گے، تو یوں چوتھے خلیفہ راشد کے طور پر علی بن ابی طالب نے بیعت لی
عثمان بن عفان کی شہادت کی کئی وجوہات تھیں، سازش مصر سے شروع ہوئی اور
عراق کے علاقے میں پروان چڑھی۔ سازش کا پہلا مقصد صرف عثمان بن عفان کو
خلافت سے ہٹانا تھا۔ عبد اﷲ بن سبا یہ متنازع شخصیت کا اس میں نام لیا جاتا
ہے، جس نے سازش کی بنیاد رکھی اور جھوٹے مکتوبات سے خلیفہ اور گورنروں میں
غلط فہمیاں پیدا کیں خلفائے راشدین کا یہ دور سنہری دور تھامحمد صلی اﷲ
علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان، علی اور
حسن کا عہد خلافت خلافت راشدہ کہلاتا ہے اس عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے
جس میں ابوبکر صدیق اولین اور علی آخری خلیفہ ہیں۔ اس عہد کی نمایاں ترین
خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم نظام حکومت تھا۔ خلافت
راشدہ کا دور اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس زمانے میں اسلامی تعلیمات پر عمل
کیا گیا اور حکومت کے اصول اسلام کے مطابق رہے۔ یہ زمانہ اسلامی فتوحات کا
بھی ہے۔ اور اسلام میں جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے واقعات بھی پیش آئے۔
جزیرہ نما عرب کے علاوہ ایران، عراق، مصر، فلسطین اور شام بھی اسلام کے زیر
نگیں آ گئے خلیفہ حضرت عثمان ابن عفان کو جب شمالی افریقہ کے بدلتے سیاسی
حالات سے آگاہ کیا گیا تو فیصلہ ہوا کہ حضرت عبداﷲ بن سعد بن ابی السرح
مدینہ سے 20 ہزارکے قریب فوجی دستہ لے کر مصر کی جانب روانہ ہوں اور وہاں
سے شمالی افریقہ کو فتح کرنے کی کوشش کی جائے اس فوج میں بطور افسر حضرت
عبداﷲ ابن زبیر بھی شامل تھے مصر پہنچتے ہی مزید 20 ہزار افراد کو لے کر
کسی بھی مزاحمت کے بغیر برقہ کو پانے میں کامیاب ہوئے طرابلس پر 647ء میں
حملہ کیا اور دوبارہ بغیر کسی مناسب مزاحمت کے اس علاقے کو بھی فتح کر لیا-
سن 645ء میں خلیفہ حضرت عثمان ابن عفان (رضی اﷲ عنہ) نے پر زور مخالفت کے
باوجود حضرت عبداﷲ بن سعد بن ابی السرح کو مصر کا نیا صوبہ دار مقرر کیا
اور نیم خود مختار حاکم حضرت عمرو بن العاص کو ہٹا دیا خلیفہ حضرت عثمان
ابن عفان (رضی اﷲ عنہ) نے شام کے صوبہ دار حضرت معاویہ بن ابو سفیان (رضی
اﷲ عنہ) کو اجازت دی کہ وہ 649ء میں قبرص پر چھاپہ ماریں اور اس مہم کی
کامیابی کے باعث مصر کی حکومت کی طرف سے بھی بحری سرگرمیاں شروع ہوئیں- عبد
اﷲ بن سعد نے ایک مضبوط بحریہ کی تعمیر و تشکیل پر ذاتی توجہ دی اور ایک
ہنر مند امیرُ البَحَر ثابت ہوئے ان کی قیادت میں مسلم بحریہ نے 646ء میں
اسکندریہ پر بازنطینی جوابی حملہ کو روکا - حضرت عثمان غنی ایک عظیم شخصیت
تھی اور ا ٓپ کے دور میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اسلام بھی مضبوط ہوا آپ کی
شہادت سے مسلمانوں کا ناقابل تلافی نقصان ہوا جو آج قیامت تک پورا نہیں
ہوسکتا۔
|