بھارت نے 5 اگست 2019ء کو تحریکِ آزادی کی صدا کو
دبانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اپنے آئین سے آرٹیکل 370 نکال دِیا۔بھارت کی
جانب سے مقبوضہ کشمیر میں لگائے گئے تاریخ کے بدترین جبری‘ ظالمانہ کرفیو
کو 2سال مکمل ہوگئے‘ آج یوم ِاستحصال کشمیر منایا جائے گا۔ہندوتوا کے نظریے
پر عمل پیرا فاشسٹ نریندر مودی سرکار نے آرٹیکل A-370 کے تحت مقبوضہ کشمیر
کی خصوصی حیثیت کو بھارت کے آئین سے ختم کر دیاتھا۔مودی سرکار نے غیر معینہ
مدت کے لیے کشمیر میں کرفیو لگا کر ظلم و ستم کی انتہا کردی اور تمام
مواصلاتی رابطے بند کردیے گئے جو ابھی تک ظلم وبربریت کی تاریخ رقم کرتے
ہوئے بحال ہیں۔ہزاروں کشمیریوں کو شہید اور لاپتہ کر دیا گیا‘کشمیری خواتین
کی عزتیں پامال کی گئیں‘سیکڑوں خاندان اجڑ گئے۔
آرٹیکل 370 کو ختم کرکے وہاں کانسٹی ٹیوشن (ایپلی کیشن ٹو جموں و کشمیر)
آرڈر 2019 خصوصی آرٹیکل نافذ کردیا گیا‘جس کے تحت اَب بھارتی حکومت مقبوضہ
وادی کو وفاق کے زیر انتظام کرنے سمیت وہاں پر بھارتی قوانین کا نفاذ بھی
کرسکے گی۔مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کو 2 حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے وادی
ِجموں و کشمیر کو لداخ سے الگ کرنے کا بھی فیصلہ کیا‘ لداخ کو وفاق کے زیر
انتظام علاقہ قرار دیا جہاں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی۔
26 اکتوبر 1947 کو مہاراجا ہری سنگھ اور بھارت کی حکومت کے درمیان معاہدہ
ہوا تھا جس میں یہ طے پایا تھا کہ کشمیر کو آئینی طور پر خصوصی حیثیت دی
جائے گی‘اس کو مدِنظر رکھتے ہوئے 17 اکتوبر 1949 کو آرٹیکل 370 نافذ کردیا
گیا حالانکہ اس وقت بھارت کا وفاقی آئین ابھی تیاری کے مراحل میں تھا جو
بعد ازاں 26 جنوری 1950 کو نافذ ہوا اور اسی کی مناسبت سے بھارت میں ہر سال
26 جنوری کو ری پبلک ڈے منایا جاتا ہے۔
بھارت کے آئین میں کشمیر کے حوالے سے دو بنیادی آرٹیکل شامل تھے جن میں
آرٹیکل وَن کہتا ہے کہ جموں وکشمیر بھارت کی ایک ریاست ہے اور دوسرا آرٹیکل
370 تھا جس کی حیثیت عارضی قرار دی گئی تھی لیکن وہ مقبوضہ ریاست کو خصوصی
حیثیت دیتا تھا‘14 مئی 1954 کو ایک صدارتی آرڈیننس نافذ کیا گیا جس کو دی
کانسٹی ٹیوشن ایپلی کیشن ٹو جموں و کشمیر 35 اے کا نام دیا گیا اور بھارتی
آئین میں شامل کردیا گیا‘ اس وقت بھارت کے صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد
تھے۔آرٹیکل 35 اے کے تحت جموں و کشمیر کو بھارت کی دیگر ریاستوں کے شہریوں
کو کشمیر میں مستقل شہریت سے محروم کردیا گیا اور اسی کے تحت واضح کیا گیا
تھا کہ مقبوضہ کشمیر کا مستقل شہری کون ہے اور کون زمین خرید سکتا ہے۔
بھارت نے 17 نومبر 1956 ء کو جموں و کشمیر کا آئین نافذ کیا تھا اور آرٹیکل
35 اے کو اس کا حصہ بنایا گیا‘ جموں و کشمیر کا آئین بھی ریاست کو بھارت کا
حصہ قرار دیتا ہے‘بھارتی حکومت نے 1990 ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں آرمڈ
فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ لاگو کیا تاہم نمائندہ جماعتوں کے بائیکاٹ کے
باوجود ریاستی انتخابات ہوتے رہے اور بھارت نواز جماعتیں انتہائی کم ٹرن
آؤٹ کے باوجود انتخابات جیتنے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت کرتی رہیں۔
دونوں ممالک کشمیر پر تین جنگیں لڑچکے ہیں جن میں 1947ء کی جنگ‘ 1965ء کی
جنگ اور 1999ء کی کارگل جنگ شامل ہیں 1971 کی جنگ بنگال کی وجہ سے ہوئی
تھی۔سولہ مارچ 1846 انگریز نے 75 لاکھ کے عوض کشمیر گلاب سنگھ ڈوگرہ کو
فروخت کیا‘امرتسر معاہدہ.پھر اس کا بیٹا زنبیر سنگھ جانشین بنا۔پھر پرتاب
سنگھ جانشین بنا‘افیون کا نشۂ کرتا تھا۔ کرکٹ کھیلنے کا شوقین تھا۔پھر امر
سنگھ کا بیٹا ہری سنگھ سازش سے جانشین بنا‘حکیم نور دین جو مرزا قادیانی کا
دست راست اور سرکاری حکیم تھا اس سازش میں پیش پیش تھا۔ یہ قادیانی سازش کی
پہلی فتح تھی۔ قادیانی کشمیر میں الگ ریاست کے خواہاں تھے۔ہری سنگھ 1925
ءمیں گدی نشین بنا جسے قادیانی حمائت حاصل تھی‘مسلمانوں پر ظلم و استبداد
شروع ہوا1929 میں شیخ عبد اللہ نے ریڈنگ روم تنظیم اور اے آر ساغر نے ینگ
مینز مسلم ایسوسی ایشن بنائی۔
1931 میں پہلی مسجد ریاسی میں شہید ہوئی‘کوٹلی میں نماز جمعہ پر پہلی بار
پابندی لگائی گئی۔ ایک ہندو کانسٹیبل نے قرآن کی بے حرمتی کی‘عبدالقدیر
نامی مسلمان نے بے مثال احتجاجی جلسے کیے‘ جو گرفتار ہوا پھر مسلمانوں کا
قتل عام شروع ہو گیا۔ 13 جولائی کو شہدائے کشمیر ڈے اسی قتل عام کی یاد میں
منایا جاتا ہے۔ اس طرح تحریک آزادی کشمیر 1931 میں مکمل شروع ہوئی۔
25 جولائی 1931 میں فئیر ویو منزل شملہ میں ایک میٹنگ میں آل انڈیا کشمیر
کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ جس کی صدارت قادیانی مرزا بشیرالدین محمود نے کر
ڈالی‘یہ مرزا قادیانی کا بیٹا تھا۔ یہ پھر قادیانی فتح تھی‘ اس نے سازش کر
دی کہ تمام مسلمان قادیانی کے نبی ہونے کو مان چکے ہیں اسی لیے مرزا بشیر
کو صدر منتخب کیا۔ سب مسلمان فورا اس کمیٹی سے دستبردار ہوئے‘عطائاللہ شاہ
بخاری فورا کشمیر بھیجے گئے۔ بڑی مشکل سے مسلمانوں کو اس سازش سے نکالا.
علامہ اقبالؒ مجلس احرار کے سرپرست بنے اور بشیر قادیانی کی سازش ناکام کی۔
14 اگست 1931 پہلی بار کشمیر ڈے منایا گیا۔اکتوبر 1931 میں علامہ اقبالؒ کی
سرپرستی میں مسلمان وفد مہاراجا ہری سنگھ اور اس کے وزیر اعظم ہری کرشن کول
سے مذاکرات کے لیے ملے‘مذاکرات ناکام ہوئے‘سیالکوٹ سے کشمیر چلو کشمیر چلو
تحریک چلی‘ یوں تحریک آزادی باقاعدہ 1931 میں شروع ہوئی‘مسلمانوں کا دوسرا
مجاہد دستہ جہلم سے میر پور کی طرف روانہ ہوا‘تیسرا دستہ راولپنڈی کے تیس
نوجوانوں پر مشتمل تھا جو قرآن پر قسم اٹھا کر نکلے کہ کوہالہ پل بند کر کے
رہیں گے‘پھر اس جنگ کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے نومبر 1931 میں سر بی جے
گلینسی کی صدارت میں کمیشن بنا۔
1933 میں سری نگر پتھر مسجد میں جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی
گئی۔ شیخ عبد اللہ اس کے صدر اور چوہدری غلام عباس اس کے جنرل سیکرٹری
بنے‘اس وقت خطہ کشمیر کے سب سے زیادہ حصے یعنی 101،387 مربع کلومیٹر پر
جبکہ پاکستان 85،846 اور چین 37،555 مربع کلومیٹر پر قابض ہیں۔آزاد کشمیر
کا 13،350 مربع کلومیٹر (5134 مربع میل) پر پھیلا ہوا ہے جبکہ شمالی علاقہ
جات کا رقبہ 72،496 مربع کلومیٹر (27،991 مربع میل) ہے جو گلگت اور بلتستان
پر مشتمل ہے۔ تقسیم ہند سے قبل بلتستان صوبہ لداخ کا حصہ تھا اور اس کا دار
الحکومت اسکردو لداخ کا سرمائی دار الحکومت تھا۔
بھارت کی ماضی کی حکومتوں‘ چاہے کانگریس ہو یا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے
پی)‘ نے اپنے آئین کے آرٹیکل 35 اے اور 370 کے تحت کشمیر کی متنازع حیثیت
کو کبھی نہیں چھیڑا‘ یہ الگ بات ہے کہ مقبوضہ علاقے میں فوج‘ پولیس اور
دیگر نوعیت کے ظلم و ستم بدستور جاری رہے لیکن کشمیریوں کی خصوصی حیثیت ختم
نہیں کی گئی مگر 2019 میں نریندر مودی کی حکومت نے وزیر داخلہ امیت شاہ کی
سرکردگی میں اس تار کو بھی چھیڑا دیا اور 5 اگست کو 80 لاکھ سے زائد آبادی
کا حامل یہ خطہ متنازع طور پر تقسیم کرکے رکھ دیا گیا‘ جہاں تعلیمی ادارے
مسلسل بند ہیں‘ غذائی اجناس کی صورت حال سے دُنیا ناواقف ہے‘ہسپتالوں میں
ڈاکٹر نہیں بلکہ وہاں پر بھارتی فوج کا بسیرا ہے‘کسی کو نہیں معلوم لیکن
پاکستان سمیت پوری دُنیا کو یہ معلوم ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اسلحے کے زور
پر ظلم و جبر کا نیا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ ہزاروں فوجی اہلکار ہر وقت
گلیوں میں گشت کر رہے ہیں اور علاقے میں کسی بھی قسم کے احتجاج یا اجتماع
کی بھنک پڑنے پر فوری کارروائی کاآغاز کر دیتے ہیں۔وادی کشمیر میں نماز
عیدبھی نہیں ادا کرنے دی گئیں۔
نہتے کشمیریوں کو خاک و خون میں نہلا دیا جاتاہے۔ حوازادیوں کی عصمتوں کے
آبگینے پاراپارا کیے جا رہے ہیں۔ حریت پسندوں کو قید و بند کی صعوبتوں سے
گزارنے کے ساتھ ساتھ ان پر قہروہولناکی کے آتش فشاں برسائے جا رہے ہیں۔وہاں
قائم کیے گئے عقوبت خانے ہٹلر اور چنگیز خان کے مظالم کو شرما رہے ہیں۔
زندہ انسانوں کو شکنجوں میں کس کر ان کا بند بند ہتھوڑوں سے توڑا جاتا
ہے۔ناخن کھینچے جاتے ہیں‘ سروں اور داڑھیوں کے بال نوچے جاتے ہیں۔آج کشمیر
وقت کی نوک قلم سے ٹپکنے والا لہو رنگ سوالیہ نشان ہے۔ بلاشبہ یہ کرہ ارض
پر عصر ِ حاضر کا سب سے بڑا اندوہناک المیہ ہے۔
جہاں ایک طرف بھارتی سامراج کے ظلم و تشدد کا آتش فشاں دہکا ہوا ہے وہیں
اہلِ کشمیر کا جذبہ بھی لائقِ دید ہے۔ وہ جرات و ہمت کی نئی داستانیں رقم
کرنے کے لیے میدان ِ عمل میں نکل آئے ہیں۔آج کشمیر میں ہر گھر مورچہ ہے تو
ہر گلی میدان ِ جنگ۔ کشمیر کے ہر گھر میں شہیدوں کے لہو سے چراغاں کیا جا
رہاہے۔اہلِ کشمیر کسی بھی قسم کی بیرونی امداد کے بغیر اپنی جنگ خود لڑ رہے
ہیں۔ ان کے ارادے عظیم ہیں اور حوصلے فراخ۔وہ اپنے ہی لہو میں ڈوب کر
آزادیکشمیر کا پرچم لہرا رہے ہیں۔ بھارتی قاتل افواج کشمیر پر اپنا خونی
پنجہ گاڑھے ہوئے ہیں لیکن آزادی پسند مجاہدین کے ہر سانس سے ”کشمیر بنے گا
پاکستان“ کی صدائیں ابھر رہی ہیں۔ بارگاہِ خداوندی میں اٹھتے ہوئے ہاتھ
پکار رہے ہیں:پنجہ ظلم و جہالت نے برا حال کیا‘بن کے مقراض ہمیں بے پروبال
کیا‘توڑ اس دستِ جفا کیش کو یا رب جس نے‘روح ِ آزادی کشمیر کو پامال کیا۔
ایک پرندہ بھی قفس سے آزادی چاہتا ہے تو ایک کروڑ سے زائد کشمیریوں کے لیے
آزادی کیوں نہیں؟تقسیم ہند کے وقت ہندوستانی حکومت نے ناجائز طریقے سے
کشمیر پر قبضہ جمالیااور آج تک وہاں کے لوگوں کو حقِ خود ارادیت نہیں دیا
گیا۔ 1948کی جنگ ِ آزادی میں جب ہندو سامراج نے کشمیر کو ہاتھ سے نکلتے
دیکھا تو اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اقوامِ متحدہ کی طرف
رجوع کیا۔ 1948اور پھر 1949کی قراردادوں میں سلامتی کونسل نے واضح طور پر
اعلا ن کیا کہ کشمیر کے عوام سے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے پوچھی
جائے گی کہ وہ کس ملک کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ ہندوستان چاہے جتنا لیت و
لعل سے کام لے لیکن وہ اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ پنڈت نہرو
نے اپنی پارلیمنٹ میں خود یہ اعلان کیا تھا کہ ”اگر آزادانہ رائے شماری کے
حوالے سے کشمیریوں نے ہمارے خلاف فیصلہ دیا تو بھی ہم قبول کر لیں گے“۔ مگر
وہ دن اور آج کا دن ہندوستان بڑی بے شرمی کے ساتھ کشمیریوں پر مظالم جاری
رکھے ہوئے ہے۔
یہ جنت نظیر وادی بھارتی سامراج کے ہاتھوں پامال ہے۔ یہاں کے لالہ زار اپنی
سرخی کھوکر شہیدوں کے خون سے لالی حاصل کر رہے ہیں۔ بے شمار مظلوموں اور
پنجہ استبداد میں تڑپنے والوں کی آہیں عرشِ الہی کا طواف کر رہی ہیں‘ یہ
سارا منظر اگرچہ دل دہلا دینے والا ہے لیکن اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو
یہی صبح ِ آزادی کی تمہید اول ہے۔
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے‘کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی
ہے سحر پیدا‘کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان میں تنازعے کی اہم ترین وجہ
ہے اور اس تنازعے کا واحد حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تناظر میں
کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنا ہے۔پاکستان اور بھارت دونوں
جوہری طاقتیں ہیں جو کشمیر کے آزادی اور خود مختاری کو بامسئلہ کشمیر دُنیا
کے خطرناک ترین علاقائی تنازعات میں سے ایک شمار کرتے ہیں۔ 5 اگست2019ء سے
آج تک کشمیر میں انسانی حقوق کا چراغ گل ہے‘ روشنیوں کے اس خطے میں جبر کی
گھنگور گھٹائیں تڑ تڑا رہی ہیں۔اور اقوام عالم خاموش تماشائی ہے۔
|