مُوسٰی کی کامیابی اور فرعون کی غرقابی

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالشعراء ، اٰیت 52 تا 68 !! اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
اوحینآالٰی
موسٰی ان اسر
بعبادی انکم متبعون
52 فارسل فرعون فی
المدائن حٰشرین 53 ان ھٰٓؤلاء
لشرذمة قلیلون 54 وانھم لنالغاءظون
55 وانا لجمع حٰذرون 56 فاخرجنٰھم من جنٰت
و عیون 57 وکنوز ومقام کریم 58 کذٰلک واورثنٰہا بنی
اسرائیل 59 فاتبعوھم مشرقین 60 فلما تراءالجمعٰن قال اصحٰب
موسٰی انا لمدرکون 61 قال کلّا ان معی ربی سیھدین 62 فاوحینا الٰی
موسٰی ان اضرب بعصاک البحر فانفلق فکان کل فرق کاالطود العظیم 63
وازلفنا ثم الاٰخرین 64 وانجینا موسٰی ومن معه اجمعین 65 ثم اغرقناالاٰخرین
66 ان فی ذٰلک لاٰیة وما کان اکثرھم مؤمنین 67 وان ربک لھوالعزیزالرحیم 68
فرعونِ مصر کے انکارِ ایمان اور ساحرانِ مصر کے اقرارِ ایمان کے بعد ھم نے موسٰی کو حُکم دیا کہ تُم راتوں رات فرعونی لَشکر سے بَچتے بچاتے ہوۓ میرے اِن ایمان دار بندوں کو لے کر تیزی کے ساتھ یہاں سے نکل جاؤ ، جس وقت موسٰی کو اللہ تعالٰی نے یہ حُکم دیا تھا تو ٹھیک اُسی وقت فرعون بھی اپنے سارے شہروں کے سارے لشکریوں کو یہ حُکم دے چکا تھا کہ موسٰی کے جو مُٹھی بَھر پیروکار ھم سے باغی ہوکر ھمارے قہر و غضب کے نشانے پر آۓ ہوۓ ہیں اُن پر بہت کڑی نظر رکھی جاۓ اور جب ھم نے اپنی حرب کے اس حربی طریقے سے اُن لوگوں کو مُوسٰی کے تعاقب میں لگاکر اُن کے اُن باغوں اور بہاروں سے ، اُن کی اُن نظر افروز آبشاروں سے ، اُن کی داد و دَہش کے اُن خزانوں سے اور اُن کے اُن آرام دہ ٹھکانوں سے باہر لاکر اُن کی اِس زمین کا بنی اسرائیل کو وارث بنا دیا اور جب فرعون و لَشکرِ فرعون ھمارے اِس حربی ہانکے پر ہانپتے ہوۓ اپنے حفاظتی حصار سے نکل کر مُوسٰی و قومِ مُوسٰی کا تعاقب کرتے ہوۓ مُوسٰی و قومِ مُوسٰی کے قریب آپُہنچے اور دن چڑھے جب تعاقب کرنے اور تعاقب سے بچنے والی اِن دونوں جماعتوں کا آمنا سامنا ہوا تو مُوسٰی کے ہَمراہی چیخ پڑے کہ ھم تو فرعون و لَشکرِ فرعون کی گرفت میں آچکے ہیں جس پر مُوسٰی نے اُن کو تسلّی دیتے ہوۓ کہا کہ ھم ہرگز اُن کی گرفت میں نہیں آسکیں گے کیونکہ میرا رَب میرے ساتھ ھے جو یقیناً میری رہنمائی کرے گا تو ھم نے اُسی وقت مُوسٰی سے کہا کہ اَب تُم اپنی اِس لاٹھی کے سہارے پر سمندر کے اِس آب سمیٹے ہوۓ بے آب کنارے پر سیدھے ہی سیدھے چلتے چلے جاؤ ، جس وقت مُوسٰی ھمارے حُکم کے مطابق اپنی قوم کو لے کر سمندر کے درمیان ھمارے بتاۓ ہوۓ بے آب راستے پر چل رھے تھے تو اُس وقت اُن کی دونوں اَطراف میں نظر آنے والے اَمواجِ سمندر کے وہ دو بڑے بڑے پہاڑ بھی نظر آرھے تھے جن کے درمیان میں مُوسٰی و قومِ مُوسٰی کو چلتے دیکھ کر فرعون و لَشکرِ فرعون بھی اُسی راستے پر چل پڑا تھا لیکن اِس راستے پر چلنے والے مُوسٰی کو تو ھم نے اُس کے سارے ساتھیوں کے ساتھ گزار دیا اور اِس راستے پر چلنے والے فرعون کو اُس کے سارے کے سارے ساتھیوں سمیت غرق کر دیا ، اِس واقعے میں دیکھنے والوں کے لیۓ ھمارا جو نشان ھے وہ ھمارے کم کم بندوں کو نظر آتا ھے زیادہ بندوں کو نظر نہیں آتا ھے لیکن اے ھمارے رسُول ! آپ کا جو رَب آپ کو یہ اَحوالِ ماضی سنا رہا ھے آپ کا وہ رَب ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ ایک عالِمِ کار رَب اور ایک غالبِ کار رَب ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم اللہ تعالٰی کے جس حُکمِ اَمر و نہی کو اَمرِ حق کہتا ھے اُس اَمرِ حق کو جو انسانی جماعت اپنے آنے والے زمانے کی خوشی کے لیۓ اپنی خوشی سے قبول کرتی ھے تو اُس انسانی جماعت کو یہ کتابِ حق اُس کے مزاجِ خوشی کے مطابق اپنے اِس اَمرِ حق پر عمل کرنے کی صورت میں ملنے والی ایک بہترین زندگی کی ایک بہترین اُمید سناتی ھے اور جو انسانی جماعت اپنے آنے والے زمانے کے خوف سے ایک خوفِ دل کے ساتھ اِس اَمرِ حق کو قبول کرتی ھے تو اُس انسانی جماعت کو بھی یہ کتابِ حق اُس کے مزاجِ خوف کے مطابق اِس اَمرِ حق پر عمل نہ کرنے کی صورت میں ایک بدترین زندگی ملنے کی ایک بدترین وعید کی یاد دلااتی ھے بخلاف اِس کے کہ جو انسانی جماعت خوشی و خوف دونوں سے بے غرض ہو کر ھمارے اِس اَمرِ حق کو صرف ایک اَمرِ حق کے طور پر قبول کرتی ھے تو اُس انسانی جماعت کو یہ کتابِ حق اُس کے اِس بے غرض مزاج کے مطابق اپنے اَحکامِ اَمرِ و نہی کی اِس کتاب پر اُس غور و فکر پر لگاتی ھے جس غور و فکر کے نتیجے میں یہ جماعت اِس کتابِ حق کی وہ مطلوب جماعت بن جاتی ھے جس کو وہ زمین میں اہلِ زمین کے لیۓ پروان چڑھاتی ھے کیونکہ اہلِ فکر کی اسی جماعت کو یہ کتاب سمجھ آتی ھے اوراہلِ فکر کی یہی جماعت اِس کتاب پر خود بھی عمل کرتی ھے اور دُوسرے لوگوں کو بھی اپنے اِس عمل سے عمل کراتی ھے ، قُرآنِ کریم کی اِن تین مُخاطب اور مُختلف المزاج جماعتوں میں سے جو جماعت اِس کتابِ حق کے اَمرِ حق کے اِس دائرہِ حق میں آنا چاہتی ھے اُس کو آنے سے نہیں روکا جاتا اور جو جماعت اِس کتابِ حق کے اَمرِ حق کے اِس دائرہِ حق سے جانا چاہتی ھے اُس کو بھی جانے سے نہیں روکا جاتا ھے لیکن جو جماعت اِس اَمرِ حق کو چھوڑ کر واپس جاتی ھے اور واپس جاکر اللہ کی مخلوق پر ظلم ڈھاتی ھے تو قُرآنِ کریم کے مُحوّلہ بالا اَحکام کے مطابق اُس جماعت کو اُس کے اُس ظلم سے روکنے کے لیۓ پہلے اُس کے ساتھ وہی علمی و اخلاقی مکالمہ کیا جاتا ھے جو اٰیاتِ بالا کے مطابق مُوسٰی علیہ السلام نے فرعون کے ساتھ کیا تھا اور جب مکالمے کا یہ عمل ناکام ہوجاتا ھے تو پھر اُس کو وہ سزا دے دی جاتی ھے جو اُس کے اُس عمل کے مطابق اُس کے لیۓ مُناسبِ حال ہوتی ھے ، فرعون جو اِس سنجیدہ علمی مکالمہ کا ایک زندہ فریق تھا اُس کو اللہ تعالٰی کے قلبی و زبانی اقتدار پر تو کوئی اعتراض نہیں تھا اسی لیۓ اُس نے رَب العٰلمین کی اُس تشریح پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا تھا جو تشریح مُوسٰی علیہ السلام نے اسی کے ایک سوال پر اُس کے سامنے پیش کی تھی اور اُس نے سنی تھی لیکن جہاں تک اللہ تعالٰی اُس کے عملی اقتدار کا تعلق ھے تو جو اُس کے اَحکامِ نافذی کی صورت میں انسانی معاشرے میں نافذ ہوتا ھے وہ اُس کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھا کیونکہ اللہ تعالٰی کے اُس عملی اقتدار پر وہ خود ہی قبضہ جماۓ بیٹھا تھا اور اللہ تعالٰی کے بندوں پر وہ اللہ تعالٰی کے بندوں پر اللہ تعالٰی کے اَمرِ حق کے بجاۓ اپنا اَمرِ ناحق چلا رہا تھا اور اسی لیۓ جب مُوسٰی علیہ السلام نے اُس کے سامنے اپنی قوم کی آزادی کا ایک نکاتی مطالبہ پیش کیا تھا تو اُس نے اُس کو قبول کرنے سے صاف انکار کردیا تھا اور اُس کے اِس انکار کے بعد جب مُوسٰی علیہ السلام نے اُس کو اللہ تعالٰی کی طرف سے ملنے والے اپنی نمائندگی کے دو سفارتی نشانات عصاۓ مُوسٰی و یَد بیضاۓ دکھاۓ تھے تو اُس نے شدید بوکھلاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوۓ ایک طرف تو آپ کو جیل میں ڈال دینے کی دَھمکی دی تھی اور دُوسری طرف ایک بھیگی بلّی بن کر اپنے درباریوں سے کہا تھا کہ اَب تُم لوگ ہی مُجھے حُکم دو کہ میں اِس شخص کے ساتھ کیا سلوک کروں اور اِس کے بعد اُس نے جب اپنے دربایوں کی تجویز پر مُوسٰی علیہ السلام کے ساتھ اپنے ساحروں کا مقابلہ کرایا تھا تو اُس مقابلے کے نتیجے میں اُس کے وہ سارے ساحر مُوسٰی علیہ السلام پر ایمان لا کر اُس کے حلقہِ اطاعت و غلامی سے نکل گۓ تھے تو اُس نے اُن کی نقل و حرکت پر پہرے لگا دیۓ تھے اور اِن سب واقعات کے بعد جب اللہ تعالٰی نے مُوسٰی علیہ السلام کو اہلِ ایمان کی اُس ماری مری اور دَبی کُچلی ہوئی ایک جماعت کو وہاں سے نکال کر لے جانے کا حُکم دیا تھا تو فرعون نے اُس دَبی کُچلی ہوئی جماعت کو نیست و نابُود کردینے کے لیۓ اُس پر حملہ کردیا تھا جس کے بعد مُوسٰی تو اپنی مظلوم قوم کے ساتھ سمندر سے سلامت گزر گۓ تھے اور فرعون اپنی ظالم قوم کے ساتھ اسی سمندر میں غرق ہو گیا تھا جس میں وہ مُوسٰی و قومِ مُوسٰی کو مارنے کے لیۓ داخل ہوا تھا ، سطورِ بالا میں بیان کیۓ گۓ اِس تاریخی واقعے سے تعلق رکھنے والے پہلے واقعات اِس واقعے کے وہ ابتدائی تاریخی اَحوال ہیں جو گزشتہ اور گزشتہ سے پیوستہ اٰیات میں بیان ہوۓ تھے اور سطورِ بالا میں بیان کیۓ گۓ اِس تاریخی واقعے سے تعلق رکھنے والے دُوسرے واقعات اِس واقعے کے وہ انتہائی اور فیصلہ کُن اَحوال ہیں جو اٰیاتِ بالا میں بیان ہوۓ ہیں ، اِس سلسلہِ کلام میں ایک اور قابلِ ذکر بات یہ ھے کہ اٰیاتِ بالا کی اٰیت 63 میں "الطود" کا جو لفظ آیا ھے وہ فارسی کے لفظ "تُودہ" کا ھم معنٰی ھے اور اِس قسم کے تُودوں کا صحرا کی ریت ، سمندر کے پانی اور فضا کے بادلوں میں پیدا ہوتے رہنا اور نظر آتے رہنا ایک معمول کی بات ھے اور جہاں تک مُوسٰی علیہ السلام کے سمندر پار کرنے اور فرعون و لَشکرِ فرعون کے غرقِ سمندر ہونے کے کُچھ معروف روایتی و غیر روایتی اَحوال کا تعلق ھے تو اُن اَحوال پر ھم اِس واقعے کے مُتعلقہ مقامات پر بقدرِ ضروت جو گفتگو کر چکے ہیں اُس کا اِس مقام پر اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ھے لیکن اٰیات بالا میں فرعون کے بعد فرعون کی زمینوں کا بنی اسرائیل کو وارث بنانے کا جو ذکر کیا گیا ھے اُس پر عُلماۓ روایت نے جو یہ بے جا مَغز ماری کی ھے کہ اگر بنی اسرائیل مصر واپس گئے ہی نہیں ہیں تو بنی اسرائیل کے اُس وراثت کے وارث ہونے کا مفہوم کیا ھے لیکن اٰیاتِ بالا کے اُس مضمون کی حقیقت یہ ھے کہ اللہ تعالٰی کا کسی قوم کو کسی قوم کی وراثت کا وارث بنانا اور اُس قوم کا اللہ تعالٰی کے حُکم کے مطابق اُس قوم کی وراثت کو عملی طور پر قبول کرنا دو اَلگ باتیں ہیں ، فرعون کے بعد بنی اسرائیل سے فرعون کی جس وراثت کا اللہ تعالٰی نے وعدہ کیا تھا اُس سے مصر کی وہ خاص وراثت مُراد نہیں تھی جو فرعون کے قبضے سے نکلی تھی اور فرعون کے تباہ ہونے کے بعد اُس کی وہ مقبوضہ وراثت بھی تباہ ہوگئی تھی بلکہ اِس وراثت سے مُراد زمین کی وہ عام زمینی وراثت تھی جس میں وہ سارے زمینی باغ و بہار موجُود تھے جو مصر کی زمین پر فرعونِ مصر کے پاس موجُود تھے اور مُوسٰی علیہ السلام نے عُمر بھر کوشش کی تھی اور مقدُور بھر کوشش تھی کہ وہ اُجڑے ہوۓ اِن بنی اسرائیل کو زمینِ فلسطین پر لے جاکر آباد کریں اور اُن سارے زمینی باغوں اور بہاروں کا مالک بنادیں جو باغ و بہار اُس نے فرعون کی فرعونی مَملکت میں بنظرِ حسرت دیکھے تھے لیکن بنی اسرائیل نے ہر موقعے پر مُوسٰی کے ساتھ اُس زمین پر جانے اور جاکر بَس جانے سے انکار کیا تھا یہاں تک کہ ایک موقعے پر تو اُن کو یہ تک کہا گیا تھا کہ فلاں شہر میں جاؤ اور اُس شہر کے علاقوں کو اپنا وطن بناؤ لیکن بنی اسرائیل نے کہا تھا کہ پہلے وہاں پر آباد ساری اَقوام کو وہاں سے نکالا جاۓ اور اُن کے نکلنے کے بعد اِن کو وہاں پر آباد کیا جاۓ بلکہ ایک موقعے پر تو اِس قوم کو یہ تک کہا گیا کہ تُمہارا وہاں جانا ہی پہلی اَقوام کے وہاں سے نکل جانے کا باعث بنے گا لیکن اِن کی وہی ایک رَٹ اور وہی ایک ہَٹ قائم تھی کہ ھم نے اکیلے رہنا ھے کسی اور قوم کے ساتھ مل کر نہیں رہنا ھے لیکن اَمرِ واقعہ یہ ھے کہ جو قوم آزادی لینا ہی نہیں چاہتی تو اُس کو زور زبردستی سے قُدرت کی طرف سے بھی آزادی نہیں دی جاتی ، اگر ایسی کوئی قوم کبھی کُچھ کُچھ آزاد ہو بھی جاتی ھے تو وہ کسی دُوسری قوم کی غلامی میں رہ کر خوش رہتی ھے لیکن اپنے فکری اور فطری جذبہِ آزادی کے ساتھ کہیں پر بھی اور کبھی بھی آزاد نہیں رہتی ھے !!
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558902 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More