سوال یہ سامنے آیا کہ حضرت سیدنا
امام مہدی علیہ السلام ابھی تشریف نہیں لائے، جب تک وہ تشریف نہ لائیں اور
جہاد کا حکم نہ دیں جہاد نہیں ہوسکتا۔ اس بات کو قرآن پاک کے تناظر میں
دیکھیں۔ ارشاد خداوندی ہے: کتب علیکم القتال وھو کرہ لکم سورہ بقرة۔ جہاد
تم پر فرض کردیا گیا اگرچہ تمہیںپسند نہ ہو ۔ قرآن کریم میں جہاد کے بارے
بڑی سخت تاکید آئی ہے اور جہاد سے جی چرانے والوں کے بارے سخت وعید آئی ہے۔
جو فرض ہے وہ ہر حال میں فرض ہے، اسکا ادا کرنا فرض کی ادائیگی اور نہ ادا
کرنا، نافرمانی اور عذاب الہی کا موجب ہے۔ قرآن کریم میں کسی جگہ کسی شخصیت
کے ساتھ جہاد کو پابند نہیں کیا کیا۔ جہاد میں امیر کا ہونا لازم ہے ۔ اور
امیر تو اسلامی معاشرے کی شناخت ہے، مثلاً نماز میں امیر ہوتا ہے، برادری ،
گھر ، دفتر ، غرضیکہ ہرجگہ امیر ہوتا ہے۔ مسلمان جب جہاد کرتے ہیں تو امیر
تو منتخب کرتے ہیں۔ سیدالعالمین ﷺ نے بطور امیر ستائیس غزوات میں لشکر
اسلام کی کمان خود فرمائی، جبکہ سرایا میں آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام میں سے
کسی نہ کسی کو امیر بنا کر بھیجا۔ امیر کی ضرورت تنظیم جہاد کے لیئے بھی
بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس وقت دنیا میں مسلمان ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہ
مغربی جمہوری طرزحکومت تو سرے سے خلاف اسلام ہے۔ جہاں تک حکمرانوں کا تعلق
ہے وہ اسلام سے قطعا نابلد ہیں،سورة توحید مسلمانوں کے دوتین سالہ بچوں کو
بھی آتی ہے اگر نہیں آتی تو مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے وزیر داخلہ
بنام عبدالرحمن ملک کو نہیں آتی ۔ مگر شرم اسے نہیں آتی کہ اخبارات اور ٹی
وی پر ملک کی خوب عزت افزائی ہوئی پر اسے شرم نہ آئی اور نہ آئے گی۔ کتنا
بڑا بے ایمان ہے کہ ہمارے ملک کے دیہاتی جب نماز یاد کرتے ہیں تو اور کچھ
آئے نہ آئے سورة اخلاص ضرور یاد ہوتی ہے کیونکہ وہ نماز پابندی سے ادا کرتے
ہیں۔ یہ اس ملک کا وزیر داخلہ ہے۔ لعنت اس پر اور اسے وزیر بنانے والوں پر۔
ترکیب قومیت مسلم سے ناآشنا ہیں، رنگ و نسل اور زبان و علاقے پر انحصار
قومیت کیئے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں جبکہ مسلم حکمران امریکہ کے جوتے
کھاکر پھر بھی اسی کی مالا جپتے ہیں ، ان سے صلیبیوں کے خلاف جہاد کی توقع
عبث ہے۔ ایران میں جب رضا شاہ پہلوی کے دور میں انسانیت نوحہ کنا ں ہوئی تو
حضرت امام خمینی نے اسکے خلاف علم جہاد بلند کیا۔ کیا انہیں معلوم نہ تھا
کہ ابھی حضرت امام مہدی علیہ السلام تشریف نہیں لائے، جہاد نہیں ہوسکتا،
فرانس میں بیٹھ کر انہوں نے شاہ کی شہنشاہیت کی چولیں ہلا کر رکھدیں۔ شاہ
کے خلاف عوام کا اعلان جہاد تھا جس نے شاہ کو ایران چھوڑنے پر مجبور
کردیا۔جب امریکہ خبیث نے ایران کو ایٹمی ترقی سے روکنا چاہا اور اس کام کے
لیئے صلیبیوں نے متحد ہوکر اپنے خداوند کے قاتل (انکے عقیدہ کے مابق) کی
پشت پناہی کرتے ہوئے مملکت اسلامیہ ایران کے خلاف متعدد اقدامات کیئے ۔
حملوں کی دھمکیوں سے لے کر معاشی ، اقتصادی، دفاعی اور سفارتی پابندیاں
عائد کیں۔ تو ایران کا جواب یہ تھا کہ ہم اسوہ شبیری ادا کریں گے۔ اس ایمان
افروز اور غیر متزلزل بیان پر صلیبیوں کے پد ہی نہیں نکلے بلکہ انکے ہوش و
حواس اڑگئے۔ افغانستان کو ترنوالہ سمجھنے والے خبیث صلیبی ذلت آمیز شکست سے
دوچار ہیں تو دوسری طرف عراق پر صلیبی کتوں کا حملہ انکے مستقبل کی تباہی
کا پیش خیمہ ہے۔ ایران پر حملہ کی جرات نہ ہوئی ۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ
امریکہ اور اسکے صلیبی ساتھی اپنی باہمی جنس پرستی سے کچھ وقت نکال کر
ایران پر حملہ کرہی دیں۔ تاکہ انہیں اپنے آبا کے جاری کردہ غلیظ فعل کی سزا
کی یاد تازہ ہو اور دنیا دیکھے کہ لواطت پیشہ لوگوں کا کیا حشر ہوتا ہے۔
خلیج عرب امریکیوں کو غرق کرنے کا بے تابی سے منتظر ہے۔ پھر دیکھیں گے کہ
پاکستان کے امریکہ پرست حکمران ، کویت کے امریکہ پجاری اور متحدہ عرب
ریاستوں کے شیوخ امریکہ کو کہاں تک تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ یہاں کے مسلم عوام
صلیبیوں کے ساتھ ساتھ اپنے بے ایمان حکمرانوں کو بھی واصل جہنم کریں گے۔
میرے بھائی ہم پر جہاد تاقیامت فرض ہے۔جہاد جاری ہوگا اور مسلمان مغلوبیت
سے دوچار ہونگے کہ ہمارے آقا ﷺ کی بشارت سیدنا امام مھدی علیہ السلام تشریف
لائیں گے اور انکی سربراہی میں جہاد کر کے یہودونصاری پر غلبہ پائیں گے۔پھر
لٹیروں اور شعبدہ باز حکمرانوں کا انجام طہور پذیر ہوگا۔ |