برکت کا بابرکت اور بے برکت مفہوم !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالفرقان ، اٰیت 10 تا 20 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
تبٰرک
الذی ان شاء
جعل لک خیرا من
ذٰلک جنٰت تجری من
تحتہاالانھٰر و یجعل لک
قصورا 10 بل کذبوا بالساعة
و اعتدنا لمن کذب بالساعة سعیرا
11 اذا راتھم من مکان بعید سمعوالھا
تغیظا و زفیرا 12 و اذا القوا منھا مکانا ضیقا
مقرنین دعوا ھنالک ثبورا 13 لا تدعوا الیوم ثبورا
واحدا و ادعوا ثبورا کثیرا 14 قل اذٰلک خیر ام جنة الخلد
التی وعد المتقون کانت لھم جزاء و مصیرا 15 لھم فیھا ما
یشاءون خٰلدین کان علٰی ربک وعدا مسئولا 16 و یوم یحشرھم و
ما یعبدون من دون اللہ فیقول ءانتم اضللتم عبادی ھٰؤلاء ام ھم ضلوا
السبیل 17 قالوا سُبحٰنک ما کان ینبغی لنا ان نتخذ من دونک من اولیاء و
لٰکن متعتھم و اٰباءھم حتٰی نسوا الذکر و کانوا قوما بورا 18 فقد کذبوکم بما
تقولون فما تستطیعون صرفا و لا نصرا و من یظلم منکم نذقه عذابا کبیرا 19 و
ما ارسلنا قبلک من المرسلین الّا انھم لیاکلون الطعام و یمشون فی الاسواق و جعلنا
بعضکم لبعض فتنة و کان ربک بصیرا 20
اے ھمارے رسُول ! جو لوگ ھمارے کشاد کار ہونے کا انکار کرکے آپ کے ساتھ فرشتوں اور خزانوں کے ظاہر ہونے کی باتیں کرتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ اگر ھم چاہیں تو اُن کو آپ کے لیۓ وہ باغِ پُر بہار ظاہر کرکے دکھادیں جن کی تہوں میں وہ آبِ بہار ھے جو ہمہ وقت اِن باغوں کو خود سے خود ہی سیراب و شاداب کرتا رہتا ھے لیکن دَرحقیقت تو یہ لوگ اپنی اِن باتوں سے آنے والی اُس گھڑی کے آنے کا انکار کر رھے ہیں جس گھڑی نے اللہ کے وعدے اور وقت پر اپنے جلَو میں حق کا اقرار کرنے والوں کے لیۓ باغ و بہار اور حق کا انکار کرنے والوں کے لیۓ عذابِ نار کو لے کر آنا ھے ، جب وہ ساعت آجاۓ گی تو جسموں اور جانوں کو جلانے والی اُس غضبناک آگ کو اپنا ایندھن بننے والے یہ سارے مُجرم دُور سے ہی نظر آجائیں گے اور یہ مُجرم لوگ بھی اُس جلتی آگ کی کان میں کڑکڑاتی آواز کو دُور دُور سے سنیں گے اور اُس جلتی آگ کے جان جَلاتے ہوۓ شُعلوں کو دُور دُور سے دیکھیں گے جو آگ اُن پر ہر روز آۓ گی اور ہر روز اُن کے جسموں کو جلاۓ گی اور وہ ہر روز اپنی جلتی جان کو بچانے کے لیۓ موت کو پکاریں گے لیکن ہر روز اُن کو کہا جاۓ گا کہ اَب تُم اُس موت کو کیوں آوازیں دے رھے ہو جو موت ہر روز تُم پر اسی عذاب کی صورت میں آتی رھے گی اور ہر روز تُم کو اسی طرح جلاتی اور رُلاتی رھے گی ، اَب یہ فیصلہ تو اِن لوگوں نے خود کرنا ھے کہ اُس مُستقبل میں اُن کو اپنے اعمالِ شَر کے بدلے میں وہ شُعلوں اور شراروں والی زندگی در کار ھے یا اپنے اعمالِ خیر کے بدلے میں وہ باغ و بہار والی زندگی در کار ھے جس زندگی میں انسان کی ہر خوشی اُس کی خواہش کے تابع ہوگی اور جس زندگی میں انسان کی ہر خواہش و خوشی ایک دائمی خواہش و خوشی ہو گی ، اُس روز اللہ تعالٰی اِن گُم راہ لوگوں کے اُن بڑوں کو بھی اسی جگہ پر بُلا لے گا جن بڑوں کے نام پر یہ شرک و شر کیا کرتے تھے اور اِن کے اُن بڑوں سے اللہ تعالٰی سوال کرے گا کہ میرے اِن نافرمان بندوں کو تُم نے اِس کارِ نافرمانی پر لگایا تھا یا یہ خود ہی نافرمانی کی اِس راہ پر چل نکلے تھے ، وہ عرض کریں گے تیری ذاتِ گرامی تو دُور سے ہی قریب کی طرح ھمارے خیال و اَعمال کو دیھتی رہی ھے اور دیکھ رہی ھے ، ھم یہ جرات و جسارت کس طرح کر سکتے تھے کہ اِن لوگو کو رحمٰن کے راستے ہٹادیتے اور شیطان کے راستے پر لگا دیتے ، حقیقت یہ ھے کہ تُونے اِن لوگوں کو اپنی نعمتوں سے اتنا نواز دیا تھا کہ انہوں نے تیرے نام اور اپنے کام کو بُھلا دیا تھا اور اے ھمارے رسُول ! اِس وقت تو آپ اِن لوگوں کے حال پر صرف حیرت و حسرت ہی کر سکتے ہیں جو لوگ اللہ کی بندگی سے انکار اور غیر اللہ کی بندگی پر اصرار کر رھے ہیں ، اِس وقت تو یہ آپ کی باتوں کو جُھٹلا دیں گے لیکن جب اِن پر اِن کی سزا کا نفاذ ہو گا تو اُس وقت آپ کے لیۓ بھی اِن کی سزا کا رُخ بدلنے کا وقت گزر چکا ہو گا اِس لیۓ اِس وقت آپ اِن کو بتادیں کہ تُم میں سے جو بھی جو جُرم کرے گا وہ اپنے اُس جُرم کی سزا پاۓ گا اور اِن کو یہ بھی بتادیں کہ ھم نے آپ سے پہلے بھی اہلِ زمین میں اپنا کوئی بھی ایسا رسُول مامُور نہیں کیا ھے جو ایک انسان کی طرح کھاتا پیتا نہ ہو اور جو ایک انسان کی طرح شہر و بازار میں آتا جاتا نہ ہو لیکن یہ لوگ تو یہ بات کبھی سمجھے ہی نہیں ہیں کہ ھم نے تُم سب لوگوں کو ایک دُوسرے کے لیۓ آزمائش کا ایک ذریعہ بنایا ہوا ھے تاکہ تُم سب لوگ ھماری مطلوبہ آزمائشِ حیات سے گزر کر اپنی مطلوبہ آسائشِ حیات تک پُہنچ سکو ، اِس عظیم مقصد کی تکمیل اللہ تعالٰی تُمہارے جُملہ اعمالِ خیر و شر کو ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ دیکھ رہا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی پہلی اور دَسویں اٰیت کا جو پہلا لفظ "تبٰرک" ھے اُس "تبٰرک" کے عربی اُسلوب و استعمال کے بارے میں ھم اُس پہلی اٰیت کی پہلی تعلیقات میں بقدرِ ضرورت گفتگو کر چکے ہیں اور جہاں تک "تبٰرک" کے اِس لفظ کی ترجمانی کے لیۓ اُردو زبان میں استعمال ہونے والے لفظِ "برکت" کا معاملہ ھے تو اُس کا معنٰی انسان کے دل میں اپنے زَرِ اَصل پر حاصل ہونے والے اُس اضافے کا وہ احساس ھے جس احساس کو محسوس کرکے انسان دل شاد ہوجاتا ھے اور اِس سے زیادہ وسیع تناظر میں اِس لفظ کا مفہوم بڑا ہونے والی کسی موجُود چیز کے وجُود میں کوئی بڑائی بَھرکر اُس وجُود کو مُطمئن کردینا اور بڑھائی پانے والی کسی موجُود چیز کے وجُود میں کوئی بڑھائی بَھر کر اُس کو اطمینان بخش بنا دینا ہوتا ھے تاہَم جس وجُود میں یہ بڑائی اور یہ بڑھائی پیدا ہوتے دیکھنا مطلوب ہوتا ھے اُس چیز کا وجُود عالَمِ وجُود میں موجُود ہونا لازم ہوتا ھے کیونکہ تَخلیق سے پہلے مخلوق کے کسی فرد میں حواس نہیں ہوتے اِس لیۓ تخلیق سے پہلے وہ سارے وجُود و اَفرادِ وجُود برکت کے احساس سے بے احساس ہوتے ہیں لیکن جہاں تک تخلیق کے بعد موجُود ہونے والے کسی وجُودِ موجُود کا تعلق ھے تو وہ خود بھی اپنے وجُود میں پیدا ہونے والی برکت کو محسوس کرتا ھے اور اُس کے دیکھنے والے بھی اُس کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں ، ایک بچے کا بچپن میں توانائی کا حامل ہونا اُس کے بچپن میں اُس کے بچپن کی ایک برکت ہوتی ھے ، ایک نوجوان کا اپنی نوجوانی میں رعنائی کا حامل ہونا اُس کی جوانی میں اُس کی جوانی کی ایک برکت ہوتی ھے اور ایک بُوڑھے کا اپنے بڑھاپے میں دانائی کا حامل ہوجانا اُس کے بڑھاپے میں اُس کے بڑھاپے کی ایک برکت ہوتی ھے ، دُودھ کی ایک بوتل سے دل سیر ہونے والے بچے کا دُودھ کی آدھی بوتل سے دل سیر ہوجانا ، دو نان کھانے والے نوجوان کا ایک نان سے شکم سیر ہوجانا اور سو برس کے بُوڑھے کا سو برس کی ناتوانی کے بجاۓ ساٹھ ستر برس کی توانائی کا مالک ہونا اور نظر آنا اُس کے بڑھاپے کی ایک برکت ہوتا ھے اور باقی چیزوں میں پیدا ہونے اور پیدا ہو کر نظر آنے والی برکت کو بھی اسی پر قیاس کیا جا سکتا ھے لیکن علمِ نفسیات کی رُو سے برکت کی حقیقت انسانی نفس میں پیدا ہونے والی وہ قناعت ھے جو انسان کو کم ملنے پر حرص کا اور زیادہ ملنے پر ہوس کا شکار نہیں ہونے دیتی اور قُرآن انسان کو حیات میں توازن اور اعتدال لانے کی جو تعلیم دیتا ھے اُس کے ایک حسیں نتیجے کے طور پر انسان میں صبر و قناعت کی یہ خوبی جلد یا بدیر خود بخود ہی پیدا ہوجاتی ھے کیونکہ جیسے جیسے قُرانی تعلیم انسان کی رُوح میں اُترتی جاتی ھے ویسے ہی ویسے انسان کے نفس میں قناعت و خود انحصاری پیدا ہوتی چلی جاتی ھے اور زمان و مکان کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی بھی تصدیق ہو چکی ھے کہ جس وقت جس ہستی پر قُرآن نازل ہوا تھا اُس وقت اُس ہستی میں انسانی فضائل کی یہ نعمت سارے عالَم کے مقابلے میں سارے عالَم سے زیادہ موجُود تھی اسی لیۓ اٰیاتِ بالا کے آغاز ہی میں آپ سے کہا گیا ھے کہ مُنکرینِ قُرآن آپ کے لیۓ دُنیا کے جن معجزانہ خزانوں کا مالک ہونے کی باتیں کرتے ہیں وہ خزانے آپ کو دیۓ جاسکتے ہیں لیکن جس دارالعمل میں آپ موجُود ہیں اُس دارالعمل میں انسان کو اتنا ہی دیا جاتا ھے جتنا اُس دارالعمل کے لیۓ مطلوب و موزوں ہوتا ھے اور مُنکرینِ قُرآن جو اسبابِ حیات آپ کی حیات میں دیکھنا چاہتے ہیں وہ دارالجزا کے وہ اَسباب ہیں جو انسان کے دارالجزا میں جانے کے بعد انسان کی جزاۓ عمل کی صورت میں ظاہر ہونے اور اپنے مقررہ وقت پر ہی ظاہر ہونے ہیں اِس لیۓ آپ انسان کو مَنفی اعمال کو ترک کرنے اور مُثبت اعمال کو اختیار کرنے کی تعلیم دیتے اور تلقین کرتے رہیں ، جو لوگ مُثبت اعمال اختیار کریں گے اُن کے لیۓ آنے والا ہر دن اَعلٰی حیات کی بشارت کا دن ہوگا اور جو لوگ اِس تعلیم و تلقین سے اعراض و رُوگرادنی کریں گے اُن کے لیۓ ہر آنے والا دن عذابِ جان لانے والا دن ہو گا اور جہاں تک آپ کے کھانے پینے اور اَشیاۓ ضرورت کے لیۓ شہروں بازاروں میں آنے جانے پر اِن کے اعتراض کا تعلق ھے تو یہ بھی ایک لایعنی اعتراض ھے کیونکہ آپ سے پہلے اہلِ زمین کی ھدایت کے لیۓ ھم نے جہاں جہاں پر جو جو رسُول مامُور کیۓ ہیں وہ سب رسُول کھانا بھی کھاتے تھے اور اپنی ضروریات کے حصول کے لیۓ شہروں اور بازاروں میں بھی آتے جاتے تھے ، سلسلہِ کلام کی آخری اٰیت مُنکرینِ قُرآن کے اُس اعتراض کے جوابِ مضمون کے طور پر لائی گئی جس اعتراض کا اٰیت 7 میں بیان ہوا ھے جب کہ دیگر اٰیات میں اُن اٰیات کے مضمون کا جوابِ مضمون لایا گیا ھے جن اٰیات کا جو مضمون اٰیت 4 ، 5 اور اٰیت 6 میں گزرا ھے اور اِن اٰیات کے بین السطور میں توحید کے اُس اَعلٰی مضمون کا اعادہ کیا گیا ھے جو پہلی تین اٰیات میں بیان ہوا ھے اور اِن اٰیات کے اسی مضمون میں انسان کے اِن اَیامِ حاضر سے گزر کر اُس اَیامِ مُستقبل میں جانے کا ذکر بھی کیا گیا ھے جس مُستقبل کے اُس لَمحہِ موجُود کے ساتھ انسان جڑا ہوا ھے جو ایک غیر یقینی لَمحہِ حیات ھے اور جس غیر یقینی لَمحہِ حیات میں انسان نے یقینی طور پر کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ وہ علمی و عملی کام کرنا ھے جو اُس کے جانے والے وقت کے بعد آنے والے وقت کے لیۓ ضروری ھے ، جو لوگ اِس وقتِ موجُود میں اپنا کام کریں گے وہی برکت کے اُس بابرکت مفہوم کا فہم حاصل کر سکیں گے جو اللہ کو مطلوب ھے اور جو لوگ اِس وقتِ موجُود میں اپنا کام نہیں کریں گے وہ لوگ برکت کے اُسی بے برکت مفہوم سے جڑے رہیں گے جس سے کبھی بھی کسی کو کُچھ بھی حاصل نہیں ہوا ھے کیونکہ اللہ تعالٰی کے اِس جانے والے جہان میں بھی حرکت میں برکت ھے اور اللہ تعالٰی کے اُس آنے والے جہان میں بھی صرف حرکت ہی میں برکت ہوگی کیونکہ اللہ سُبحان و مُتحرک بالعمل ہستی ھے اور اُس کو ایک عامل للحیات اور مُتحرک بالحیات مخلوق ہی پسند ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558523 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More