السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ
جو لوگ صرف ایک پڑیہ سے سارا بدنی نظام درست کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں
اتائی کہا جاتا ہے۔۔۔۔جبکہ ہر کوالیفائڈ طبیب کو طبیہ کالجز میں باقاعدہ
اناٹومی ، فزیالوجی ، معالجات ، تشخیص ، نبض ، ادویہ اور دیگر متعلقہ
مضامین باقاعدگی سے پڑھائے جاتے ہیں ۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی
طرز پہ حکومتی ادارہ نیشنل کونسل فار طب تمام طبیہ کالجز کے امتحانات کی
نگرانی کرنے کے بعد نتائج مرتب کرتا ہے۔۔۔اس لئے۔۔۔۔خاندانی نسخوں پہ دعوے
کے ساتھ علاج معالجہ کرنے والے بہر حال اتائی ہی کہلائیں گے۔ طبی کالجز میں
ان سب موضوعات کو سامنے رکھا جاتا ہے اور پوری توجہ دی جاتی ہے جو انسانی
صحت کی بحالی اور کسی بیماری کے علاج کے لئے اہم ہیں حتیٰ کہ تشخیص کے تمام
ذرائع سے مکمل آگاہی فراہم کی جاتی ہے اور پیتھالوجی کا مضمون الگ پڑھانے
کے ساتھ ساتھ عملی طور پہ بھی تمام مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔آپ کی اطلاع
کے لئے عرض ہے کہ قارورے کا معائنہ یعنی یورین ٹسٹ ، امتحان خون یعنی بلڈ
ٹسٹ اور دیگر تمام تشخیصی ذرائع پہ مکمل دسترس کے لئے پورا سبجیکٹ پڑھایا
جاتا ہے آپ کو موقع ملے تو طبیہ کالج لاہور ، قرشی یونیورسٹی لاہور ، ہمدرد
یونورسٹی کراچی ، گورنمنٹ طبیہ کالج بہاول پوراور جامعہ طبیہ اسلامیہ فیصل
آباد ضرور چکر لگائیے اور خود معائنہ کیجئے کہ طبی تعلیم کے معیار پہ پوری
توجہ دی جاتی ہے۔۔۔۔ہر طبیہ کالج کا ایک او پی ڈی بھی موجود ہوتا ہے جہاں
گروپ وائز طالبعلموں کو عملی تربیت سے گزارا جاتا ہے۔۔اس کے ساتھ ساتھ آمدہ
تحقیقات سے بھی آشنا کیا جاتا ہے اور باقاعدگی سے علمی مباحث منعقد کئے
جاتے ہیں۔۔۔آپ کی معلومات کے لئے ایک اور بات عرض کرتا چلوں کہ اردو بازار
لاہور میں مکتبۂ سلیمانیہ سے شیخ الرئیس بو علی سینا کی کتاب القانون مل
جائے گی اس کا مطالعہ کیجئے۔۔۔۔آپ کی آنکھیں کھلی رہ جائیں گی کہ اس میں
یورین ٹسٹ ، بلڈ ٹسٹ اور دیگر تمام بدنی معالجات کے تفصیلی بیان کے ساتھ
ساتھ ۔۔۔۔۔۔حکیم بو علی سینا نے ای سی جی کی تمام ڈایاگرامز ہاتھ سے بنا کر
عام کر دی تھیں (صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے) ۔۔ ان ڈایا گرامز کا
تقابل ای سی جی کی کسی بھی موجودہ رپورٹ سے کیجئے ۔۔۔۔۔۔آپ حیران رہ جائیں
گے۔۔۔۔جتنی تحقیق حکماء نے کی ہے اس کا عشر عشیر بھی جدید سائینس پیش نہیں
کر پائی سرجری کے جتنے قواعد و ضوابط اور اوزار حکیم زہراوی نے طے کرکے پیش
کر دئیے ان میں اب تک کوئی ترمیم نہیں ہو سکی ۔۔۔ چند بڑے میڈیکل کالجز (جن
پہ ہر حکومت خوب پیسے لٹاتی ہے) میں تو سرجن حکیم زہراوی کے مجسمے بھی رکھے
ہوئے ہیں۔۔۔کیمسٹری کی مکمل ترتیب حکیم جابر بن حیان کی تیار کردہ ہے اس نے
سلفیورک ایسڈ ، ہائیڈرو کلورک ایسڈ ، نائیٹرک ایسڈ اور بہت سے دیگر کیمیکلز
تیار کئے۔۔۔۔آج کے "جدت پسندوں" نے طبی محقق حکماء کے نام بگاڑ نے کے سوا
کچھ نہیں کیا۔۔۔۔حکیم جالینوس نے پہلی معلوماتی سرجری بندر کی کی تھی آج کی
" جدت " نے اس کی تحقیق کو جالینوس کی بجائے گیلن کے نام سے عام کر
دیا۔۔۔۔۔حالانکہ ان تحقیقات میں ذرّہ برابر بھی تبدیلی نہیں ہو سکی۔۔۔حکیم
ارسطو کو ارسٹوٹل کے نام سے متعارف کروا دیا گیا۔۔۔۔انسانی بدن کے اندرونی
نظام کے بارے میں سب سے پہلے حکماء نے آگاہی دی۔۔۔۔۔۔آنکھ کے متعلق طبی
سائنس کا موجد حکیم ابن الہیشم تھا اس کی بتائی گئی آنکھ کی بناوٹ ہر
میڈیکل بُک میں تحریر ہے۔۔۔۔نو چینج۔۔۔۔طبی تحقیقات کو میڈیکل سائنس کَہہ
دینے سے سائنس کا کریڈٹ نہیں تبدیل ہو سکتا۔۔مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی باک
نہیں کہ سرکاری سرپرستی صفر ہونے کے باوجود مستند طبابت یعنی حکمت آج بھی
بھرپور طریقے سے زندہ ہے۔۔۔ مزید تحقیقات کے لئے مسیح الملک حکیم محمد اجمل
خان صاحب کی مساعی کو کیسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔ان کی کوشش سے قائم
ہونے والا پہلا طبیہ کالج دہلی آج بھی فعال ہے جس کی تعمیر کے لئے انہوں نے
کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ اطِباء پہ ایک اور الزام برائے بہتان
لگایا جاتا ہے کہ نسخہ کسی کو نہیں بتاتے ۔ آپ اجمل لیبارٹریز ، قرشی
لیبارٹریز ، اشرف لیبارٹریز اور ہمدرد لیبارٹریز کی تیار کردہ کوئی دیسی
دواء اٹھا کر دیکھ لیجئے خوبصورت پیکنگ کے ساتھ ساتھ دواء کا پورا نسخہ
لکھا ہوا ملے گا اگر۔۔۔ " بُخل" واقعی اطِبائے متقدِمِین کا وطیرہ ہوتا تو
طب یونانی آج بھی موجود نہ ہوتی صدیوں پہلے۔۔ان کی تحریر کردہ طبی تحقیقی
کتب آج بھی موجود ہیں۔۔مگر مخالفت برائے مخالفت کا کیا جواب۔ جوگی ، سنیاسی
یا سیانے کو طبیب یا حکیم قرار دینا بہت بڑی لا علمی ہے۔۔۔ بلکہ میرا تو
مطالبہ ہےکہ سوشل میڈیا پہ علاج معالجے کے اشتہار بند ہونے چاہئیں کیونکہ
اتائیت کے فروغ کا یہ بہت بڑا ذریعہ ہیں۔۔۔۔طب یونانی میں تحقیق کے فقدان
کی بات ایک مخصوص طبقے کی جانب سے سوائے منفی پروپیگنڈے کے اور کچھ بھی
نہیں۔۔۔۔۔۔پہلی بات تو یہ ہےکہ اطِبائے متقدِمِین نے دل کھول کر تحقیق کی
ہے حتیٰ کہ دواؤں کے نسخہ جات ترتیب دیتے ہوئے انہوں نے اتنے متناسب اوزان
ترتیب دئیے ہیں کہ وہ دوائیں آج اکسیر کا درجہ رکھتی ہیں اور ان میں مزید
تحقیق کرنے کے بعد بھی وہی ترتیب سامنے آجاتی ہے۔۔نیشنل کونسل فار طب نے
اکابر حکماء کی تمام دوائی تحقیقات کو ایک فارماکوپیا کی شکل میں محفوظ کیا
اور وہی فارما کوپیا آج رائج ہے۔۔۔۔بلکہ بہت سی ایلو پیتھک ادویہ طب یونانی
دواؤں کے نام تبدیل کرکے تیار کی گئی ہیں ۔۔۔۔ گلیسرا ، ایفڈرا ، سینا ،
اسپغول ، سرپینٹینا اور بہت سی یونانی ادویہ کے نام پیش کئے جا سکتے
ہیں۔۔۔۔تحقیق کے ضمن میں یہ بات بہت اہم ہے کہ قدیم ملکوں میں قائم قدیم
لائبریریوں میں یہ تحقیقات قلمی صورت میں آج بھی موجود ہیں۔۔۔۔1910 میں
برِصغیر میں فرنگی نے طب یونانی پہ پابندی لگا دی تھی اس وقت مسیح الملک
حکیم محمد اجمل خان صاحب نے تنہا یہ جنگ لڑی۔۔۔۔آخرکار پابندی اٹھائی گئی
طبیہ کالج دہلی قائم ہوا ۔۔۔۔ مسیح الملک نے طبیہ کالج دہلی میں ایک ریسرچ
سنٹر بھی قائم کیا۔۔۔جہاں انہوں نے ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی کےساتھ مل کر
بلڈ پریشر کی دواء دریافت کی۔۔ آج بھی انگریزی طریقۂ علاج میں اسی دواء کا
جزوِ مؤثرہ مختلف ناموں سے استعمال ہوتا ہے۔۔۔۔پاکستان میں تمام بڑے یونانی
دواء ساز اداروں نے بہت بڑے باغات قائم کر رکھے ہیں جہاں تحقیق کے لئے
ہزاروں کی تعداد میں جڑی بوٹیاں اگا کر تحقیق کی جاتی ہے۔۔۔۔مگر۔۔۔۔ بات
صرف اتنی ہے کہ کسی بھی تحقیق کو عوام تک پہنچانے کے لئے سرکاری ذرائع کی
بہرحال ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔اور پاکستان میں تو وزارت صحت شروع سے ہی ایک
مخصوص طبقے کے قبضے میں ہے جو نہ صرف یہ کہ فنذز جاری نہیں ہونے دیتا بلکہ
طب یونانی کے خلاف پروپیگنڈا بھی کرتا ہے۔۔۔۔یہ کائناتی اصول ہے کہ جس علم
میں تحقیق مفقود ہو جائے وہ علم دم توڑ دیتا ہے حتیٰ کہ دین و مذہب بھی
اجتہاد کا تقاضا کرتا ہے۔۔۔ طب یونانی میں تحقیق کا عمل آج بھی جاری ہے مگر
سرپرستی نہ ہونے کے باعث تشہیر سے محروم ہے۔۔۔ یہ ایک عجیب حقیقت ہے کہ
مسلمان حکمرانوں نے اپنے اپنے ادوار میں تمام علوم و فنون کی مکمل سرپرستی
کی ان کے حوالہ جات آج بھی دستاویزات کی صورت میں محفوظ ہیں مگر طب
یونانی۔۔۔اپنے ہی مُلک میں تضحیک کا شکار ہے۔۔۔اگر حکومت اس طریقِ علاج کی
مکمل سرپرستی کرے تو مُلک کو درپیش دیرینہ مسئلہ صحت حل کرنے میں مدد مل
سکتی ہے کیونکہ طب یونانی کی دوائیں خود رو ہیں ۔ حکومت جو کثیر زرمبادلہ
دوسری دواؤں کی درآمد پہ لٹاتی ہے ، نہ صرف اس دولت کو بچایا جا سکتا ہے
بلکہ عوام کو سستا علاج بھی فراہم کیا جا سکتا ہے
|