جب میںوزیر اعلیٰ پنجاب میاں
محمد شہبازشریف صاحب کی خبریں پڑھتا، سنتا یا دیکھتا ہوں تو ہر بار ایک الگ
کیفیت کا شکار ہو جاتا ہوں۔ کبھی سوچتا ہوں کہ لو یہ بھی کوئی وزیر اعلیٰ
کے کرنے والا کام تھا ، کبھی ان کے انداز تکلم کو نشانہ بناتا ہوں تو کبھی
ان کے لائف اسٹائل کو اور کبھی انہیں کسی ایسے مقام پر کھڑا ہوا پاتا ہوں
کہ دل خوشی سے جھوم جاتا ہے اور فخر محسوس کرنے کو دل کرتا ہے اور الحمد
للہ کرتا بھی ہوں۔ میں ہر شخص کے متعلق ایسا ہی سوچتا ہوں کیونکہ میں
سمجھتا ہوں کہ یہ خوبی صحافت کا حسن ہے۔
آج کا کوئی انسان بھی عقل کل نہیں رکھتا ہر شخص کو ہر موڑ پر مشورے اور
رہنمائی کی ضرورت پڑتی رہتی ہے ۔خصوصاً جب ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو
اس کا مطلب ہی یہی ہے کہ تمام ممبران کی رائے سنی جائے کثرت رائے کا احترام
کیا جائے اور اختلاف رکھنے والوں کو قائل کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ یہی
جمہوریت کا حسن ہے۔ محترم شہباز شریف اپنے آپ کو خادم اعلیٰ کہلواتے ہیں
لیکن خاصے اکھڑ مزاج مشہور ہیں اس کے باوجود ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ
وہ قابل عمل اور عوامی فلاح وبہبود کے لئے دیئے جانے والے مشوروں پر کان
دھرتے ہیں۔ ایسے کئی منصوبے پنجاب حکومت کے نامہ اعمال میں درج ہیں۔
سانحہ سیالکوٹ کے بعد ہم نے حکومت کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ آپ کو ضلعی
نظام سے لاکھ اختلاف سہی لیکن اس نظام میں چند اچھی باتیں بھی تھیں جن سے
عوام فیضیات ہوسکتے ہیں، جیسے مصالحتی انجمنیں ، حکومت نے اس پر کام کیا
اور چاروں صوبوں میں مصالحتی انجمنوں کو فعال بنانے کے لئے کام شروع کر دیا
گیا۔ یہ منصوبہ ابھی بھی بہت توجہ اور خلوص مانگتا ہے۔
کھیل کسی بھی صحت مند معاشرے کا لازم جزو ہوتے ہیں وطن عزیز میں پائی جانے
والی بے چینی نے کھیل کے میدانوں کی رونقیں ماند کر دی ہیں۔ کھیل کے
میدانوں کی بربادی کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بے راہ روی اور منشیات کی عادات
جڑ پکڑتی جا رہی ہیں خصوصاً بے روزگاری سمیت نوجوانوں کے دیگر مسائل کے
مقابلے میں مصروفیات کے نہ ہونے کی وجہ سے ان کا جرائم اور دیگر لغویات کی
طرف مائل ہونا فطری بات ہے۔ حکومت پاکستان اور بلخصوص وزیر اعلیٰ پنجاب کے
لئے ہمارا یہ مشورہ ہے کہ وہ نوجوانوں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے توجہ دیں
اور لڑکپن سے جوانی کی طرف بڑھتے ہوئے قوم کے مستقبل کی رہنمائی اور تربیت
کے لئے خصوصی پروگرام تشکیل دیں۔
وطن عزیز میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے مختلف کھیل کھیلنے والے کھلاڑیوں نے
بھی وطن عزیز کا نام دنیا میں روشن کیا، ملک کے اندر قومی اور صوبائی
کھیلوں کے مقابلوں کا بھی انعقادحکومتی سر پرستی میں باقاعدگی سے کیا جاتا
رہا لیکن جب سے دہشت گردی نے یہاں ڈیرے ڈالے ہیں کھیلوں کی سرگرمیاں ماند
پڑتی جا رہی ہیںلیکن ابھی بھی ملک میں کئی باصلاحیت کھلاڑی موجود ہیں جو
قومی اور بین الاقوامی سطح پر اچھا کھیل رہے ہیں یا اچھا کھیل پیش کر چکے
ہیں۔ان میں والی بال، کبڈی، باسکٹ بال اور اتھلیٹکس سمیت دوسرے کھیلوں کے
کھلاڑی بھی شامل ہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق دیہاتوں سے ہے ، قومی یا
بین الاقوامی سطح پر کارکردگی دکھانے کے بعد ان کی پہلی ترجیح دیہاتوں سے
شہروں میں منتقل ہونے کی ہوتی ہے۔اور ایسے میں وہ بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں
تاکہ اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دے سکیں۔جو کہ حصول علم سے لے کر جعلی
ڈگریوں پر ختم ہوتا ہے۔اگر ایسے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور
انہیں انہیں کے اضلاع اور تحصیل کی سطح پرپہلے سے موجود کھیلوں کی ایسوسی
ایشنوں کے ساتھ رابطے اور آس پاس کی دیہی آبادیوں میں مختلف کھیلوں کی
سرگرمیوں کو فروغ دینے کی ذمہ داری سونپ دی جائے تو پیسے بٹورنے والی
ایسوسی ایشنوں سے زیادہ اچھے نتائج ان کھلاڑیوں سے حاصل کئے جاسکتے
ہیں۔ایسے کھلاڑی مختلف محکموں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں جہاں پر کئی
ایک کو ملازمت کی برخاستگی تک اپنے گھر والوں کی ساتھ رہائش کی سہولت
دستیاب ہے لیکن بہت سارے ایسے بھی ہیں جو شہروں میں کرایہ پر رہائش اختیار
کرنے پر مجبور ہیں۔ان دونوں نوعیت کے کھلاڑیوں کو ان کے آبائی اضلاع اور
تحصیل کی سطح کے شہروں میں حکومت ان کو پلاٹ آلاٹ کر کے جسے وہ بخوشی قبول
کر کے رہائش اختیار کرنا چاہیں گے کہ تاکہ اپنے دیگر خاندان سے بھی ربط
قائم رہے۔ریٹائرڈ کھلاڑیوں کی روزی روٹی کا بندوبست جن میں سے اکثر خود ہی
کر لیں گے انہیں قریبی علاقوں میں کھیلوں کی سرگرمیوں کو فروغ اور انہیں
وسط دینے کے لئے ان کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں، مہینے پندرہ دن میں ایک
دو دن کے لئے بھی اگر کوئی کھلاڑی کسی دیہات میں چلا جائے تو یقینا وہاں کے
نوجوانوں میں کھیل کے متعلق دلچسپی میں اضافہ ہو گا اور وہ کھیلوں پر زیادہ
توجہ دیں گے اس سے ہم نہ صرف نوجوان نسل کو بے راہ روی سے بچا سکتے ہیں
بلکہ وہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ملک و قوم کا نام روشن کرنے میں بھی
مددگار ثابت ہوں گے ۔
یوں تو پورے ملک میں ایسی صحت مند سرگرمیوں کی اشد ضرورت ہے لیکن اگر
ابتدائی طور پر صرف حکومت پنجاب ہی یہ قدم اٹھانے میں کامیاب ہو جائے اور
اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے اقدامات کرے تواس کا دائرہ کار یقینا ملک
کے دوسرے حصوں تک بھی پھیلے گااور پھر تمام صوبے اس سے مستفید ہو سکیں گے ،
اس وقت پنجاب حکومت کے لئے آسانی یہ ہے کہ آشیانہ ہاؤسنگ سکیموں میں ہر جگہ
چند پلاٹ اگر ایسے کھلاڑیوں کے نام کر دیئے جائیں تو حکومت کے لئے یہ کوئی
بڑا یا مشکل امر نہیں ہو گا۔
ہماری ملاقات کئی ایسے کھلاڑیوں سے ہوئی جو ایشین گیمز ، سیف گیمز کے
میڈلسٹ یا کئی کئی بار کے نیشنل چیمپئن ہیں ان کو کھیلوں سے عزیز اور کوئی
کام نہیں ہے وہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور نوجوانوں کی غیر صحت مند
سرگرمیوں کی طرف رغبت کی بڑی وجہ حکومت کی کھیلوں کی طرف عدم توجہ بتاتے
ہیں۔ ایک صحت مند معاشرے کے لئے حکومت کو ایسے نویکلے اقدامات کرنے پڑیں گے
۔ اس طرح کھیل کھیل میں ہم اپنی نواجوان نسل کو ایک بہتر مستقبل کے ساتھ
ساتھ اس کے حال کو بھی محفوظ بنا سکتے ہیں ورنہ جرائم پیشہ گروہ ان کو اچھے
مستقبل کا خواب دکھا سکتے ہیں۔ |