ظریفانہ: ایسا بار بار کیوں ہوتا ہے؟

للن پاشا سے کلن شیخ نے کہا یار وہ اپنا راج بھر بھی سوتنتر دیو سنگھ کے گھر چائے پینے چلاگیا
للن نے پوچھا یہ سوتنتر دیو سنگھ کون ہے؟
کلن بولا ارے تمہیں یہ بھی نہیں معلوم اتر پردیش کی بی جے پی شاخ کا صدر ہے۔
اچھا لیکن کیا بتاوں بھائی مجھے تو اترپردیش کے اندر اپنے ایم آئی ایم کے صدر کا نام بھی نہیں معلوم تو بی جے پی کے صدر کا نام کیسے معلوم ہوگا ؟
لیکن یہ بہت غلط ہوا ۔ اس کو اس موقع پر ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ بہت جلد باز نکلا۔
للن نے سوال کیا تو کیا کسی اور موقع پر یعنی الیکشن کے بعد کرنا چاہیے تھا ؟
نہیں ۔ اس کو کبھی بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔
کیوں اس میں کیا برائی ہے۔ وہ پہلے بھی بی جے پی کے ساتھ تھا اب پھر لوٹ کر چلا گیا تو سمجھو کہ اس گھر واپسی ہوگئی ۔
کلن بولا ارے بھائی لیکن اب لوگ ہمارے بارے میں کیا کہیں گے ؟
ارے بابا تم نے نہیں سنا: کچھ تو لوگ کہیں گے ۔ لوگوں کا کام ہے کہنا ۔ چھوڑو بیکار کی باتوں میں بیت نہ جائے الیکشن ۔
کیسا الیکشن ؟ میرا تو واٹس ایپ کھولنے کا بھی دل نہیں کررہا ہے ۔
کیوں اس کا راج بھر کے چائے پانی سے کیا تعلق؟
کلن نے کہا چائے پانی سے نہ سہی مگر مال پانی سے تو تعلق ہے ۔
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے ؟ کوئی چائے پینے کے لیے چلا گیا تو کون سی بڑی بات ہے؟ اپنے لوگوں کا کام کرانے کے لیے ملنا پڑتا ہے۔
جی ہاں اگر وہ کسی وزیر سے ملنے جاتا تو کہا جاسکتا تھا کہ اپنے لوگوں کا کام کرانے گیاہے۔ پارٹی کے صدر سے تو سیاسی جوڑ تو ڑ کی بات ہوتی ہے۔
اوہو لیکن اب تک تو سبب صیغۂ راز میں ہے اور تم ا بھی سے پریشان ہوگئے ؟
کیسا راز و نیاز؟ صبح پانچ بجے اگر کوئی سیاستداں کسی مخالف سے جاکر ملاقات کرے تو دال میں کالا صاف نظر آتا ہے۔
لیکن اوم پرکاش راج بھر تو اب بھی اکھلیش کی تعریف کررہا ہے ۔
جی ہاں مجھے پتہ ہے کہ اپنا بھاو بڑھا رہا ہے لیکن اگر وہ اکھلیش کے ساتھ چلا جائے تب بھی ہمیں اپنے ساتھ نہیں لےجا سکے گا ۔ اس لیے کیا فائدہ؟
ہاں ہاں لیکن ہم دونوں بی جے پی کے مخالف تو رہیں گے۔
مگر اس نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ بی جے پی اگر پسماندہ وزیر اعلیٰ بنادے تو اس کا سار اعتراض ختم ہوجائے گا اور اس کا حامی بن جائے گا۔
اچھا ! یہاں تک کہہ دیا ؟
ارے بھائی اس نے تو بی جے پی نقوی اور شاہنواز کا نام گناکر کہہ دیا کہ اویسی بی جے پی کے ساتھ کیوں نہیں جاسکتے ۔ محبوبہ تو گئی تھیں ۔
ارے کیا بکواس کررہا ہے ۔ ندی کے دو کنارے کہیں مل سکتے ہیں ۔ یہ تو ناممکن ہے۔ اس کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا ۔
ارے بھائی وزیر اعظم کی چائے پہ چرچا تم بھول گئے ۔چائے میں جب زعفران ملا کر پلائی جاتی ہے تو اندر باہر سب گیروا ہوجاتا ہے۔
للن نے کہا ہوتا ہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔ ہم نے کسی ٹھیکہ تو نہیں لیا ہے۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن لوگ اپنے قائد ملت کی اس کے ساتھ اس تصاویر بھیج بھیج کر ہمیں شرمندہ کررہے ہیں۔
اس میں شرمندہ ہونے کی کیا بات؟ چائے پینا کوئی گناہ نہیں ہے۔ کوئی بھی کسی کے بھی ساتھ چائے پی سکتا ہے۔ اس پر پابندی نہیں ہے ۔
کلن بولا لیکن یاد ہے بہار الیکشن سے پہلے چراغ پاسوان زعفرانی چائے پی پی کر بالآخر مودی کا ہنومان بن گیا اور اب اسی کی لنکا جلا رہا ہے۔
جی ہاں اس کے چاچا پشوپتی نے کمل کے ساتھ مل کر چراغ کا دماغ درست کردیا ہے۔ اب وہ تیجسوی کی جانب پینگ بڑھا رہا ہے۔
وہ اب کیا کررہا ہے اس سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ اس نے الیکشن میں نتیش کی لنکا جلانے کے چکر میں اپنی جھونپڑینذرِ آتش کر دی ۔
للن نے کہا کوئی بات نہیں’ صبح کا بھولا اگر ٹھوکر کھا کربھی شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے‘۔
ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ راج بھر اپنی پتنگ نہ کٹوا دے ۔
للن بولا تم نے نئی نئی پتنگ بازی شروع کی ہے اس لیے تمہیں ڈر لگتا ہے۔
اچھا تم پرانے ہو تمہیں بتاو کہ اس کا کیا اثر پڑے گا ؟
میں تو کہتا ہوں کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ ہمارے بھکت آنکھ بند کر ہماری حمایت کرتے رہیں گے۔
کلن نے حیرت سے پوچھا لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟
دیکھو تم نے بہار کے چراغ پاسوان کی مثال تو دے دی جو ہنومان تھا لیکن کیا تمہیں پتہ ہے وہاں کا راج بھر کون تھا ؟
کلن بولا بھائی میں تو نیا ہوں نا مجھے نہیں پتہ اس لیے تمہیں بتا دو؟
ارے بھائی تم اوپندر کشواہا کو نہیں جانتے ۔ ہمارے سیاسی اتحاد کا وہی صدر تھا ۔
کون کشواہا ! وہ تو ابھی حال میں اپنی پارٹی سمیت نتیش کمار کے ساتھ چلا گیا ۔ اس کو ہم نے کیسے ساتھ لے لیا تھا ؟
اس کے جانے میں حیرت کی کیا بات ہے۔ ہمارے ساتھ آنے سے پہلے وہ نتیش کا ساتھی تھا اب اس کی بھی گھر واپسی ہوگئی سمجھو۔
اچھا تو اس سے اپنی پارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑا ؟
جی نہیں عوام کی یادداشت بہت کم ہوتی ہے وہ سب بھول جاتے ہیں ۔ اس سے قبل مہاراشٹر میں بھی یہی ہوچکا ہے۔
اچھا ! وہاں کیا ہوا تھا؟
وہاں پر ہم نے پرکاش امبیڈکر کی ونچت بہوجن اگھاڑی کے ساتھ مل کر پارلیمانی الیکشن لڑا ۔ ہمارا امتیاز جلیل جیت گیا ان کے سب ہار گئے۔
اچھا خود پرکاش امبیڈکر بھی نہیں جیتے ؟
جی نہیں وہ ایک مقام پر دوسرے اور دوسرے پر تیسرے نمبر پر رہے یعنی دونوں جگہ سے ہار گئے۔
کلن نے پوچھا خیر چلو ان کی قسمت خراب تھی مگر اس کے بعد کیا ہوا؟
اس کے بعد اسمبلی الیکشن آیا تو ہم ڈھائی سو میں سے چالیس کا مطالبہ کیا انہوں نے ۸ کی پیشکش کی ۔ اس کے نتیجے میں اتحاد ختم ہوگیا ۔
اچھا لیکن ہم لوگوں نے دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی مگر اس کا کیا ہوا؟
وہ پھر سب پر ہار گئے لیکن بیس مقامات پر بی جے پی کو جیتنے میں مدد کی ۔ یہی ان کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔
یار میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم لوگ ایسے لوگوں کے ساتھ جاتے کیوں ہیں ؟
کیا کریں ؟ ہمیں ایسے ہی ملتے ہیں ۔ اور تم نے نہیں سنا :ہم ہیں راہی پیار کے ہم سے کچھ نہ بولیے، جو بھی پیار سے ملا ہم اسی کے ہولیے۔
لیکن ایسا کب تک اور کیسے چلے گا؟
ارے بھائی ہمیشہ چلے گا ۔ اب اپنے کے سی آر کو دیکھو ویسے تو ہمارا یار غار ہے لیکن ہر مشکل گھڑی میں بی جے پی کا ساتھ دے دیتا ہے۔
بھیا للن تم نے تو مجھے مایوس کردیا ۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔
ارے بھائی مایوسی کی کوئی بات نہیں۔ ہندوستان کے اندر فی الحال مسلمانوں کی صرف ایک ہی جماعت ایم آئی ایم ہے اس لیے وہ کہاں جائیں گے ؟
اچھا تو کیا انڈین یونین مسلم لیگ پاکستانیوں کی جماعت ہے؟
ارے بھائی اس کو کون پوچھتا ہے؟
کلن بولا کیوں ان کے ارکان پارلیمان اور اسمبلی ہم سے زیادہ ہیں۔ یہی حال نیشنل کانفرنس اور بدرالدین اجمل کی یو ڈی ایف کا ہے۔
للن بولا مجھے پتہ ہے لیکن وہ مسلمانوں کی بات کہاں کرتے ہیں؟
اچھا تو کیا وہ ہندووں کی بات کرتے ہیں ؟
جی نہیں لیکن وہ کچھ بولتے نہیں اس لیے ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے ۔
کلن بولا لیکن بولے بغیر اگر ہم سے زیادہ کامیاب ہیں اس کا مطلب ہے کام کرتے ہوں گے ۔
دیکھو بھائی کلن آج کل بول بچن کی سیاست ہے ۔ جب مودی کام کیے بغیر کامیاب ہوسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟
لیکن اترپردیش میں تو کام کرنا پڑے گا ۔ ورنہ دال نہیں گلے گی کیا سمجھے۔ یہ حیدرآباد نہیں ہے کہ شور شرابے سے کام چل جائے۔
بھائی کلن دیکھو اتر پردیش میں نہ تو یو ڈی ایف ہے اور نہ نیشنل کانفرنس ، نہ پی ڈی پی ہے نہ مسلم لیگ یعنی ہم ہی ہم ہیں دوسرا کوئی نہیں۔
جی ہاں لیکن وہاں ڈاکٹر ایوب کی پیس پارٹی اورعامر رشادی کی راشٹریہ علماء کونسل بھی الیشن لڑتے ہیں ۔ ان لوگوں نے بہت کام کیا ہے۔
ارے بھائی ان لوگوں نے کبھی 100 نشستوں پر الیکشن لڑنے کا سوچا بھی نہیں ہوگا ۔ اتنا بڑ ا سپنا تو صرف اور صرف ہمارا قائد ہی دیکھ سکتا ہے۔
جی ہاں ہماری پتنگ بہت اونچی اڑتی ہے لیکن بنگال اور مجھے ڈر ہے کہیں یوپی میں بھی تمل ناڈو جیسا حال نہ ہو۔
جی نہیں اتنا یاد رکھو کلن، کہ چاہے راج بھر ساتھ آئے یا نہ آئے لیکن کامیابی ہماری ہی ہوگی۔
کی ہاں کیونکہ ایک بار اکبر بھائی یوپی میں جاکر نعرۂ تکبیر لگائیں گے تو یوگی کا تخت و تاج اپنے آپ ٹوٹ کر بکھر جائے گا۔


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1221231 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.