#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالفُرقان ، اٰیت 45 تا 52
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
الم
تر الٰی ربک
کیف مدالظل و
لو شاء لجعله ساکنا ثم
جعلناالشمس علیه دلیلا 45
ثم قبضنٰه الینا قبضا یسیرا 46 وھو
الذی جعل لکم الیل لباسا و النوم سباتا و
جعل النھار نشورا 47 وھوالذی ارسل الریٰح بشرا
بین یدی رحمتهٖ وانزلنا من السماء ماء طھورا 48 لنحیی
بهٖ بلدة میتا و نسقیه مما خلقنا انعاما و اناسی کثیرا 49 ولقد
صرفنٰه بینھم لیذکروا فابٰٓی اکثرالناس الّا کفورا 50 و لو شئنا لبعثنا
فی کل قریة نذیرا 51 فلاتطع الکٰفرین و جاھد ھم بهٖ جھادا کبیرا 52
اے ھمارے رسُول ! ھمارے اِس عالَم میں جہالت کے اِس اَندھے کنویں میں رہنے
والے اِن اَندھے لوگوں کے سوا عالَم کے حیوانات و حشرات ہی نہیں بلکہ ساری
اَشیاۓ عالَم بھی ھمارے قوانینِ حرکت و عمل کے مطابق اپنی اپنی حرکت و عمل
میں مصروفِ عمل ہیں ، کیا آپ نے کبھی اِن اَشیاۓ عالَم کے گھٹتے بڑھتے ہوۓ
ساۓ نہیں دیکھے اور آپ نے اِن کے گھٹنے اور بڑھنے کے عمل پر کبھی غور نہیں
کیا کہ اللہ تعالٰی اَشیاۓ عالَم کے ساۓ کو ہر روز کس طرح پھیلاتا ھے اور
ہر روز کس طرح سمیٹ لیتا ھے ، اگر وہ شب و روز کے اِس ساۓ کو اِس کی اِس
حرکت و عمل سے روک دیتا تو سارے عالَم کی حرکت و عمل کا سارا عمل ہی رُک کر
رہ جاتا لیکن اللہ تعالٰی نے عالَم میں ساۓ پھیلانے اور سمیٹنے کے اِس عمل
کو سُورج کے اُفق پر اُبھرنے اور سُورج کے اُفق سے اُترنے کے عمل کے ساتھ
مُنسلک کیا ہوا ھے اور اَشیاۓ عالَم کے یہ ساۓ سُورج کے چڑھنے ڈھلنے کے عمل
کے ساتھ خود بخود ہی گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں اور اللہ تعالٰی نے رات کے اسی
سیاہ ساۓ کو تُمہارے جسم و جان کے لیۓ راحت آمیز اور دن کے اسی سفید ساۓ کو
تُمہارے جسم و جان کے لیۓ حرکت انگیز بنایا ہوا ھے تاکہ تُم تھکاوٹ کے بعد
آرام کر لیا کرو اور آرام کے بعد تازہ دَم ہو کر کارِ حیات میں مصروف ہو
جایا کرو اور یہی تُمہارا وہ مہربان اللہ ھے جو تُم پر بارش برسانے سے پہلے
تُمہارے لیۓ خوشگوار ہوائیں لاتا ھے اور پھر بارش برساتا ھے تاکہ وہ مُردہ
زمین کو زندہ کردے تُم اُس کی اِس رحمت سے راحت پاؤ اور اسی لیۓ ھم اپنے
عالَم کی اَشیاۓ عالَم کو بھی ایک حالت سے دُوسری حالت کی طرف لے کر جاتے
رہتے اور لے کر آتے رہتے ہیں تاکہ تُم اپنی حیات اور ھمارے قانُونِ حیات کی
قدر کرو لیکن تُم میں سے اکثر انسان ھماری اِن نعمتوں کی نا قدری ہی کرتے
رہتے ہیں اور اے ھمارے رسُول ! اگر ھم چاہتے تو ھم انسان کو آنے والے وقت
کی آنے والی خوشی اور آنے والے وقت کے آنے والے خوف کی خبر پُنہچانے کے لیۓ
ہر انسانی بستی میں اپنا ایک ایک ھادی مامُور کر دیتے لیکن ھم نے عالَم کے
ہر گوشے کی ھدایت کے لیۓ عالَم کے ہر گوشے پر صرف آپ کو مامُور کر دیا ھے
اِس لیۓ مقابلے کی اِس جنگ میں آپ مُنکروں کے ساتھ ساتھ چل کر ساتھ ساتھ
رہنے کے بجاۓ ہمیشہ اِن سے آگے آگے رہیں اور آگے آگے رہ کر اِس بڑے عالَم
میں اپنا وہ بڑا جھادِ حیات شروع کر دیں جس جھادِ حیات کا مقصد انسانی سیرت
و کردار میں انقلاب لانا اور انسان کو اِس اَدنٰی دائرہِ حیات سے نکال کر
ایک اَعلٰی دائرہِ حیات تک لے جانا ھے !
مطالبِ حیات و مقاصدِ حیات !
قُرآنِ کریم کی گزشتہ اٰیات کے جس سلسلہِ کلام میں قُرآنِ کریم نے ماضی میں
اللہ تعالٰی کے عذاب سے تباہ ہونے والی جن اَقوام کا ذکر کیا تھا اُس
سلسلہِ کلام کی آخری اٰیت میں اُن اَقوام کے اُن اَفراد کا بھی ذکر کیا تھا
جو عُمر بھر جہالت کے ایک اَندھے کنویں میں رہ کر اندھے ہو جاتے ہیں اور
پھر اپنی اُسی اَندھی جہالت کے اَندھیرے میں رہ کر مرکھپ جاتے ہیں لیکن علم
کی روشنی میں کبھی بھی نہیں آتے ہیں اور اِس کے بعد اِسی سلسلہِ کلام کی
آخری اٰیت میں اِن لوگوں کی ذہنی حالت کا چوپائیوں کے ساتھ موازنہ کر کے یہ
بتایا تھا کہ اِن کم تر شعور کے حامل لوگوں کے مقابلے میں زمین پر چلنے
والے وہ چوپاۓ بھی بہتر شعور کے مالک ہوتے ہیں جن کو اپنے وجُود و جاۓ
وجُود اور اپنی جاۓ خوراک کا علم ہوتا ھے لیکن اِن محرومِ علم و عقل لوگوں
کو تو اپنی اِن بُنیادی ضرورتوں کا بھی مُناسب علم نہیں ہوتا اور اَب اُسی
موازنے کے ضمن میں یہ بتایا جا رہا ھے کہ علم و عمل سے محروم رہنے والے یہ
لوگ حیوانات و حشرات کے مقابلے میں ہی کم تر نہیں ہیں جن کا اُس موازنے میں
ذکر کیا گیا ھے بلکہ یہ لوگ تو عالَم کی اُن بے جان اَشیاۓ عالَم کے مقابلے
میں بھی کم تر ہیں جو بظاہر بے جان نظر آتی ہیں لیکن اللہ تعالٰی کے حُکمِ
اَوّل سے لے کر آج تک اللہ تعالٰی کے قانُون کے مطابق ہی اپنے اپنے دائرہِ
عمل میں رہ کر اپنی اپنی حرکت و عمل میں مصروفِ عمل ہیں اور قُرآنِ کریم نے
اپنی اِس بات کو مزید واضح کرنے کے لیۓ انسان کے سامنے ایک مثال کے طور پر
اَشیاۓ عالَم کے وہ گھٹتے بڑھتے ساۓ پیش کیۓ ہیں جن کو ہر روز ہر انسان
گھٹتے اور بڑھتے ہوۓ دیکھ سکتا ھے اور چونکہ یہ ساۓ سُورج کے اُفق پر
اُبھرنے اور سُورج کے اُفق سے اُترنے کے ساتھ بڑھتے اور گھٹتے ہیں اِس لیۓ
اِس پہلی دلیل و تمثیل میں یہ دُوسری دلیل و تمثیل خود بخود ہی شامل ہو گئی
ھے کہ جس طرح یہ ساۓ اللہ تعالٰی کا پہلا حُکم ملتے ہی تَب سے اَب تک حرکت
و عمل میں مصروف ہیں اسی طرح سُورج بھی روزِ اَوّل سے آج تک اللہ تعالٰی کے
اُسی حُکم کے مطابق حرکت و عمل میں لگا ہوا ھے جو حُکم اُس کی تخلیق کے وقت
اُس کو دیا گیا تھا لیکن انسان کو بار بار اللہ تعالٰی کی اِن قُوتوں اور
قُدرتوں کی یاد دھانی کرائی جاتی ھے اور یہ ہر بار ہر یاد دھانی کو فراموش
کر دیتا ھے ، قُرآنِ کریم اِن پہلی دو دلیلوں کے بعد انسان کو جو تیسری
توجہ طلب دلیل دیتا ھے وہ یہ ھے کہ تُم فضاۓ بسیط میں بننے والے بادلوں پر
غور کرو اور اِن بادلوں سے برستی ہوئی اُن بارشوں پر بھی نگاہ ڈالو جو زمین
پر آتی ہیں تو مُردہ زمین کو زندہ کر جاتی ہیں ، بادلوں اور بارشوں کے اِس
عمل میں تُمہارے لیۓ یہ پیغام ھے کہ جس طرح اللہ تعالٰی کے پھیلاۓ ہوۓ یہ
بادل اور اللہ تعالٰی کی برسائی ہوئی یہ بارش تُمہاری زمین کو زندگی دیتی
ھے اِسی طرح اللہ تعالٰی کی پھیلاۓ ہوۓ وحی کے مہربان ساۓ اور اللہ تعالٰی
برسائی ہوئی وحی کی مہربان بارش بھی تُمہارے مُردہ دلوں اور تُمہاری
پژمُردہ روحوں کو زندہ کرکے اسی طرح قابلِ عمل بنا دیتی ھے جس طرح یہ ہوا و
فضا ، زمین و سمندر ، چاند سُورج اور ستارے و سیارے اللہ تعالٰی کا پہلا
حُکمِ حرکت و عمل ملتے ہی قابلِ عمل بن کر اُس وقت سے آج تک اپنے اپنے
دائرہِ حرکت و عمل میں مصروفِ حرکت و عمل ہیں ، یہ اللہ تعالٰی کا ایک
مُتحرک و فعّال عالمی نظام ھے جس عالمی نظام میں انسان کو شامل کرنے کے لیۓ
اللہ تعالٰی نے اپنے رسُول سے کہا ھے کہ انسان کو اِس حَرکی نظام میں
مُتحرک بنا کر شامل کرنے کی ایک قابلِ عمل صورت یہ ہوسکتی ھے کہ ھم ہر
انسانی بستی میں اپنا ایک ایک ھادی و رہنما مامُور کردیں اور ایک صورت یہ
بھی ہو سکتی ھے کہ ھم آپ کو وہ علم و عمل اور وہ قُدرت و قُوت دے دیں کہ آپ
تنہا ہی اِس عظیم کام کو کر گزریں ، اگر ھم چاہتے تو پہلی قابلِ عمل صورت
کے مطابق ہر انسانی بستی میں اپنا ایک ایک رسُول مقرر کر دیتے لیکن ھم نے
دُوسری قابلِ عمل صورت کو بہتر جانتے ہوۓ آپ کو عالَم کے سارے قَرنوں پر
آنے والے سارے قَرنوں کا رسُول بنا دیا ھے تاکہ آپ اللہ کا قُرآن لے کر سب
سے آگے آگے چلیں اور قرن و اہلِ قرن آپ کی اتباع کریں اور آپ کے پیچھے
پیچھے چلیں ، غور کریں تو اِس سُورت کی اٰیات 51 اور اٰیت 52 کا یہ مضمون
اِس موضوع کا وہ حرفِ آخر مضمون ھے جس کے مطابق سیدنا محمد علیہ السلام
سارے عالَم کے آخری نبی اور آپ پر نازل ہونے والا قُرآن سارے عالَم کا آخری
ھدایت نامہ ھے ؏
کافی یہی ھے دوستو اَب غور کے لیۓ
آپ آخری رسُول ہیں ہر دور کے لیۓ
|