ہم آزاد ہیں

تحریر۔۔۔ ڈاکٹرفیاض احمد
کالی گھٹائیں آسمان کو اپنی لپیٹ میں لئیے ہوئے دن کو رات کے منظر میں بدل رہی تھی پچھلے چند دنوں سے سورج کی شکل دیکھنے کو ترس گئے تھے یکا یک بارش اتنی تیز کہ لندن کی سڑکوں پر پانی جیسے سمندر میں جزیرہ مگر اس موسم طوفانی میں دنیا کے حالات سے باخبر رہنے والوں کے حوصلے پست نہ ہوئے لندن میں بہت زیادہ اخبار پڑھا جاتا ہے فیاض : سٹور کا دروازہ بند کرکے اندر بیٹھا تھا کہ اس طوفانی برش میں کون آئے گا چلو کھانا ہی کھا لیتا ہوں ابھی پہلا نوالا توڑا ہی تھا کہ دروازے پر زور کی دستک ہوئی فیاض :اس طوفانی بارش میں کون ہو سکتا ہے اس طوفان خاموشی میں اٹھ کر جو دیکھا تو ایک بوڑھا انگریز دروازے کے پاس ہاتھ میں چھڑی ،سر پر انگریزی ٹوپی اور بدن پر لمبا کوٹ پہنے دروازہ کھولنے کا اشارہ کر رہا تھا فیاض نے بوڑھے انگریز کی حالت زار دیکھ کر جھٹ سے دروازہ کھولا ۔۔۔۔ہیلو سر ۔۔۔ایسی جان لیوا برسات میں آپ یہاں کیا ایمرجنسی ہے ؟اخبار چائیے تھا اخبار کے بغیر کافی کا مزہ نہیں آ رہا تھا فیاض: سر آپ اپنے کسی بچے کو بھیج دیتے ۔۔۔انگریز: اس عمر میں ومارے بچے ہمارے پاس نہیں ہوتے ۔۔۔۔فیاض: سر آئیں بیٹھیں اور بتائیں کہ آپ اتنی صاف اردو کیسے بول لیتے ہیں۔۔۔انگریز: میرا نام مارٹن بیلیٹن ہے میری پیدائش لاہور پاکستان میں ہوئی میرے والد وہاں کے کلکٹر تھے جب ہندوستان آزاد نہیں تھا اب میری عمر نوے سال ہے اور میں اخباروں میں ناول لکھتا ہوں اور کونسل کے گھر میں رہتا ہوں بس گزارہ چل رہا ہے ایک وہ بھی دور تھا اور ایک یہ بھی دور ہے وقت وقت کی بات ہے بیٹا فیاض وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا ۔۔۔فیاض: سر آپ کلکٹر کے بیٹے اور برطانوی حکومت نے آپ کو کوئی سرکاری گھر یا نوکری نہیں دی کتنی تعجب کی بات ہے ؟ مارٹن: نہیں بیٹا یہاں پر قانون کی پاسداری ہوتی ہے یہ حکومت برطانیہ کا قانون ہے کہ جو ہندوستان میں سرکاری نوکری کرتے تھے اس کو اور اس کے خاندان میں سے کسی کو سرکاری جاب نہیں دیتے۔۔۔۔فیاض: سر وہ کیوں؟ مارٹن: بیٹا وہ اس لئے کہ وہاں پر جاگیرانہ نظام ہے اور یہاں پر کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں ہے یہاں سب برابر ہیں یہاں انسانیت کے حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے اور وہاں تو حقوق ہوتے ہی جاگیرداروں ۔آفیسروں اور وزراء کے چوکھٹ کے غلام ۔۔۔فیاض: سر کوئی واقع سنائیں؟ مارٹن: بیٹا میری عمر لگ بھگ چھ سال تھی بڑی ٹھاٹھ باٹھ تھی نوکر چاکر ، بنگلہ گاڑیاں اور پورے علاقے میں پروٹوکول جہاں جاتے لوگ آگے پیچھے چکر کاٹ رہے ہوتے کہ کہیں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی باپ سے زیادہ تو مجھے اور میری امی کو تو کچھ زیادہ ہی ۔۔۔۔ہمارے تو ہر طرف گارڈز ہی ہوتے تھے بیٹا بڑے مزے کی زندگی گزر رہی تھی لاہور میں دوسرے علاقوں سے لوگ آتے تو مختلف قسم کے فروٹس اور زرعی اجناس بطور تحفہ لاتے ۔۔۔پروٹوکول اور تحائف کی بھرپار نے میرا تو دماغ ہی خراب کر دیا تھامیں تو اپنے آپ کو ایک مغل شہزادہ سمجھ بیٹھا تھا ایک دفعہ ایک نواب نے ملتان میں ہماری دعوت کی میں ،میری بہن ،میری امی اور ابو ہم سب تیار ہو کر بنگلے سے نکلے تو سڑک پر ٹریفک جام ہو گئی اور ہمارے آگے پیچھے سکیورٹی والی گاڑیاں مکمل پروٹوکول کے ساتھ اسٹیشن پہنچے وہاں پر ریل گاڑی ہمارے انتظار میں کھڑی تھی ہمارے لئے ایک خاص کمپاؤنڈ کا اہتمام کیا گیا اور جب بیٹھ گئے تو ریل گاڑی کے انچارج نے گاڑی چلانے کی اجازت مانگی تو میں نے غصے میں بولا کہ ابھی اجازت نہیں ہے ریل گاڑی چلانے کی تو تمام سٹاف میرے آگے پیچھے سر ہم لیٹ ہو رہے ہیں کوئی غلطی ہوئی ہو تو معاف کر دیں برائے مہربانی کرکے ریل گاڑی کو چلانے کی اجازت دے دیں میں کسی بات سننے کو تیار ہی نہیں تھا بلکہ ان پر غصہ ہو رہا تھا میرے مسلسل انکار پر سٹاف نے امی کو درخواست کی امی اور ابو نے پیار سے مجھے سمجھایا اور چاکلیٹ دی تب جا کر میرا غصہ ٹھنڈا ہوا اور میں ریل گاڑی چلانے کی اجازت دی۔۔۔۔فیاض:سر آپ اتنے غصے والے تھے۔۔۔۔۔مارٹن: جی بیٹا ابھی تو وہ بات کہاں رہی میں تو فلمی ہیرو کی طرح زندگی گزارتا تھا لوگ مجھ سے ڈرتے تھے گھر والوں کا لاڈلہ تھا خواب و خیالات بھی بلند تھے جس طرح میرے ابو لاہور کے کلکٹر تھے اسی طرح میں بھی لاہور کا وزیر بننے کا شوق رکھتا تھا اور سارے علاقے کو اپنے دائرہ اختیار میں چلانا چاہتا تھا میں بھی مغل بادشاہوں کی طرح زندگی گزارنا چاہتا تھا میرے خیال میں بڑا سا محل ہو۔۔۔باندیاں ہوں غلام ہوں ۔۔۔شاہی دربار سجائیں جائیں۔۔۔حکم بجا لائے جائیں۔۔۔کنزیں ہوں مگر سب خواب ٹوٹ گئے جب حکومت نے اپنا رخ بدلہ اور ہندوستان آزاد ہو گیا پاکستان اور ہندوستان معرض وجود میں آگیا جتنے بھی انگریز آفیسرز تھے ان کو واپس وطن بوطانیہ بلایا گیا میرے خیالات میں بوطانیہ میں بھی وہی سب ہوگا جو ہندوستان میں تھا ۔۔۔ہم برمنگھم اترے اور ریل گاڑی کے ذریعے لندن آنا تھا اسٹیشن پر بہت رش تھا ابو ٹکٹ خریدنے گئے اور انہیں کافی دیر ہو گئی جس کی وجہ سے میرا موڈ خراب ہو گیا ریل گاڑی وقت مقرر پر روانہ ہوئی نہ کوئی اجازت نہ کوئی پروٹوکول کسی نے ہم کو پوچھا تک نہیں کہ آپ کون ہو اور کمپاؤنڈ بھی نارمل۔۔۔یہ دیکھ کر میں نے چلانا شروع کردیا یہ کیا ہے کہ میری اجازت کے بغیر ریل گاڑی کیسے چلائی گئی یہ ڈرائیور کتنا بدتمیز ہے جس کو اتنا بھی پتہ نہیں کہ ہم کون ہیں میں ایک کلکٹر کا بیٹا ہوں اس کو میں ابھی نوکری سے نکال دوں گا ۔۔۔۔امی ابو نے بڑے پیار سے سمجھایا بیٹا یہ لاہور نہیں برطانیہ ہے وہاں پر ہماری حکومت تھی مگر یہاں پر کسی کی حکومت نہیں کیونکہ یہاں قانون سب کے لئے برابر ہے ۔۔۔۔۔فیاض: سر آپ کلکٹر کے بیٹے اور یہاں کوئی اچھی نوکری کیوں نہیں ملی؟۔۔۔مارٹن: بیٹا یہی وجہ ہے کہ جو انگریز وہاں سے آئے تھے ان میں حکمرانی کی عادت تھی اور یہاں کا تمہیں پتہ ہے مگر ایک بات کہوں تمہارے ملک سے انگریز تو چلے گئے اور تم اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہو مگر ایسا نہیں ہے ۔۔۔۔فیاض:سر وہ کیسے؟مارٹن : بیٹا تمہارے ملک میں آج بھی لوگوں کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو ہمارے دور میں ہوتا تھا ابھی بھی وزراء۔کلکٹرز اور سرکاری آفیسرز اسی طرح کا پروٹوکول حاصل کرتے ہیں جس طرح ہمارے دور میں ہوتا تھامگر اس کے برعکس یہاں پر تو ہمیں بھی پروٹوکول نہیں ملتا تو تمہارے ملک والے کیا چیز ہیں وہاں پر ہر جگہ ان کے ساتھ گارڈز ہوتے ہیں اور یہاں وہ اکیلے گھوم رہے ہوتے ہیں تمہارے ملک کے غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے اور امیر امیر ہوتا جا رہا ہے اس کی بہی وجہ ہے تم آزاد ہوکے بھی غلام ہوفرق صرف اتنا ہے کہ پہلے انگریزوں کے غلام تھے اب وہاں کے امیروں اور جاگیرداروں کے غلام ہو۔۔۔فیاض: سر آپ درست بجا لا رہے ہیں۔۔۔مارٹن: بیٹا بارش تھم گئی اب میں چلتا ہوں خدا حافظ۔۔۔۔فیاض: خدا حافظ سر آپ سے بات کر کے اچھا لگاشکریہ


 

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 470605 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.