نئے لکھاری اور نوشاد عادل
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
|
تحریر: ذوالفقار علی بخاری
”نوشاد عادل“ بچوں کے لئے معاشرتی، جاسوسی، سائنس فکشن کہانیاں لکھتے ہیں اور خوب ادب اطفال کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نوشاد عادل کی کہانیاں اپنے موضوع کے اعتبار سے بھی منفر د ہوتی ہیں اور پیش کش کے لحاظ سے بھی، جب مزاح لکھتے ہیں تو ہنساتے ہیں اور جب اصلاحی کہانی لکھتے ہیں تو انسان دم بخود ہو جاتا ہے کہ یہ کہاں سے قاری کو کہاں لے آئے ہیں۔
اُن کی کہانیاں ”عبادت“،”سرد جہنم“، ”ڈربہ کالونی“،”کینی بل“، ”جان لیوا“،”جزیرے کے قیدی“،”واحد بھائی کی کہانیاں“ اور ’جادو کی چھڑی“، ”سمندر“ جیسی تصانیف پڑھتے وقت قاری کو تفریح کے ساتھ سوچنے پر بھی مائل کرتی ہیں۔
حیدرا ٓباد سے تعلق رکھنے والے نوشاد عادل کی زندگی میں بے شمار کردار آئے اور گئے،اُن کی کہانیاں بھی اکثر اُن کے اردگرد رہنے والوں کی زندگیوں سے ہی متاثر ہو کر کرداروں کی صورت میں ڈھلی ہیں۔
”نوشاد عادل“ سے میرا گہرا تعلق تب بنا جب میں نے ”نوشادبیتی“ کو پڑھا۔اگرچہ بھارت کے مشہور ترین اداکار دلیپ کمار،شاہ رخ خان، پرویز مشرف، عمران خان اورملالہ یوسفزئی،قدرت اللہ شہاب جیسی ہستیاں اپنی زندگی کے واقعات لکھ چکے ہیں مگر وہ اس قدر کڑوی اور سچ بیتی نہ لکھ سکے جتنا کہ نوشاد عادل نے لکھ دی ہے۔اگر آپ پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ کس قدرتلخ ہے،ہمارے ہاں سچ بولنے کا رواج کم ہے، مگر کھرے اور دل کے صاف نوشاد عادل نے اپنی زندگی کی کتاب کو جب لکھنا شروع کیا تو اُس کے ذہن میں یہی تھا کہ اُس نے ایک نئے انداز کو اپنانا ہے۔
یہی دیکھ لیں کہ”نوشاد بیتی“ میں پہلے جہاں نوشی کے حوالے سے بات ہوتی ہے تو وہ نوشی کو مکمل طور پر بے نقاب کر دیتا ہے اور جب نوشاد عادل سامنے آتا ہے تو مزید شخصیت کھل کر سامنے آتی ہے،یعنی“نوشاد بیتی“ نوشاد عادل کو سمجھنے میں مدددیتی ہے۔ ”نوشا دبیتی“پاکستان کے ادب اطفال کے ایک ایسے ادیب کی خود نوشت ہے جو اپنے آپ کو ”سمجھ سے بالا تر“ قرار دیتا ہے۔راقم السطور کے نزدیک اُن کایہ کہنا بے جا نہیں ہے کہ اُن کی آپ بیتی ”نوشاد بیتی“ میں بیان کردہ کئی ایسے واقعات ہیں،جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ اُن کی سوچ کو لوگ ٹھیک طور پر نہیں جان سکے اور انہوں نے ”ہیرے جیسے انسان“ کو خود سے دور کرلیا۔
یہاں حیر ت زدہ بات یہ ہے کہ جن ہستیوں نے ”نوشاد عادل“ کو اپنی زندگیوں سے دور کیا ہے وہ گہرے نقصان میں رہے ہیں اگرچہ وہ اس بات کا برملا اظہار نہیں کرتے ہیں مگر وہ اپنے ضمیر کی عدالت میں اس بات سے انکار نہیں کریں گے کہ انہوں نے واقعی نقصان اُٹھایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ”نوشاد عادل“ ایک ایسا ادیب ہے جس کی سوچ دنیا والوں کی سوچ سے یکسر الگ ہے۔یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ لوگ اُن کے اندر کے انسان کو کبھی ٹھیک سے جان ہی نہیں سکے ہیں وہ جو خودداری دینا چاہتا تھا وہ کوئی لینے کو تیار ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نئے لکھاریوں کو ”نوشاد عادل“ کی طرف سے حوصلہ افزائی ملنا شروع ہوتی ہے تو پھر وہ خود کو خوش نصیب تصور کرتے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ارد گرد ہمیشہ سے یہی دیکھا ہوتا ہے کہ چندنامور لکھنے والے محض دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ نوجوان لکھاریوں کی خوب حوصلہ افزائی کرتے ہیں مگر درحقیقت وہ اُن کو منزل سے پیچھے لے جانے یا گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دل چسپ بات یہ ہے کہ کچھ ایسے لوگ جو اندھی تقلید کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں وہ پھر جب منزل سے دور ہو جاتے ہیں تو سمجھ آتی ہے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔
”نوشاد عادل“ کی ذات سے جتنا فائدہ آج نئے لکھاری حاصل کر رہے ہیں شاید ہی ماضی میں کسی اور ادیب کی بدولت نئے لکھاریوں کو حاصل ہوا ہے۔ یہ بات شاید بہت سے لوگوں کو ہضم نہیں ہوگی کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے مگر یہ حقیقت ہے اور آپ اس سے انکار نہیں کر سکتے ہیں۔
”اکمل معروف“ کی یہاں مثال سامنے رکھنا چاہوں گاکہ وہ پہلے بھرپور طور پر ادب اطفال رسائل کے لئے نہیں لکھ رہے تھے مگر جب ان کی ملاقات ”نوشاد عادل“ سے ہوئی اور انہوں نے اکمل معروف کی اس طرح سے رہنمائی کی وہ محض چند برسوں میں ہی ادب اطفال کا ایک ایسا اُبھرتا ہواستارہ بن کر سامنے آئے ہیں جن کی خدمات کو کبھی بھی مستقبل کا مورخ نظر انداز نہیں کرے گا۔”عارف مجید عارف“ صاحب اگرچہ برسوں قبل لکھتے رہے ہیں مگر پھر ایسا ہوا کہ وہ لکھنا چھوڑ گئے مگر ان کی جب ملاقات ”نوشاد عادل“ سے ہوئی تو انہوں نے اس قدر رہنمائی اورحوصلہ افزائی کی کہ انہوں نے آج ایسا قلم تھاما ہے کہ یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے برسوں سے لکھ رہے ہیں۔راقم السطور کو بھی بھرپور طور پر ادبی دنیا میں اُجاگر ہونے میں ان کی مسلسل رہنمائی شامل ہے، اسی طرح سے کئی دیگر ادب اطفال لکھاری فیض یاب ہو چکے ہیں جو کہ ان کی ذات کو دیگر ادبیوں سے الگ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایسا شخص ہے جو کامیابی کی منزل کی جانب نہ صرف خود چلتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی مائل کرتا ہے کہ وہ بھی انفرادیت کے ساتھ کامیابی حاصل کریں۔
”نوشاد عادل“ نے دراصل شروع سے ہی ایسا مزاج پایا ہے اور زندگی کے سرد و گرم حالات دیکھے ہیں کہ وہ اب بخوبی جانتے ہیں کہ کوئی کس حالت میں کیا سوچ سکتا ہے اور وہ چونکہ خود مشکل وقت دیکھ آئے ہیں تو نئے لکھنے والوں کی خوب پذیرائی کرتے ہیں۔اپنی زندگی میں تو سب کچھ نہ کچھ کرتے ہیں مگر اپنی زندگی میں سے وقت نکال کر کسی اور کی زندگی کو سنوارنا کم اہمیت کا حامل نہیں ہوتا ہے اور نوشاد عاد ل کی ذات میں بھی کچھ ایسی خصوصیات ہیں جو آج کل کے ادیبوں میں کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔جس طرح سے وہ خود اپنی ذات میں سچائی پسند ہیں وہ چاہتے ہیں کہ نئے لکھاری بھی اسی طرح سے سچ کے علم کو اُٹھائیں اور اپنی ذات کی کمزوریوں کو جانیں اور اپنی ذات کو اُوپر لے کر جائیں۔ وہ یہ نہ دیکھیں کہ کون کیا کہہ رہا ہے،بس اپنی منزل اور کام پر توجہ رکھتے ہوئے آگے بڑھتے جائیں۔
”نوشاد عادل“ اپنی خود نوشت ”نوشاد بیتی“ میں ایک جگہ ایک قصہ لکھتے ہیں جو کہ ایک معروف لکھاری کی تحریر کو ناقابل اشاعت قرار دینے کے حوالے ہے،یہ پڑھ کر آپ بھی داد دیں گے کہ انہوں نے تمام ترخطرات کو مول لیتے ہوئے یہ جرات دکھائی تھی جو کہ آج کے مدیران کے لئے بھی ایک مثال ہے کہ اگر آپ کے نزدیک کچھ ایسا ہے جو ناقابل اشاعت ہے تو پھر آپ کو اُس کہانی کو روک لینا چاہیے مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ کہانی پھر بھی شائع ہو گئی تھی۔
یہ واقعہ بھی نوشاد عادل کی شخصیت کو کھل کر سامنے لے آٹا ہے کہ و ہ جو بولتا ہے،دل سے بولتا ہے اور پھر نتائج کو بھی قبول کرتا ہے۔یہ ہمارے نئے لکھاریوں کے ساتھ ساتھ دیگر افراد کے لئے بھی مثال ہے کہ اگر آپ زندگی میں کچھ ایسا کرنا چاہ رہے ہیں جو کہ آپ کے نزدیک ٹھیک تو پھر آپ کو نتائج کی پروا کئے بنا کرلینا چاہیے کہ آپ جب ضمیر کی نہیں سنتے ہیں تو پھر ضمیر کی عدالت میں آپ کو کھڑا ہونا پڑے گا اور شاید تب آپ اپنا سامنا نہ کر سکیں۔
نوشاد عادل اپنی ضمیر کی عدالت میں فخر سے کھڑا ہو سکتا ہے کہ اُس نے نئے لکھاریوں کی بھرپور طور پر حوصلہ افزائی کرنے اور جو کچھ ادب سے حاصل کیا ہے اُسے لوٹانے میں کبھی بھی کنجوسی سے کام نہیں لیا ہے۔ اس طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ”نوشا دعادل“ کی ذات نئے لکھاریوں کے لئے ایک مثال بھی ہے کہ اگر آپ نے کامیابی حاصل کرنی ہے تو انہی کی مانند کچھ دینا اور دوسروں کو ساتھ لے کر چلنا ہے کہ یہی ادب کی خدمت کی معراج ہے۔ |