ارشادِ ربانی ہے:’’پس آپ اپنا رخ اﷲ کی اطاعت کے لئے کامل
یک سُوئی کے ساتھ قائم رکھیں۔ اﷲ کی (بنائی ہوئی) فطرت (اسلام) ہے جس پر اس
نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے (اسے اختیار کر لو)، اﷲ کی پیدا کردہ (سرِشت)
میں تبدیلی نہیں ہوگی، یہ دین مستقیم ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘۔اس
آیتِ شریفہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی اطاعت میں مکمل یکسوئی کا حکم دیا
گیا یعنی بغیر کسی ملاوٹ کے خالص قرآن و سنت کی پیروی ہی دینِ فطرت ہے۔
عہدِالست شاہد ہے کہ بلاتفریق مسلم و کافر سارے انسانوں کی پیدائش اسلام
پرہوتی ہے ۔ دینِ اسلام اس کی فطرت یعنی جبلت میں شامل ہے مگر ماحول یا
دیگر عوارض کی رکاوٹ اسے برگشتہ کردیتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ ہر بچہ
فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا
مجوسی وغیرہ بنا دیتے ہیں‘‘۔ ایسے لوگ تمام عمراپنی فطرت کے خلاف برسرِ جنگ
ہوتے ہیں ۔ دین فطرت سے ناآشنائی کے سبب انہیں نہ تو قلبی چین وسکون حاصل
ہوتا اور نہ وہ خارجی دنیا میں امن و سلامتی قائم کرپاتے ہیں۔
اس آیت میں استعمال شدہ لفظ فطرت کا مادہ(ف،ط،ر) ہے جس کے معنیٰ اس طرح شق
ہونے کے ہیں کہ پھٹنے کے بعد نکلنے والی چیز رکاوٹوں کے پردے سے بے نیاز
ہوجائےمثلاًافطار کے بعد روزہ دار کے اوپر سے کھانے پینے کی پابندی کا اٹھ
جانا ۔ ارشادِ قرآنی ہے :’’ فاطر السماوت والارض‘‘ یعنی پردہ عدم کو پھاڑ
کر زمین وآسمان کاوجود برآمد کرنے والا (خدا)‘‘ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں
فاطر کے معنی میں نے سب سے پہلے ایک اعرابی کی زبانی معلوم کئے۔ اس کا
کنویں کے بارے میں اختلاف ہوا تووہ بولا ’انا فطرتھا‘ یعنی پہلے پہل میں نے
ہی اسے بنایا ہے گویااللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو ابتداء میں اپنی قدرت
کاملہ سے پیدا کیا۔ زمین پھاڑ کر نباتات کا ظہور بھی ’’تفطرت الارض
باالنبات‘‘ کہلا تا ہے۔
انسانی وحیوانی مشترکہ جبلت میں بنیادی فرق ’نصب العین ‘ کا ہے۔ مقصدِحیات
سے بے بہرہ جانور جبلت کا تابع ہوتا ہے جبکہ انسانی فطرت اسے اللہ کا مطیع
و فرمان بناسکتی ہے۔ درست یا غلط نصب العین اختیار کرنا حیاتِ انسانی کی
مجبوری ہے ۔ انسان اگر راہ حق میں مجاہدہ نہ کرے تو باطل کے راہوں پر سر
گرم عمل ہوگااور اپنےمنتخب کردہ راستے پر فطری اوصاف کو صرف کرے گا ۔ ارشادِ
حق ہے:’’اور ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئیے ہیں‘‘۔انتخاب کی آزادی کا
استعمال کرنےکے بعد انسان ازخود اسیرِ ِراہ ہوجاتا ہے۔ مثلاً شہوت ایک فطری
جذبہ ہے۔ شتر بے مہار کی مانند قضاء شہوت کرنے والے نامراد ہوجاتے ہیں اور
راہب اس فطری جذبے کو فنا کے گھاٹ اُتار دیتے ہیں ۔یہ دونوں طریقۂ کار
انسانی تمدن کے حق میں بگاڑ کا موجب بنتے ہیں جبکہ اس کا جائز اور برمحل
استعمال نسل انسانی کی ترویج ، اچھےخاندان کی تشکیل اور بہترین معاشرت کی
صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔
فطری اوصاف کےاستعمال کااعتدال،توازن اور تناسب کے حدود سے نکل کر افراط
وتفریط کا شکار ہوجا نا تباہ کن نتائج کاجنم داتا ہے۔مثلا ً مسابقت محرکِ
عمل ہے مگراس کی افراط آدمی کو دنیا کا کتا بنا دیتی ہے اورتفریط نقطہء
فناپرپہنچاکر جذبۂ عمل سے محروم کردیتی ہے۔ دنیا میں ظلم و ستم کی ایک وجہ
غیض وغضب ہےلیکن اسےسراسر بدی سمجھ کر معدوم کردینا امن وامان کو غارت
کرسکتا ہے کیونکہ غضب وغصہ کے جذبات ہی انسان کو بدی کی سرکوبی کے لئے
آمادہ کرتےہیں ۔ ارشادِ نبویﷺ ہے : ”جس نے اللہ کے لیے محبت کی، اللہ کے
لیے دشمنی کی، اللہ کے لیے دیا، اللہ کے لیے منع کر دیا تو اس نے اپنا
ایمان مکمل کر لیا “۔الغرض قدرت کےودیعت کردہ صفات کا اعتدال وتناسب کے
ساتھ استعمال عین تقاضائےفطرت ہے ۔
|