یوں تو تاریخ انسانی وحشت و بربریت کی المناک
داستانوں سے بھری پڑی ہے مگر سانحہ کربلا ظلم و جبر اور ناانصافی کا ایک
ایسا باب ہے کہ جس میں جبر کو صبر کے ہاتھوں اذیت ناک شکست سے دوچار ہونا
پڑا ۔ جس میں انکار کی کوکھ سے جنم لینے والے اظہار اور شعور نے تاریخ
انسانی کو ایک ایسے پہلو سے روشناس کرایا کہ جس کی شمع آج بھی ہر اس جگہ
جلتی ہوئی نظر آتی ہے جہاں بھی ظلم جبر اور ناانصافی سر اٹھاتی ہے وہاں حق
گوئی ، بے باکی ، جرآت اور ہمت و حوصلے سے اس کا سر کچل دیا جاتا ہے۔
سانحہ کربلا نے حق اور باطل کے درمیان لکیر کھینچ کر پوری کائنات پر واضح
کر دیا کہ ایک طرف جبر تھا تو دوسری طرف صبر ، ایک طرف خوف تھا تو دوسری
طرف جرآت ، ایک طرف بزدلی تھی تو دوسری طرف بہادری ، ایک طرف وحشت تھی تو
دوسری طرف انسانیت ، ایک طرف حقوق کی پامالی تھی تو دوسری طرف حقوق کی
بحالی ، ایک طرف اقتدار کی ہوس تھی تو دوسری طرف اقدار کا احساس ، ایک طرف
ظلمت کے اندھیرے تھے تو دوسری طرف امن و آشتی کے اجالے ، ایک طرف غیر
انسانی رویے تھے تو دوسری طرف انسانی اقدار ، ایک طرف طاقت کا نشہ تھا تو
دوسری طرف ہمت کی مئے ، ایک طرف ذاتیات تھی تو دوسری طرف آفاقیات ، ایک طرف
ظلمت کے پہاڑ تھے تو دوسری طرف صبر کی چٹانیں ، ایک طرف دین کی پامالی تھی
تو دوسری طرف دین کی بحالی ، ایک طرف یزیدی رویے تھے تو دوسری طرف حسینیؓ
کردار۔۔۔۔۔
سن 61 ہجری میں جب طاقت اور اقتدار کے نشے میں دھت یزیدی قوتوں نے دین
اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے اخلاقی قدروں کو پامال کرنے کی ناپاک
جسارت کی تو نواسہ رسولؐ جگر گوشہ بتولؓ امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ نے
اپنے نہتے جانثار ساتھیوں کے ہمراہ جرآت ، بہادری ، شجاعت ، اور ہمت و
حوصلے کی انمٹ تاریخ رقم کر کے تاریخ کا دھارا موڑ دیا اور یزیدی قوتوں کے
ناپاک ارادوں کو خاک میں رول کر قیامت تک کے لیے پیغام دے دیا کہ یہ سر کٹ
تو سکتا ہے مگر جھک نہیں سکتا ۔
حسینیتؓ اور یزیدیت دو کردار ہی نہیں بلکہ دو رویے ہیں الگ الگ دو فکروں
اور دو سوچوں کا نام ہے جو ازل سے آرہی ہیں اور ابد تک جاری رہیں گی۔ ظلم ،
جبر ، ناانصافی ، لاقانونیت ، وحشت ، بربریت ، لوٹ مار ، کرپشن ، بداخلاقی
، بدکرداری ، فسق و فجور ، عیاش پرستی اور بدعہدی یزیدی سوچ کی عکاسی کرتی
ہیں جبکہ امن و آشتی ، عدل و انصاف ، ہمت ، حوصلہ ، جذبہ ، ایثار ، قربانی
، احساس اور شعور حسینیتؓ کا حُسن ہیں۔
حسینیتؓ ، ظلم جبر اور ناانصافی کے خلاف ڈٹ جانے کا نام ہے ۔ حسینیتؓ ، حق
گوئی ، بے باکی اور اظہار راۓ کی آزادی کا نام ہے ۔ حسینیتؓ ، عدل انصاف
اور حقوق کے تحفظ کا نام ہے ۔ حسینیتؓ ، شجاعت بہادری اور جذبہ حریت کا نام
ہے ۔ حسینیتؓ ، ایثار قربانی اور صبر و رضا کا نام ہے ۔ حسینیتؓ ، ہمت
حوصلے جذبے اور عزم و استقلال کا نام ہے ۔ حسینیتؓ ، محبت مودت عشق اور عہد
وفا کا نام ہے ۔ حسینیتؓ ، شرافت سادگی اور حُسن اخلاق کا نام ہے ۔ حسینیتؓ
، احسان بھلائی اور فلاح انسانیت کا نام ہے ۔ حسینیتؓ علم عمل کردار اور
شعور انسانیت کا نام ہے ۔ حسینیتؓ ، تمام مصلحتوں کو پاؤں کی نوک پر رکھ کر
حق کا علم بلند کرنے کا نام ہے ۔ حسینیتؓ ، ہر ظالم جابر سلطان کے سامنے
کلمہ حق بلند کرنے کا نام ہے۔
اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ آج امت مسلمہ انتہائی زبوں
حالی کا شکار ہے دنیا بھر میں مسلمان سب سے بڑھ کر دہشت گردی کا شکار بھی
ہیں اور دہشت گرد بھی قرار دیے جاتے ہیں نسلی تعصب کی وجہ سے پوری دنیا میں
مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کر دی گئی ہے اور پھر فرقہ واریت اور باہمی
اختلافات ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ عدم برداشت اور انتہا پسندی
ہمارے معاشروں کو شدت پسندی کی دلدل میں دھکیل رہی ہے ۔ جھوٹ منافقت دجل
فریب دھوکہ دہی اور دو نمبری کا زہر ہماری رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے
۔ بہت سے مسلم ممالک ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں ایک دوسرے کے خلاف
سازشیوں میں شامل ہیں ایک دوسرے کو تباہ کرنے پر تلے ہوۓ ہیں ۔ علم ،عمل،
کردار اور جدید ٹیکنالوجی سے ہم کوسوں دور ہیں ۔ ایک چھوٹے سے یہودی ملک
اسرائیل کے سامنے تمام مسّلم ملک بے بس نظر آتے ہیں۔ کشمیر میں مسلمانوں کے
خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے ۔ آخر کیا وجہ ہے ہم حسینیتؓ کے علمبردار بھی
ہیں اور دنیا بھر میں ذلت و رسوائی کا شکار بھی ہیں۔ در حقیقت ہم ذکر
حسینیتؓ تو کرتے ہیں مگر فکر حسینیتؓ اور پیغام حسینیتؓ سے کوسوں دور ہیں
جب تک ہم فکر حسینیتؓ اور پیغام حسینیتؓ کو نہیں سمجھیں گے اس وقت تک ہم
شعور انسانیت اور احساس انسانیت تک نہیں پہنچ سکتے کیونکہ احساس انسانیت کا
مکمل شعور پیغام حسینیتؓ میں موجود ہے وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم حسینیتؓ
کے ذکر سے کہیں آگے بڑھ کر فکر حسینیتؓ اور پیغام حسینیتؓ کو اپنی زندگیوں
کا نصب العین بنائیں اور ظلم جبر ناانصافی استحصال حقوق کی پامالی اور
یزیدی رویوں کے خلاف حسینیتؓ کا علم بلند کر کے ہمت حوصلے جذبے شجاعت
بہادری اور عزم و استقلال کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں۔ |