عبادات اور بصیرتِ زمان و مکان

ہر شخص الگ الگ خصوصیات و ماضی رکھنے کی بنا پر جداگانہ سوچ اور جداگانہ احکام دینی کا متقاضی ہے، کلی طور پر ایک حکم بہت سی جزئیات رکھتا ہے، لہذا ہر شخص کوچاہیے کہ انفرادی دینداری کو بھی سمجھے اور دین کے اجتماعی پہلو کو بھی اہمیت دے۔ استخراج حکم خواہ اجتماعی حوالےسے ہو یا انفرادی ، زمان و مکان اور شخصی کیفیات و صفات کو مدنظر رکھنا اور ان پہلوؤں کے تقاضے ملحوظ خاطر رکھنا اساس حکمت و دانشمندی ہے اور اسی کا نام بصیرت ہے۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
نماز عبادت ہے، روزہ ، حج ، زکوٰۃ اور دیگر فروعات دین بھی عبادت ہیں،
قرآن کی تلاوت، زیارات مقامات مقدسہ، صفائی طہارت، کمزوروں کی مدد، انسانوں سے ہمدردی وغیرہ بھی عبادت ہیں،
اچھی گفتگو، مہربانی، رواداری، صلح و آشتی بھی عبادت ہیں،
جہاد و درشت لہجہ، سختی، قتل بھی عبادت ہے ، مگر کب؟!!
عبادت کی بھرپور شکل وصورت تو وہی ہے جو سیرت رسول ﷺ اور آئمہ معصومین ؑ نے پیش کی، اور انہی کی سیرت میں ہر زمانے اور جگہ کی مناسبت سے الگ الگ احکام و اعمال صادر ہوئے۔۔۔
بظاہر ٹکراتی ہوئی حدیثوں، آیتوں اور سیرت میں بھی وحدانیت، یگانگت اور اتحاد ہے۔۔۔
جب ہدف، مقصد واضح ہو تو راستہ بدل بھی جائیں تو فرق نہیں پڑتا ۔۔۔درست ہدف کے ساتھ راستہ معتدل ہونا مگر جدا ہونا مانع نہیں ہوتا۔۔۔ہر انسان کا اختیار و ارادہ اُس کے علم و دانش اور مسائل و راحت کے ساتھ ہوتا ہے۔۔۔ مگر معصومینؑ اس معاملے میں بھی مشیت اور شریعت پروردگار کے تابع رہتے ہیں، مگر عام انسانوں کا معاملہ الگ ہے۔
کسی کو مشکلات و چیلنج بھاتے ہیں کسی کو تن آسانی اور سہولیات۔۔۔ مگر مقصد پر اتحاد ہونے کے باوجود کوئی دیر سے منزل پاتا ہے کوئی جلدی، کوئی آسانی سے پہنچ جاتا ہے کسی کو رنج و صعوبتوں سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے،
وقت نماز آجائے تو تلاوت قرآن منسوخ قرار پاتی ہے، زیارت وعزاداری، صدقہ خیرات اور دیگر اہم عبادات جب ایک وقت میں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہوں تو ابتدائی اور ثانوی کی تمیز انبیاء و رسل و ائمہ طاہرین سمجھا گئے ہیں،
اسی طرح مسجد میں رفع حاجت کرنا حرام ہے، کھانے کے کمرے میں سونا معیوب ہے، چونکہ مومن کی زندگی کا ہر لمحہ عبادت ہوتاہے لہذا رفع حاجت بھی عبادت ہے، کھانا پینا، سونا جاگنا ، چلنا پھرنا سب عبادت ہے، مگر اپنے خاص وقت اور جگہ پر مناسب ہوتا ہے۔۔۔ جگہ اور وقت کا خیال نہیں رکھیں گے تو بڑی سے بڑی عبادت بھی ترک اولیٰ پر گناہ بن جاتی ہے۔
تلاوت قرآن عبادت ہے، مہمان کو پذیرائی عبادت ہے، والدین سے نیکی عبادت ہے، مگر نماز کے وقت تلاوت گناہ ہے، والدین کی اطاعت اگر اطاعت خداوندی میں رکاوٹ بنے تو حرام ہے، زیارت و نماز و دیگر عبادات اگر اولیت شماریری کے بغیر ہیں اور زمانے و جگہ کے تقاضے نہیں پورے کئے گئے ہیں تو زیادہ ممکن ہے کہ گناہ ہو۔
انفرادیت اور اجتماعیت directly propotional ہیں، انفرادی ایمان و تقوے کے ساتھ معاشرے کے ایمان و تقوے کی نگہداشت یکساں ہونی چاہیے۔ ہر انسان ایک جیسی نفسیات، ایک جیسے حالات، ایک جیسا ماضی اور ایک جیسی زندگی کیفیت کا حامل نہیں ہوتا، لہذا ممکن ہے جو ایک کیلئے واجب ہو دوسرے کیلئے حرام ہو، ایک بالغ شخص کیلئے کچھ عبادت ہو مگر کمسن کیلئے مضرِ ایمان ہو۔ ایک جوان کیلئے کچھ حرام ہو مگر سن رسیدہ کیلئے مایہء حیات ہو۔ ایک پاکستانی کیلئے کچھ عبادت ہو مگر یورپی امریکی کیلئے مضر ایمان ہو۔
جس وقت و حالات میں میدان جہاد میں نماز پڑھنی چاہیے اس وقت مسجد میں نماز پڑھنا حرام ہے، جس وقت میدانِ عمل میں اترنے کی ضرورت ہے اس وقت مدرسہ و یونیورسٹی کی کلاس لینا حرام ہے۔ مومن کی زندگی کا ہر لمحہ عبادت ہے مگر اس وقت تک جب تک زمان و مکان یا شخصی استطاعت کے تناظر میں دیانت داری برتی جارہی ہو۔
ہر آیتِ قرآن، حدیثِ معصوم ؑ نہ تو ہر وقت اور ہر جگہ پر اطلاق ہوتی ہے نہ ہر شخص پر منطبق ہوتی ہے۔ جہاں مہربانی اور رحمت و لطف و کرم مضر ہو وہاں سختی و درشتگی ہی مہربانی اور عاطفت بن جاتی ہے۔
گناہوں پر گریہ و فغاں تذکیہ نفس کا بہترین وسیلہ ہے مگر کیا ہم جانتے ہیں کہ میدان جہاد میں حاضر ہونا تمام گناہانِ صغیرہ و کبیرہ کا کفارہ ہے؟!
میدان جہاد سے فرار تمام عبادات و نیکیوں کو محو کردیتا ہے۔۔۔!!
جب مقصد خدا سمجھ میں آجائے تو اس تک پہنچنے کے راستے بھی پتا چل جاتے ہیں اور ابلیسی راستوں کا الہٰی راستوں سے جدا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ حق و سچائی ، عدل و فضیلت کے معارف سے آشنائی کے ساتھ ظلمت و نجاست کی تاریکیاں بھی نظر آجاتی ہیں۔
الہٰی راستوں کی شناخت کے ساتھ خدائی نمائندے بھی خود بخود شناخت میں آجاتے ہیں اور ساتھ ہی ابلیسی نمائندے بھی شناخت پا جاتے ہیں۔
روشنی خود بخود تاریکی کی وحشت کو دور کردیتی ہے، روشنی سے محبت و عشق کا نتیجہ ظلمت و تاریکی سے نفرت ہے، روشنی دیکھنے کیلئے ہماری بصارت اور آنکھوں میں بینائی ہونا ضروری ہے۔ بینائی کمزور ہو تو عینک کو وسیلہ بنانا پڑتا ہے۔
اگر درست و صحیح وقت اور درست جگہ پر ہم نے روشنی و تاریکی میں فرق کرلیا تب تو بیڑہ پار ہے ورنہ اس اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی خسارہ و افسوس رہ جائے گا۔
عارف زمان و مکان علامہ اقبال کی نظم کا ایک مصرعہ ہے:
یہ نا داں گرگئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا
اپنی استطاعتوں اور قابلیتوں میں اضافہ کیلئے کثرت سے دعائیں اور دوا دارو ہر وقت کرتے رہنا چاہیے اور دوسروں کیلئے بھی اُن کے ظرف، استطاعت اور قابلیتوں اور ہمتوں کو بڑھاتے رہنا چاہیے۔
وقت و زمان اور مکان و جگہ اور شخصی استطاعت کی شناخت ایک بنیادی ترین اصول ہے۔ اس اصول کو ہر لمحہ ذہن میں رکھنا حکمت و دانش ، بصیرت و دانائی کا دامن پکڑ لینا ہے۔ ایک شخص یا قوم اپنی استطاعت کے مطابق ممکن ہے بدر و اُحد و کربلا کے شہداء کے مماثل ثواب و اجر کی حقدار ہو۔۔۔ خواہ وہ گھر میں بیمار پڑا صرف اوراد و وظائف میں ہی مشغول ہو یا کوئی قوم سماجی مسائل کے باوجود اپنی ہمت سے زیادہ جدوجہد کررہی ہو ۔ بظاہر غیر اہم کام ممکن ہے بہت بڑے اجر رکھتے ہوں۔۔۔۔ ضروری نہیں کہ صرف و ہ شخص جو قوم کا دینی لیڈر ہو وہی سب سے زیادہ اجر رکھتا ہو۔۔۔ ہمت و استطاعت سے بڑھ کر محنت و جانفشانی کرنا اخلاص کی دلیل اور دیانت کی نشانی ہے۔ ممکن ہے کوئی عمامہ پہن کر فساد فی الارض کا مرتکب ہو اور ممکن ہے کبھی ایک گمنام مومن فقیہ سے زیادہ مرتبہ رکھتا ہو۔
معیار زمان و مکان کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ہمت و استطاعت سے بڑھ کر عمل کرنا ہے، خواہ کتنا قلیل کیوں نہ ہو۔
خدا ہمیں حکمت و بصیرت کے ساتھ زندگی گذارنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں الہٰی مقاص تخلیق کی تکمیل میں حصہ دار بننے کی استطاعت، توفیق اور ہمت عطا فرمائے، ہماری طاقتوں اور صلاحیتوں میں اضافہ فرمائے اور ہم سب کو روز حشر حوض ِ کوثر پر رسول اکرم ﷺ اور معصومین علیہم السلام کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 94 Articles with 70799 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.