#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالفُرقان ، اٰیت 4 تا 9
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
قال الذین
کفروا ان ھٰذا
الّا افک افترٰه و
اعانهٗ علیه قوم اٰخرین
فقد جاءو ظلما و زورا 4 و
قالوا اساطیر الاولین اکتتبھا فھی
تملٰی علیه بکرة واصیلا 5 قل انزله الذی
یعلم السر فی السمٰوٰت ولارض انهٗ کان غفورا
رحیما 6 وقالوا مال ھٰذه الرسول یاکلوا الطعامة و
یمشی فی السواق لولا انزل الیه ملک فیکون معهٗ نذیرا
7 او یلقٰی الیه کنز او تکون له جنة یاکلون منہا وقال الظٰلمون
ان تتبعون رجلا مسحورا 8 انظر کیف ضربوا لک الامثال فضلوا
فلا یستطیعون سبیلا 9
اے ھمارے رسُول ! ھم نے اپنی جس کتابِ حق کو حق کے ساتھ نازل کیا ھے ھماری
اُس کتابِ حق کا انکار کرنے والوں میں سے کسی نے کہا ھے کہ یہ کتاب اُس مَن
گھڑے جُھوٹ کے سوا کُچھ بھی نہیں ھے جو مَن گھڑت جُھوٹ اِس کے گھڑنے والے
نے خود ہی اپنے مَن سے گھڑ لیا ھے اور اِس جُھوٹ گَھڑتی میں کُچھ دُوسرے
لوگوں نے بھی اُس کی مدد کی ھے لیکن اللہ کے نزدیک سَچ یہ ھے کہ اِس سَچی
کتاب کے بارے میں اِن جُھوٹے لوگوں نے جو کُچھ بھی کہا ھے وہ بالکُل جُھوٹ
کہا ھے ، اِن جُھوٹے لوگوں میں سے بعض جُھوٹے لوگوں نے تو اِس پہلے جُھوٹ
سے دو قدم اور آگے بڑھ کر یہ دُوسرا جُھوٹ بھی کہا ھے کہ اِس کتاب میں
پرانے زمانے کے لکھے ہوۓ وہی پرانے افسانے ہیں جن افسانوں کو سُننے اور
سُنانے والے یہ لوگ صُبح و شام ایک دُوسرے کو سُناتے رہتے اور ایک دُوسرے
کو لکھواتے رہتے ہیں اِس لیۓ آپ اِن جُھوٹے لوگوں پر یہ سَچی بات واضح
کردیں کہ یہ کتاب اُس سَچے اللہ کی سَچی کتاب ھے جو اِس سارے عالَم کا وہ
خالق و مالک ھے جو اِس عالَم کے سارے دیدہ و نادیدہ اَحوال کو جانتا ھے
تاہَم جو لوگ اللہ تعالٰی کی اِس سَچی کتاب کے بارے میں اپنی اِس غلط بیانی
سے باز آجاتے ہیں اور اللہ تعالٰی کی اِس کتاب پر ایمان لے آتے ہیں تو اللہ
تعالٰی اُن کی خطابخشی کردیتا ھے کیونکہ اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر ہمیشہ
سے ہمیشہ کے لیۓ مہربان ھے لیکن یہ لوگ جو ھماری اِس کتابِ حق کے بارے میں
یہ بے سر و پا باتیں کرتے ہیں وہ ھمارے اِس رسُولِ حق کے بارے میں بھی اپنی
اِس بے سر و پا حیرت کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ آخر اللہ تعالٰی کا یہ کیسا
اَعلٰی رسُول ھے جو اَدنٰی انسانوں کی طرح کھاتا پیتا ھے اور عام انسانوں
کی طرح کوچہ و بازار میں بھی آتاجاتا ھے ، اگر اللہ تعالٰی نے اِس انسان کو
اپنا رسُول بنایا ھے تو اِس کے ساتھ اپنا کوئی فرشتہ کیوں نہیں لگایا ھے جو
اِس کے خلاف باتیں کرنے والوں کو ڈراتا دھمکاتا جس سے لوگوں کو اِس کے
رسُول ہونے کا یقین آجاتا اور اگر اللہ تعالٰی نے اِس پر اپنی وحی نازل کی
ھے تو پھر اِس کے ساتھ کوئی اتنا بڑا خزانہ کیوں نہیں نازل کیا ھے جو اِس
کے اور اِس کے ماننے والوں کے کام آتا لیکن یہ تو وہ مُنہ زور لوگ ہیں جو
اہلِ ایمان سے کہتے ہیں کہ تُم ایک سحرزدہ انسان کے سحر کی اتباع کر رھے ہو
، آپ دیکھیں کہ ھم نے کن اَمثال کے ذریعے اِن لوگوں کے وہ بیہودہ خیال و
اعمال آپ کے گوش گزار کیۓ ہیں جن خیال و اعمال نے اِن کو اَمرِ محمُود کے
راستے سے ہٹایا اور اَمرِ مذمُوم کے راستے پر لگایا ہوا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے اِس سُورت کی پہلی تین اٰیات میں اپنے مقصدِ اَوّل کے طور
پر اللہ تعالٰی کی اُس توحید کا ذکر کیا تھا جو قُرآن کا مقصدِ اَوّل ھے
اور قُرآنِ کریم نے اپنے مقصدِ ثانی کے طور پر ذکرِ زیرِ توحید اللہ تعالٰی
کے اُن مؤحد بندوں کا ذکر بھی کیا تھا جو اللہ تعالٰی کی اُس توحید پر بھی
ایمان لاۓ تھے جس کی قُرآن نے اُن کو تعلیم دی تھی اور اللہ تعالٰی کے وہ
بندے اُس کے اُس داعیِ توحید پر بھی ایمان لاۓ تھے جس کو اللہ نے اُن میں
مامُور کیا تھا اور جس نے اُن کو توحید کی تلقین کی تھی اور اللہ تعالٰی کے
وہ بندے اللہ تعالٰی کی اُس کی اُس کتابِ توحید پر بھی ایمان لاۓ تھے جو
اللہ تعالٰی نے اپنے اُس رسُول پر نازل کی تھی اور اَب اِس سُورت کی
موجُودہ چھ اٰیات میں مقصدِ اَوّل کے طور پر اُس فتنہِ شرک کا ذکر کیا گیا
ھے جس کی اُس کو بیخ کنی مطلوب ھے اور مقصدِ ثانی کے طور پر ذکرِ زیرِ شرک
اُن مُشرکین کا ذکر بھی کیا گیا ھے جنہوں نے اللہ کی توحید کا بھی انکار
کیا تھا اور اُس کے داعیِ توحید کا بھی انکار کیا تھا اور اُس کی کتابِ
توحید کا بھی انکار کیا تھا اور چونکہ زمان و مکان کے ہر ثانیۓ اور دورانیۓ
میں دلیل کی اَہمیت ہمیشہ ہی ایک اَمرِ مُسلّم رہی ھے اِس لیۓ توحید و اہلِ
توحید اور شرک و اہلِ شرک کے اِس تعارف کے بعد قُرآنِ کریم نے اہلِ شرک کے
اُن دلائل کا ذکر کیا ھے جو دلائل وہ قُرآن اور صاحبِ قُرآن کے خلاف دیا
کرتے تھے ، مُنکرینِ قُرآن کے اُن دلائل میں اُن کی پہلی دلیل یہ تھی کہ
قُرآن سَچ کے سَچے اَحکام پر مُشتمل کوئی سَچی کتاب نہیں ھے بلکہ یہ جُھوٹ
کے جُھوٹے اَحکام کی حامل ایک جُھوٹی کتاب ھے جس کو اِس کتاب کے مصنف نے
خود تصنیف کیا ھے اور اِس تصنیف کی تیاری میں کُچھ دُوسرے اَفراد نے بھی
اُس کی مدد کی ھے ، مُنکرینِ توحید کا یہ دعوٰی چونکہ زمین کی ہر زمینی
حقیقت کے خلاف تھا اِس لیۓ قُرآنِ کریم نے مُنکرینِ قُرآن کے اِس دعوے کا
ذکر بھی کیا ھے اور اِس دعوے کی تکذیب بھی کی ھے لیکن اُن کے اِس دعوے کا
فیصلہ زمان و مکان کے اَربابِ بصیرت کی بصیرت پر چھوڑ دیا ھے کیونکہ
مُنکرینِ قُرآن نے قُرآن کی جو تکذیب کی ھے اِس تکذیب پر کوئی دلیل نہیں دی
ھے ، مُنکرینِ قُرآن کا یہ دعوٰی چونکہ زمین کی ہر ایک زمینی حقیقت کے خلاف
تھا اِس لیۓ اُن کے اِس دعوے کو اُن کے اپنے اَفراد کے درمیان بھی کوئی
خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی اِس لیۓ اِس پہلے مُسترد دعوے کے بعد
اُنہوں نے اپنے جس دُوسرے دروغ کو فروغ دیا تھا وہ یہ تھا کہ اِس کتاب میں
پرانے زمانے کے لکھے ہوۓ وہی پرانے افسانے ہیں جو پرانی کتابوں کے کُچھ
جاننے والے والے لوگ محمد و اَصحابِ محمد کے پاس صُبح و شام آتے رہتے ہیں
اور وہ اُن کو وہی پرانے افسانے سُناتے اور لکھاتے رہتے ہیں اور محمد و
اَصحابِ محمد بھی اُن کے سُناۓ اور لکھاۓ ہوۓ وہی افسانے صُبح و شام ایک
دُوسرے کو سُناتے اور لکھاتے رہتے ہیں ، مُنکرینِ قُرآن نے اپنے پہلے دعوے
کے بعد جو دُوسرا دعوٰی کیا ھے اِس دعوے کے حق میں بھی اُنہوں نے کوئی ایسی
دلیل پیش نہیں کی ھے کہ جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ جس ہستی نے قُرآن جیسی
عظیم الشان کتاب پیش کی ھے اُس کے لیۓ اُس نے ایک ایسا عظیم الشان ادارہ
بھی قائم کیا ہوا تھا جس ادارے میں صُبح و شام سابقہ آسمانی کُتب کے ماہر
عُلماۓ کُتب آتے تھے اور وہ محمد علیہ السلام اور اَصحابِ محمد علیہ السلام
کو اُن کُتب کے اَوراق پڑھ کر سُناکر اور لکھا کر جاتے تھے اور یہ بھی ایک
ثابت شُدہ تاریخی حقیقت ھے کہ سیدنا محمد علیہ السلام کے زمانے میں مکہ و
نواحِ مکہ اور مدینہ و نواحِ مدینہ بلکہ پُورے عالَمِ عرب میں سابقہ آسمانی
کتب کا کوئی ایک بھی عربی عالِم بھی موجُود نہیں تھا جو کسی کو عربی زبان
میں کُچھ سُنا سکتا یا لکھا سکتا تھا ، عُلماۓ روایت نے ورقہ بن نوفل نام
کے بائبل کا عربی ترجمہ کرنے والے جس ترجمان کا اپنی روایات میں ذکر کیا ھے
وہ بھی ایک ایسا فرضی نام ھے جس نام کو اہلِ کتاب بھی مُسلم روایات کے اِس
مُسلم حوالے کے سوا کسی اور حوالے سے نہیں جانتے ہیں ، جہاں تک عربی زبان
میں ترجمہ ہونے والی بائبل کا تعلق تو وہ بھی ڈاکٹر الیگزنڈر متوفٰی 1949 ء
کے مطابق سب سے پہلے تیرھریں صدی میں اسکندریہ میں تیار ہوئی تھی اُس سے
پہلے عربی بائبل کا کوئی ایک ورق بھی کہیں پر موجُود نہیں تھا ، مُنکرینِ
قُرآن کا یہ دُوسرا تیر بھی بے تدبیر ہو گیا تو اُنہوں نے ایک دُوسرے سے یہ
کہنا شروع کردیا کہ اگر محمد اللہ تعالٰی کے نبی ہوتے تو وہ فرشتوں کی طرح
کھانے پینے سے بے غرض ہوتے اور فرشتوں ہی کی طرح کوچہ و بازار میں بھی آنے
جانے سے بے نیاز ہوتے لیکن محمد علیہ السلام چونکہ کھاتے پیتے اور کوچہ و
بازار میں بھی آتے جاتے ہیں اِس لیۓ یہ اللہ کے نبی نہیں ہیں ، پھر انہی
لوگوں نے اپنے اِس خیال پر اِس بات کا مزید اضافہ کیا کہ اگر اللہ تعالٰی
محمد علیہ السلام کو نبی بناتا تو اِن کے ساتھ اپنا کوئی فرشتہ بھی مامُور
کر دیتا جو اُن کی حفاظت بھی کرتا اور ھم کو اُن کے نبی ہونے کا یقین بھی
دلا دیتا اور اُس فرشتے کی تصدیق کے بعد ھم بھی اُن کی تصدیق کر کے اُن پر
ایمان لے آتے اور اُن کی چوتھی کٹ حُجتی یہ تھی کہ اگر محمد علیہ السلام کو
اللہ تعالٰی اپنا نبی بناتا تو اِن کو کوئی بڑا خزانہ بھی ضرور دیتا جو اُن
کے اور اُن کے ماننے والوں کے کام آتا لیکن ظاہر ھے کہ اہلِ بائبل یہ بات
اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر اِس سے پہلے اللہ تعالٰی نے کسی نبی کے ساتھ
فرشتے اور خزانے بہیجھے ہوتے تو ایک بات تھی لیکن اللہ تعالٰی نے تو اِس سے
پہلے بھی ایسا کبھی نہیں کیا تھا تو آج بھی ایسا کرنا اُس کے طریقے کے خلاف
ہی تھا اِس لیۓ اُن کی یہ خواہش و دلیل بھی ایک جاہلانہ خواہش و دلیل تھی
اور اللہ تعالٰی نے اِن باتوں کو اُن لوگوں کے سامنے اِس لیۓ بیان کیا ھے
تاکہ وہ جان لیں کہ قُرآن کے نازل ہونے کے بعد اَندھیرا چَھٹ چکا ھے اور
عالَم پر علم کا نُور آیا اور چھایا ہوا ھے ، اِس نُور میں وہ اپنی کُھلی
آنکھوں سے خود دیکھیں کہ کیا صحیح ھے اور کیا غلط ھے کیونکہ حسابِ عمل و
احتسابِ عمل کے دن اُن سے اُن کے مُثبت و مَنفی اعمال کے بارے میں ہی نہیں
پُوچھا جاۓ گا بلکہ اُن سے اُن کے مُثبت و مَنفی خیال کے بارے میں بھی
پُوچھا جاۓ گا !!
|