اِنسان کی بُنیادی ”خوبی“ یہ ہے
کہ کسی بھی معاملے میں اگر کچھ ٹھان لے تو اچھے بھلے کام کو بگاڑ کر ہی دم
لیتا ہے! ”تحقیق“ کا شعبہ اِس نکتے کو دم بہ دم درست ثابت کر رہا ہے۔ ہر
دور میں کام بنانے سے زیادہ بگاڑنے والوں کے دَم سے دُنیا کے بازار میں
رونق میں اضافہ ہوتا رہا ہے! روشنی کی وقعت بڑھانے میں اُن کا کردار سب سے
اہم ہے جو تاریکی کو محکم تر کرنے کے لیے سرگرم و سرگرداں رہے ہیں! اکیسویں
صدی کا انسان کچھ زیادہ ہی ہٹ دھرم ثابت ہوا ہے۔ جو کچھ سراسر نقصان دیتا
ہے اُسی کو بڑے خلوص کے ساتھ اور ماہرانہ مشوروں کی مدد سے اپنایا جاتا ہے
اور پھر اُس کا خمیازہ بھی خاصے اہتمام سے، ہنستے ہنستے ”سیلیبریٹ“ کرتا ہے!
ہر معاملے کو ایونٹ میں تبدیل کرنے کی ذہنیت اِتنی تیزی سے پروان چڑھی ہے
کہ اب لوگ خوشی کے ساتھ ساتھ ”غمی“ کو بھی صرف سیلیبریٹ نہیں، انجوائے بھی
کرنے لگے ہیں!
پاکستان بھی دُنیا میں ہے اور دُنیا کے اصول ہم پر بھی اِطلاق پذیر ہیں۔
کام کو سُلجھانے کے نام پر مزید الجھانے والی اشیاء اور ”ٹیکنالوجیز“
متعارف کرانے میں ہمارا بھی کوئی ثانی نہیں! بحیثیت قوم ہم نے ایسی بہت سی
چیزیں متعارف کرائی ہیں جو خرابیوں کو مستحکم کرنے کی تگ و دَو میں مصروف
رہتی ہیں۔ کچھ یہی حال یومیہ بچت بازاروں کا بھی ہے!
ایک زمانہ تھا جب پاکستانی ثقافت کی بات کیجیے تو خاصی شائستہ چیزیں ذہن کے
پردے پر جلوہ گر ہوتی تھیں۔ لباس، رہن سہن اور خورد و نوش کے معاملات کی
نفاست ہماری ثقافت کے بنیادی اجزا تھے۔ خیر سے وہ زمانہ تو رخصت ہوا اور اب
نفاست اور معیار کو ترستی آنکھیں رہ گئی ہیں۔ پاکستانی ثقافت میں اب سجی
ہوئی ویگنوں اور ٹرکوں، ون وھیلنگ، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر مبنی
مناظر کے ساتھ ساتھ بچت بازار بھی نمایاں ہیں۔ اِن بچت بازاروں میں بچت تو
خیر کیا ہونی ہے، بہت سی ”شوکن میلے دی“ اپنا شوق پورا کرلیتی ہیں! ایک
زمانے سے خواتین کو یہ شکایت تھی کہ مرد تو دنیا بھر میں گھوم پھر لیتے
ہیں، خواتین بے چاری کہاں جائیں؟ لیجیے، خواتین کی خواہش پوری ہوئی اور
کتنی عمدگی سے پوری ہوئی کہ مرد بے چارے بس سڑک ناپتے ہی رہ گئے اور خواتین
سیر سپاٹے کے اسٹاپ پر پہنچ کر خیمہ و خندہ زن ہیں!
کبھی کبھی تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ بچت بازار جھاڑ پھونک اور دَم کے ماہر
ہیں۔ مگر شاید اِنہیں ابھی پوری طرح دَم کرنا آیا نہیں اِس لیے صرف ناک میں
دَم کر رہے ہیں! کراچی جیسے بڑے شہروں میں موٹر سائیکلوں، ٹھیلوں،
ریستورانوں، پکوان سینٹرز اور موبائل مالز کی طرح اب بچت بازار بھی پیروں
میں آ رہے ہیں! دو قدم چلیے اور رک جائیے کیونکہ کوئی نہ کوئی بچت بازار
اڑیل بھینسے کی مانند آدھی سڑک کو گھیرے ہوئے اسپیڈ بریکر کا کردار ادا کر
رہا ہوتا ہے! آپ میں شاید اب تک وسیع النظری پیدا نہیں ہوئی اِس لیے قناتوں
اور شامیانوں پر مشتمل کوئی بچت بازار دیکھ کر بھی اندر جھانکنے کی زحمت
گوارا نہیں کرتے۔ ذرا اُن خواتین کی کشادہ دلی اور اعلیٰ ظرفی دیکھیے جو ہر
بچت بازار کو عزت اور رونق بخشتی ہیں! اگر یہ خواتین دل چھوٹا کرلیں اور
قدم گھر سے باہر رکھنے کی قسم کھالیں (جو ازل سے ناممکن ہے!) تو پھر دیکھیے
کہ شہر کیسا اُجڑا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بچت بازار قائم ہی اُن خواتین کے
دَم سے ہیں جنہوں نے ہر بازار کی خاک چھاننے کی ٹھان رکھی ہے۔ اِن کا عزم
دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب چھاننے کی خواہش اور جذبہ تو
پورے طمطراق کے ساتھ موجود ہوگا مگر اے وائے ناکامی کہ خاک ہی نہ رہے گی!
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
اب آپ سوچیں گے خواتین اگر بچت بازاروں کے چکر کاٹتی ہیں تو اِس میں حیرت
کی کیا بات ہے کہ یہ کام خواتین ہی کا ہے۔ اب مرد تو بازاروں سے خریداری
کرنے سے رہے۔ ٹھیک ہے، مگر بھئی کسی بھی چیز کی ایک حد تو ہونی چاہیے۔ آپ
سوچیں گے اِس ملک میں پہلے کون سی کسی چیز کی حد ہے تو بچت بازاروں کے چکر
کاٹنے کی حد مقرر کی جائے! ہوسکتا ہے آپ یہ بھی سوچیں کہ بچت بازاروں میں
مٹر گشت کی بھی کوئی نہ کوئی حد قدرت نے ضرور مقرر کی ہوگی تاہم وہ حد ابھی
آئی نہیں!
بعض خواتین کے لیے بچت بازار زندگی کی بنیادی ضرورت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُن
کی کوشش ہوتی ہے کہ پھیپھڑوں میں آکسیجن بھی وہی جائے جو بچت بازار کی
فضاءمیں پروان چڑھی ہو! بعض خواتین دل کی بات کسی کو بتائے بغیر قرار نہیں
پاسکتیں، بالکل اُسی طرح بہت سی خواتین بچت بازاروں کی خاک چھانے بغیر
سُکون کا سانس نہیں لے سکتیں۔ اور یہ یومیہ معمول ہے یعنی ہفتے کے ہر دن کا
ایک بچت بازار اور بھرپور باقاعدگی اور پابندی سے اُس کی سیر! اِسے کہتے
ہیں اولوالعزمی اور ثابت قدمی! بہت سے سرکاری اور سیکورٹی اہلکاروں کو ثابت
قدمی، مستقل مزاجی اور وقت کی پابندی سِکھانے کے لیے بچت بازاروں کے چکر
لگوانے چاہئیں!
بہت سے مرد یہ سوچ سوچ کر پاگل ہوچکے ہیں کہ بچت بازاروں میں ایسا کیا ملتا
ہے جسے خریدنے کے لیے خواتین اُتاؤلی اور باؤلی ہوئی جاتی ہیں۔ لگتا ہے کہ
مردوں کے پاس اب کوئی مصروفیت رہی نہیں۔ ارے بھئی، تاریخ کے کس دور میں
خواتین کچھ خریدنے کی نیت سے بازار جاتی رہی ہیں؟ کیا یہ اچھی بات ہے کہ
کوئی اِس دنیا میں آئے اور اِس کی سیر کئے بغیر ہی چل دے! ایسی روش کو
کفران نعمت ہی کہا جائے گا۔ بازار کی رونقیں دُنیا کی رنگینی کا تعارف
کراتی ہیں۔ بازار کی سیر کے ساتھ ساتھ کچھ خریداری بھی کر ہی لی جاتی ہے
جسے بونس سمجھنا چاہیے! خواتین کا بازار جانا اگر خریداری کی نیت سے ہوا
کرتا تو ہفتے میں ایک دن کا بچت بازار کافی تھا یعنی ہفتہ ایک دن کا ہوا
کرتا! آپ کو یاد ہوگا، مرزا غالب فرما گئے ہیں
مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو
اِک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
یعنی یہ کہ خواتین کوئی خریداری کے لیے بچت بازار تھوڑی جاتی ہیں۔ یہ تو بس
مزاج اور سرشت کا معاملہ ہے۔ جب معاملہ سرشت کا آ جائے تو کوئی کچھ نہیں
کرسکتا۔ یہی حال بہت سی خواتین اور بچت بازاروں کا ہے۔ یہ تو بس ایک
لاشعوری عمل ہے، یعنی بچت بازاروں کے چکر کاٹنے کا شعور سے کوئی تعلق نہیں!
جس طرح پوری قوم لاشعوری کیفیت کے ساتھ جی رہی ہے، خریداری سے متعلق خواتین
کی بیشتر سرگرمیاں بھی شعور سے یکسر عاری ہیں!
گورے اگر ہمارے قومی مزاج پر جامع تحقیق کا بیڑا اٹھائیں تو اُن کی نصف
محنت تو بچت بازاروں کی نذر ہو جائے گی! اور باقی نصف کا بڑا حصہ بھی ایسی
خواتین پر نچھاور ہو جائے گا جنہیں خاصے محتاط الفاظ میں ”شوکن میلے دی“ ہی
کہا جائے گا! جوگیوں، صوفیوں اور فلسفیوں نے دُنیا کو میلہ قرار دیا ہے۔
اُن کی نظر میں یہ دُنیا بس یونہی سرسری گزر جانے کا مقام ہے۔ اِس نکتے کو
اگر کسی حد تک سمجھا ہے تو بس خواتین نے سمجھا ہے۔ وہ بچت بازاروں کی سیر
کے ذریعے اِس دنیا کو فانی قرار دیتے ہوئے یہ پیغام دے رہی ہیں کہ دُنیا کا
میلہ بس آج ہی آج ہے، جی بھر کے سیر کرلو، کل سارے ”ٹِھیے“ اُٹھ جائیں گے!
ہمارے معاشرے میں تفریحی مقامات کم کم ہیں۔ ایسے میں بچت بازاروں کا دَم
غنیمت ہے کہ خواتین پَکّی چار دیواری سے نکل کر قناتوں اور شامیانوں کی چار
دیواری کچھ وقت گزار کر دل کا بوجھ ہلکا کرلیتی ہیں۔ سہیلیوں سے ملاقات کے
ساتھ ساتھ آلو چھولے کی چاٹ اور فالودے کا گلاس!
اور جینے کو کیا چاہیے!
غریبوں کی تو بس یہی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں۔ مرزا تفصیل بیگ نے جب سنا کہ
ہم بچت بازاروں پر قلمی گولہ باری کرنے والے ہیں تو پلک جھپکتے میں نازل
ہوئے اور ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعے اِس ارادے سے باز رہنے کا حکم دیا۔ موصوف کا
استدلال یہ تھا کہ اگر ہفتے میں سات بازاروں کی سیر سے خواتین کو ذہنی
سُکون ملتا ہے اور اُن کی نفسیاتی حالت درست رہتی ہے تو کسی کو اعتراض نہیں
ہونا چاہیے! ہم نے انہیں سمجھانا چاہا کہ یہاں تو تک بات درست ہے لیکن ان
بچت بازاروں کے باعث گھر کا بجٹ جو بگڑ جاتا ہے اُس کا کیا؟ مرزا نے کمال
شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا ”اماں رہنے دو، جیسے تم کچھ جانتے نہیں۔
بھائی میرے! سب کو معلوم ہے کہ ان بازاروں میں خواتین کیا خریدتی ہیں اور
چاٹ، پکوڑوں، فالودے اور شربت پر مہینے میں تین چار سو خرچ کرنے سے گھر کا
بجٹ کون سا بگڑ جائے گا؟ مرد بھی تو مہینے میں بارہ پندرہ سو کا پان گٹکا
کھا جاتے ہیں!“ مرزا کی یہ بات سن کر ہم تو مبہوت رہ گئے۔ قلم اٹھانا دوبھر
ہوگیا۔ ایسا لگا جیسے بچت بازار کے شامیانے کا بانس مرزا نے ہمارے دماغ میں
گاڑ دیا ہو! |