سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا سلسلۂ نسب اس طرح
ہے:عثمان ابن عفان بن ابو العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف۔اس طرح
آپؓکا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں رسول اللہﷺ کے مبارک سلسلۂ نسب سے جا
ملتا ہے۔آپؓکی والدہ کا نام’ارویٰ‘ ہے اور ان کی والدہ امِ حکیم اور رسول
اللہﷺ کے والد ’عبداللہ‘ جڑواں پیدا ہوئے تھے۔ آپؓکی ولادت واقعۂ فیل کے
۶؍سال بعد ہوئی۔آپؓان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے حضرت ابو بکر صدیقؓکی
دعوت پر اسلام قبول کیا۔ابن اسحاق کہتے ہیں کہ آپؓ(مَردوں میں) حضرت ابو
بکر صدیق، حضرت علی اور حضرت زید ابن حارثہ رضی اللہ عنہم کے بعد (چوتھے
نمبر پر) ایمان لائے۔ آپؓنے حبشہ اور مدینہ منورہ دو ہجرتیں کیں، اسی لیے
آپؓکوذوالہجرتین( دو ہجرتوں والا) کہا جاتاہے۔ آپؓکے نکاح میں رسول اللہﷺ
کی دو بیٹیاں (۱)رقیہؓ اور (۲)ام کلثوم آئیں،اسی لیے آپؓکو ذوالنورین(دو
نور والا) بھی کہا جاتا ہے۔عبداللہ بن عمر بن ابان جعفی سے روایت ہے، وہ
کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے ماموں حسین جعفی نے کہا: تم جانتے ہو کہ حضرت
عثمانؓکا نام ذوالنورین کیوں پڑا؟ میں نے کہا: میں نہیں جانتا۔ انھوں نے
فرمایا: حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک، حضرت عثمانؓکے سوا کسی شخص
کے نکاح میں، کسی نبی کی دو بیٹیاں نہیں رہیں اسی لیے آپؓکا نام
’ذوالنورین‘ پڑا۔حضرت علیؓسے روایت ہے، جب رسول اللہﷺ کی دوسری بیٹی حضرت
امِ کلثومؓکا بھی آپؓکے نکاح میں انتقال ہو گیاتوآپﷺ نے ارشاد فرمایا:
اگر میرے چالیس بیٹیاں ہوتیںتو میں یکے بعد دیگرے ان سب کا نکاح، عثمان سے
کر دیتا۔ آپؓکا شمار سابقین اولین، اولِ مہاجرین اور عشرۂ مبشرہ میں ہوتا
ہے۔
حلیۂ مبارک
ابن عساکر عبد اللہ بن حزم مازنی سے روایت کرتے ہیں: میں نے حضرت عثمان بن
عفانؓسے زیادہ خوبصورت، کسی مَرد یا عورت کو نہیں دیکھا۔ ابن عساکر نے ہی
چند طُرق سے آپؓکا حلیہ اس طرح بیان کیا ہے:حضرت عثمانؓمیانہ قد، خوبصورت
شخص تھے۔ رنگت میں سفیدی کے ساتھ سرخی مایل تھی۔ چہرے پر چیچک کے نشان تھے۔
ڈاڑھی بہت گھنی تھی۔ چوڑی ہڈی کے ساتھ شانوں میں فاصلہ دراز تھا اور
پنڈلیاں بھری بھری تھیں۔ دستِ مبارک لمبے تھے، جن پر (قدرے) بال تھے۔ سر کے
بال گھنگریالے تھے مگر چندیا کھلی ہوئی تھی اور بال کانوں سے نیچے تک اتر
آئے تھے۔ دندان مبارک خوب صورت تھے، جنھیںآپؓنے سونے کے تار سے باندھ
رکھا تھا۔
فضائل
حضرت عثمان ذوالنورینؓکی فضیلت میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ چند یہاں
ذکر کی جاتی ہیں:
(۱) رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عثمان! شاید اللہ تعالیٰ تمھیں ایک
قمیص پہنائیں گے، اگر لوگ تم سے وہ قمیص اتارنا چاہیں تو ان کی خاطر تم وہ
قمیص ہرگز نہ اتارنا۔ [ترمذی]
(۲) ایک مرتبہ رسول اللہﷺ احد پہاڑ پر چڑھے۔ساتھ میں حضرت ابو بکرؓ،عمرؓ
اور عثمانؓ بھی تھے۔ پہاڑ میں (کسی سبب) حرکت ہونے لگی تو آپﷺ نے ارشاد
فرمایا: احد ٹھہر جا تجھ پر ایک صدیق اور دو شہید (موجود) ہیں۔[بخاری]
(۳) رسول اللہﷺ جب حضرت عثمانؓکو آتا دیکھتے تو ذرا سنبھل کر بیٹھ جاتے
اورارشاد فرماتے:میں اس شخص سے کیوں حیا نہ کروں، جس سے اللہ تعالیٰ کے
فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔[مسلم]
(۴) آپﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت میں سب سے زیادہ با حیا ’عثمان‘ ہیں۔
[فضائل الصحابہ لاحمد]
(۵)جب بیعتِ رضوان ہوئی تو حضرت عثمانؓرسول اللہﷺ کی طرف سے مکہ معظمہ میں
ایلچی بن کر گئے ہوئے تھے۔ یہاں لوگوں نے حضورﷺ سے بیعت کی توآپﷺ نے
فرمایا: عثمان، اللہ اور اس کے رسول کے کام سے گئے ہوئے ہیں اور ان کی طرف
سے میںاپنے ہاتھ پر دوسرے ہاتھ کی بیعت کرتا ہوں۔
(۶) ایک مرتبہ آپﷺ نے فتنوں کی پیشین گوئی کی اور حضرت عثمانؓکی طرف اشارہ
کرکے فرمایا: ایک فتنے میں یہ بھی مظلوم شہید ہوں گے۔
(۷) آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر میرے چالیس بیٹیاں ہوتیںتو میں یکے بعد
دیگرے ان سب کا نکاح عثمان سے کر دیتا۔
(۸) ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص رومہ کے کنویں کو کھودے گا،
اسے جنت ملے گی۔ حضرت عثمانؓنے اس کنویں کو کھودا۔
(۹)جس وقت رسول اللہﷺ نے لشکرِ عسرہ تیار فرمایاتو حضرت عثمانؓنے ایک ہزار
دینار لاکر خدمتِ رسول میں پیش کیے۔ اس پر رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر
آج کے بعد عثمان کوئی نفل کام نہ کریںتو بھی کوئی حرج نہیں۔
(۱۰)حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے اصحاب
میں عادت کے اعتبار سے عثمانؓمجھ سے زیادہ مشابہ ہیں۔[تاریخ الخلفا]
اوّلیات
حضرت عثمانؓنے کئی باتیں ایسی کیں، جن کی اوّلیت کا سہرا آپؓکے سر ہے۔ من
جملہ ان کے چند درجِ ذیل ہیں:(۱) سب سے پہلے حضرت عثمان غنیؓنے مسجد میں
خوشبو لگوائی(۲) جمعے میں دو اذانیں شروع کروائیں(۳) تمام مسلمانوں کو
قرآن مجید کی ایک قراء ت پر جمع کیا(۴)مؤذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں(۵)
لوگوں کو ازخود زکاۃ نکالنے کا حکم فرمایا(۶) کوتوال پولیس مقرر کیا(۷)
امام کے لیے محراب بنوایا(۸) تکبیر میں آواز دھیمی کروائی(۹) آپ ہی نے
جانوروں کے لیے چراگاہیں چھوڑیں(۱۰) جاگیریں مقرر کیں۔
شہادت
۱۸؍ذوالحجہ سیدنا حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کی تاریخِ شہادت ہے۔
سیدنا عثمان غنی ؓکی شہادت اپنی مظلومیت اور مصیبت نیز نتائج کے لحاظ سے
امت میں سب سے پہلی اور بے نظیر شہادت ہے۔ آپؓکی شہادت سے قبل مسلمان متحد
تھے اور ان کی متفقہ قوت کفر اور شعائرِ کفر کو مٹانے میں صَرف ہو رہی تھی
اور نبوت کی برکات باقی تھیں، مگر آپؓکی شہادت کے ساتھ ہی وہ تمام برکات
اٹھا لی گئیں اور امت میں اختلاف و انتشار پیدا ہو گیا اور اب تک جو قوت
دشمنانِ اسلام کے خلاف استعمال ہوتی تھی باہم ایک دوسرے کو زیر کرنے میں
ضایع ہونے لگی۔ جس تلوار سے کفر کی گردن زدنی ہوتی تھی، اسے مسلمان کی گردن
کو دھڑ سے الگ کرنے میں استعمال کیا جانے لگا۔وہ دن تھا اور آج کا دن ہے
کہ مسلمانوں کے آپسی اختلاف بلکہ افتراق کا دایرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا
رہا ہے۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن سے پوری امت کو فتنوں نے
چہار جانب سے گھیر لیا اور ایسے ایسے واقعات رونما ہوئے کہ تاریخ کا مطالعہ
کرنے والا دنگ رہ جاتا ہے کہ’ یہ وہی مسلماں ہیں جسے دیکھ کے شرمائیں
یہود!‘
آپؓکی شہادت کے واقعے کو بیان کرنے کے لیے دفتر کے دفتر چاہئیں، ملخص یہ
کہ آپؓکی خلافت کے آخری ایام میں بعض لوگوں میں اختلاف پیدا ہوا اور یہ
اختلاف اس قدر بڑھا کہ بغاوت رونما ہو گئی اور باغیوں نے آپ کا محاصرہ کر
لیا(اور حضرت حسینؓجیسے) صحابہ کرامؓکے آپؓکے دروازے پر پہرا دینے کے
باوجود، گھات لگا کر کسی طرح چھت پر چڑھ کر آپؓکو نہایت مظلومیت کے ساتھ
پیاسا شہید کر دیا اور امّت دو نور والے اس عظیم صحابیِ رسولﷺ کے وجودِ
مسعود سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
اللہ تعالیٰ ان کی قبر پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین
|