صداۓ خلیل و دُعاۓ خلیل !!
(Babar Alyas , Chichawatni)
#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{
سُورَةُالشعراء ، اٰیت 69 تا 104}}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
اتل علیھم
نباابرھیم 69 اذ
قال لابیه و قومهٖ ما
تعبدون 70 قالوا نعبد
اصناما فنظل لھا عٰکفین 71
قال ھل یسمعونکم اذ تدعون 72
اوینفعونکم او یضرون 73 قالوا بل و
جدنا اٰباءنا کذالک یفعلون 74 قال افرءیتم
ما کنتم تعبدون 75 انتم و اٰباؤکم الاقدمون 76
فانھم عدولی الّا رب العٰلمین 77 الذی خلقنی فھو
یھدین 78 والذی ھو یطعمنی ویسقین 79 واذا مرضت
فھو یشفین 80 والذی یمیتنی ثم یحیین 81 والذی اطمع ان
یغفرلی خطٓئتی یوم الدین 82 رب ھب لی حکما والحقنی بالصٰلحین
83 واجعل لی لسان صدق فی الاٰخرین 84 واجعلنی من ورثة جنة النعیم
85 واغفر لابی انه کان من الضآلین 86 ولاتخزنی یوم یبعثون 87 یوم لا ینفع
مال
ولا بنون 88 الّا من اتی اللہ بقلب سلیم 89 وازلفت الجنة للمتقین 90 وبرزت
الجحیم
للغٰوین 91 وقیل لھم اینما کنتم تعبدون 92 من دون اللہ ھل ینصرونکم او
ینتصرون 93 فکبکبوا
فیھا والغاوٗن 94 وجنود ابلیس اجمعون 95 قالوا وھم فیہا یختصمون 96 تاللہ
ان کنا لفی ضلٰل مبین
97 اذ نسویکم برب العٰلمین98 ومااضلنا الّاالمجرمون 99 فمالنا من شٰفعین
100 ولاصدیق حمیم 101 فلو
ان لنا کرة فنکون من المؤمنین 102 ان فی ذٰلک لاٰیة وماکان اکثرھم مؤمنین
103 وان ربک لھوالعزیزالرحیم 104
اے ھمارے رسُول ! اِس اُمت کو ابراھیم کا وہ واقعہ بھی سُنادیں جب اُس نے
اپنے باپ سے پُوچھا تھا کہ آپ اور آپ کی قوم زمین پر کس حاکم کے محکوم ہیں
اور کس حاکم کے حُکم پر عمل کرتے ہیں تو ابراھیم کے باپ نے کہا تھا کہ
ھمارے حاکم ھمارے یہی بُت ہیں جن کے اَحکام پر ھم عمل کرتے ہیں ، پھر
ابراھیم نے اپنے باپ کا یہ جواب سُن کر یہ سوال بھی کیا تھا کہ آپ جب اِن
بُتوں کو پُکارتے ہیں تو کیا وہ آپ کی بات سُن کر جواب دے سکتے ہیں اور آپ
کو کوئی نفع و نقصان بھی پُہنچا سکتے ہیں تو ابراھیم کے باپ نے کہا تھا کہ
میں اِس بارے میں صرف یہ جانتا ہوں کہ جس طرح ھمارے باپ دادا بتوں کی پُوجا
کیا کرتے تھے ھم بھی اُسی طرح بتوں کی پُوجا کر رھے ہیں اور باپ کی یہ بات
سُن کر ابراھیم نے کہا تھا کہ آپ اپنے باپ دادا کی یہ سب باتیں تو جانتے
ہیں لیکن میری یہ ایک بات نہیں جانتے ہیں کہ آپ جن بتوں کی پُوجا کر رھے
ہیں وہ سب کے سب میرے دُشمن ہیں کیونکہ میرا حاکم تو صرف میرا وہ رَب ھے جس
نے یہ جہان تخلیق کیا ھے اور مُجھے بھی اِس جہان میں تخلیق کیا ھے اور اُس
نے مُجھے اپنے خالق ہونے کی یہ پہچان دی ھے کہ جب میں بُھوکا ہوتا ہوں تو
وہ مُجھے کھانا کھلاتا ھے ، جب میں پیاسا ہوتا ہوں تو وہ مُجھے پانی پلاتا
ھے ، جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ مُجھے شفا دیتا ھے ، اِس لیۓ میں یقین کے
ساتھ جانتا ہوں کہ میرا وہی ایک خالق و مالک ھے جو مُجھے اِس زندگی کے بعد
موت دے گا اور اُس موت کے بعد دوبارہ زندگی دے گا ، مُجھے اُمید ھے کہ
حسابِ عمل کے دن وہ میری خطا پوشی کرے گا ، ابراھیم نے جب اپنے باپ کے ساتھ
اپنا یہ کلام مُکمل کیا تو اُس کے بعد یہ دُعا کی کہ میرے رَب ! تُو مُجھے
اپنا تابع دار بنا اور مُجھے اپنے صلاحیت کا بندوں کا ساتھی بنا اور میرے
قول و عمل کو میرے بعد والے لوگوں کے لیۓ قابلِ اعتبار و قابلِ عمل بنا اور
مُجھے اپنی جنت کے وارثوں میں سے ایک وارث بنا اور میرے خطا کار باپ کی خطا
پوشی فرما اور مُجھے اُس حسابِ عمل کی اُس نا اُمیدی سے بچا جس حسابِ عمل
کے دن انسان کا دلِ مُطمئن ہی انسان کو فائدہ دے گا ، انسان کا مال انسان
کوئی فائدہ نہیں دے گا اور انسان کی اَولاد بھی انسان کو کوئی فائدہ نہیں
دے گی ، جب حسابِ عمل کا وہ وقت آۓ گا تو صلاحیت کار لوگوں کے لیۓ جنت سجا
دی جاۓ گی اور بَدکار لوگوں کے لیۓ آتشِ جھنم دھکا دی جاۓ گی اور جُرمِ شرک
کے مُجرموں سے پُوچھا جاۓ گا کہ کہو کہاں ہیں آج وہ تُمہارے سارے سرپنچ تُم
جن کے اَحکام ماننے پر اصرار اور اللہ کے اَحکام ماننے سے انکار کیا کرتے
تھے ، کیا آج تُمھارے وہ حاکم تُمہارا یا اپنا کُچھ بَھلا کر سکتے ہیں ،
پھر جب بہکے ہوۓ اور بہکاۓ ہوۓ یہ سب لوگ کُبے کر کے جھنم میں دھکیل دیۓ
جائیں گے تو ابلیسی لَشکر کے یہ سارے لَشکری اپنے اپنے مُرشدوں اور اپنے
اپنے مولویوں سے کہیں گے کہ بخُدا ھم ہی وہ بَدکار لوگ تھے جنہوں نے تُم
لوگوں کو خُدائی اختیارات کا مالک بنا رکھا تھا اور ھمارے وہ مُرشد و مولوی
بھی بدکار مُرشد اور بد کار مولوی تھے جنہوں نے ہمیں وہم و گمان کے اُس
راستے پر لگایا تھا جس راستے پر چلتے ہوۓ ھم یہاں پر آپُہنچے ہیں جہاں پر
ھمارا کوئی سفارشی بھی نہیں ھے اور ھمارا کوئی دوست و غمخوار بھی نہیں ھے ،
کاش کہ ہمیں ایک بار لوٹ کر وہاں جانے کا اور وہاں سے پلٹ کر یہاں آنے کا
موقع مل جاۓ تو ھم پُورے کے پُورے امین بن جائیں ، اے ھمارے رسُول ! ھمارے
بیان کیۓ ہوۓ اِس کلامِ حق میں بھی ایک سے ایک حق کی نشانی موجُود ھے لیکن
زیادہ تر لوگ ھماری اِن نشانیوں سے یہ نہیں سمجھتے اور یہ نہیں سیکھتے کہ
آپ کا رب ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ ایک عالِمِ کار رَب اور ایک غالبِ کار رَب
ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سیدنا ابراھیم علیہ السلام جو اپنے اَعلٰی مرتبے اور اپنے اَعلٰی مقام کے
اعتبار سے پہلے تمام بڑے نبیوں اور پہلی تمام بڑی اُمتوں کے بھی سرخیل اور
اِس آخری بڑے نبی کی اِس آخری بڑی اُمت کے بھی سرخیل ہیں جس پر قُرآن اپنی
آخری اور مُکمل صورت میں نازل ہوا ھے ، قُرآنِ کریم میں اِس عظیم نبی کا جو
عظیم تذکرہ قُرآنِ کریم کے جن 69 مقامات پر آیا ھے اُن 69 مقامات میں سے 51
مقامات جو اِس سُورت کے اِس مقام سے پہلے گزر چکے ہیں اُن مقامات میں سے
بعض مقامات پر بالعموم اور سُورِہِ مریم میں بالخصوص ھم بہت تفصیل سے بات
بھی کر چکے ہیں اور عُلماۓ روایت کے نام نہاد اکاذیب ثلاثہ کا تفصیل کے
ساتھ جواب بھی دے چکے ہیں اور ذکرِ خلیل کے 17 مقامات جو اِس سُورت کے اِس
مقام کے بعد آئیں گے اُن میں بھی خُدا کے اِس خلیل کا یہ ذکرِ جمیل و جلیل
آۓ گا ، قُرآنِ کریم نے سُورَةُ الشعراء کے اِس مقام پر خُدا کے اُس خلیل
کا جو ذکرِ جمیل کیا ھے وہ ایک تفصیل دَر تفصیل ذکر ھے اور اِس تفصیل در
تفصیل ذکر میں پہلے ابراھیم علیہ السلام کی دعوت کے اُس دور کا احاطہ کیا
گیا ھے جس دور میں اُن کی دوعت کے مُخاطبِ اَوّل اُن کے والد تھے جن کو آپ
نے آنکھ کھولنے کے بعد سے اَب تک بُت گری اور بُت پرستی کرتے ہوۓ دیکھا تھا
اور باپ کے احترام کا تقاضا تھا کہ وہ اُن کے ساتھ اُس قابلِ فہم دلیل کے
ساتھ بات کرتے جو اُن کے لیۓ ایک قابلِ فہم اور ناقابلِ انکار دلیل ہوتی
اور قُرآنِ کریم کی اِن اٰیاتِ بینات سے معلوم ہوتا ھے کہ آپ نے اپنے والد
سے اُن کی بُت پرستی کے بارے جو سوالات کیۓ ہیں وہ اُن کے سمجھ میں بھی آۓ
ہیں لیکن وہ اُن سوالات کا اِس ایک پرانے رَٹی رٹاۓ ہوۓ جواب کے سوا کوئی
اور جواب بھی نہیں دے پاۓ ہیں کہ وہ تو وہی کُچھ کر رھے ہیں جو کُچھ وہ
اپنے باپ دادا کو کرتے ہوۓ اور دیکھتے ہوۓ آۓ ہیں ، ابراھیم علیہ السلام نے
جب یہ جان لیا کہ اُن کے والد اُن کی بات سمجھ رھے ہیں تو آپ نے اپنے معروف
علمی و مَنطقی طریقے کے مطابق پہلے اُن سے یہ علمی و مَنطقی سوال کیا کہ
حاکم کا جو حُکم ہوتا ھے وہ حُکم یا تو اُس نے بذات خود انسان کو دیا ہوتا
ھے یا اپنے کسی نمائندے کے ذریعے انسان کو مُنتقل کیا ہوتا ھے اِس لیۓ اَب
یہ بات طے ھے کہ بتوں کی پُوجا پاٹ کا یہ حُکم آپ کے حاکم نے آپ کو بذاتِ
خود تو نہیں دیا ھے اور آپ کے یہ بُت آپ کے جس خیالی حاکم کے خیالی نمائندے
ہیں اُس حاکم کے بارے میں آپ نے کبھی اپنے کسی عمل کے بارے میں اِن بتوں سے
تو ضرور پُوچھا ہو گا کہ وہ عمل آپ نے کس طرح کرنا ھے اور کس طرح نہیں کرنا
ھے ، قُرآنِ کریم نے اٰیات بالا میں باپ بیٹے کے اُس مکالمے کی جو تفصیل
بیان کی اُس تفصیل سے معلوم ہوتا ھے کہ جس طرح ایک بُت بولنے سے عاجز ہوتا
ھے اسی طرح ابراھیم علیہ السلام کے والد بھی ابراھیم علیہ السلام کے اِس
سوال کا جواب دینے سے اسی طرح عاجز ہو گۓ تھے جس طرح اُن کے وہ بُت بولنے
سے عاجز تھے اور ابراھیم علیہ السلام کے والد نے بھی زبان سے کُچھ نہ بول
کر اپنے بتوں کے کُچھ نہ بولنے کی پیروی کی تھی جس سے یہ بات آزر پر پُوری
طرح واضح ہو گئی تھی اُس کے بناۓ ہوۓ یہ بُت سُنتے بھی نہیں ہیں اور بولتے
بھی نہیں ہی اور اُس کے جو بُت سننے اور بولنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں وہ
کسی کو کُچھ دینے اور کسی سے کُچھ لینے کی قُدرت بھی نہیں رکھتے ہیں اور
باپ بیٹے کے اِس مکالمے سے یہ بھی ثابت ہو گیا تھا کہ آزر بُت گر کے یہ بُت
ایسے بے اعتبار و بے اختیار بُت ہیں کہ جو کسی انسان کو کُچھ دینا تو کُجا
وہ بے جان و بے زبان بُت تو اپنے اُوپر آکر بیٹھنے والی ایک مَکھی کو بھی
اُڑانے یا اُڑنے کا حُکم دینے کی طاقت سے بھی محروم ہیں ، ابراھیم علیہ
السلام نے اپنی اِس دلیل اور اِس نتیجہِ دلیل کے بعد اپنے باپ کو توحید کی
جو دعوت دینے کا آغاز کیا تھا تو اُس دعوت کا نقطہِ آغاز بھی اپنے والد کے
بتوں کی اُس بے بسی کو بنا یا تھا جو اُن کے والد کو بھی اَب بخوبی نظر آنے
لگی تھی اور اسی لیۓ آپ نے فرمایا تھا کہ آپ کے یہ بُت جو آپ کے دوست ہیں
وہ میرے دُشمن ہیں اور جو میرا دوست ھے اور جس کا میں دوست ہوں وہ اِس جہان
کا خالق و مالک ھے اور میری جان کا بھی خالق و مالک ھے اور وہ ایسا خالق و
مالک ھے کہ جب میں بُھوکا ہوتا ہوں تو وہ مُجھے کھانا کھلاتا ھے ، جب میں
پیاسا ہوتا ہوں تو وہ مُجھے پانی پلاتا ھے ، جب میں بیمار ہوکر گرجاتا ہوں
تو وہ مُجھے شفا دے کر اُٹھاتا ھے اور میرا اپنے اُس خالق و مالک کے ساتھ
روزی روٹی اور صحت و بیماری کی حَد تک اپنی غرضِ زندگی کا تعلق ہی نہیں ھے
بلکہ زندگی کی ہر عرض و غرض کا تعلق ھے اِس لیۓ مُجھے یقین ھے کہ جب وہ
میری اِس زندگی پر موت وارد کرے گا تو اُس موت پر وہ زندگی بھی ضرور وارد
کرے گا جو ایک خوشیوں بھری زندگی ہو گی اور جو لوگ اپنی اِس زندگی میں اُس
رَب کے بجاۓ کسی بُت یا اپنے کسی پیر پنڈت یا اپنے کسی امامِ اَوہام کے
اَحکام مانیں گے تو وہ اُس خوشیوں بھری جنت کی خوشیوں سے محروم اور اُس
اذیت بھری جھنم کی اذیت کے مُستحق ہوں گے جس کا ماحول ایسا مُتعفن اور جس
کے دروازے اتنے تنگ ہوں گے کہ اُس جھنم کے جو جہنمی ہر کارے اُن نافرمان
لوگوں کو اُس جھنم دھکیلنے کے کام پر مامُور ہوں گے وہ ہرکارے بھی اُن
لوگوں کو اُن کے سیدھے قد کے ساتھ اُس جھنم میں داخل کرنے کے بجاۓ اُن کو
سر خم اور دُھرا کر کے اُس میں دھکیلیں گے ، اُن جہنمی لوگوں کو اُن کی اُس
جہنم میں دھکیلنے کے اُس عمل کے لیۓ متنِ اٰیت میں جمع مذکر غائب فعل ماضی
مَجہُول کا جو صیغہ"کبکبوا" آیا ھے وہ ھماری روز مرہ سماعت میں آنے والے
اُسی"کُبے" کا عرف ھے جس کو سلیس اُردو زبان میں"کُبڑا" کہا جاتا ھے ، اگر
اللہ کی اُس جھنم کا یہی ناک نقشہ ھے تو اِس کو بہتر طور سمجھنے اور عبرت
حاصل کرنے کے لۓ ہمیں اُن انسانی بستیوں کو دیکھنا ہو گا جو جہنمی بستیاں
اکثر انسانی آبادیوں میں موجُود ہوتی ہیں اور اُن لوگوں کو اُن جہنمی
بستیوں میں دھکیلنے والے جھنم کے وہ ہر کارے بھی اُن کے آس پاس ہی موجُود
ہوتے ہیں جو اِن پر ایک اَجنبی سی نظر ڈالے بغیر ہی آگے بڑھ جاتے ہیں ،
ابراھیم علیہ السلام نے توحید کی اِس تعلیم کے معاً بعد لَمحہِ موجُود کے
بعد اہلِ جنت کو ملنے والی جس جنت اور لَمحہِ موجُود کے بعد اہلِ جہنم کو
ملنے والی جس جہنم پر روشنی ڈالی ھے وہ جنت و جہنم ھماری دُنیا کے ھمارے
اَچھے یا بُرے اعمال کے اُس دُنیا میں مُتشکل ہونے والے ایک موہُوم سے خیال
کی محض ایک موہُوم سی مثال ھے جس کے بارے میں کسی کو بھی خیالی گھوڑے
دوڑانے کی ضرورت نہیں ھے ، قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا میں ابراھیم علیہ
السلام کی اُس دُعا کا بھی ذکر کیا ھے جو دُعا انہوں نے اپنے باپ کے لیۓ کی
ھے لیکن عُلماۓ روایت اپنی مجہول روایات کی بنا پر کسی بھی غیر مُسلم کے
لیۓ دُعا اور مُشابہ دُعا الفاظ کی اَدائگی سے منع کرتے ہیں مگر سوال یہ ھے
کہ اگر اللہ تعالٰی نے اپنے خلیل کو منع نہیں کیا ھے تو ھم یا یہ بخیل لوگ
کون ہوتے ہیں جو کسی بیٹے یا باپ کے کسی فطری جذبے کے تحت اُس کے دل سے نکل
کر لَب پر آنے والی دُعا کے بارے میں کوئی فتوٰی صادر کریں اور یہ جانتے
ہوۓ بھی فتوٰی صادر کریں کہ اُس دُعا نے اُن کی خواہش سے رَد یا قبول نہیں
ہونا ھے بلکہ اللہ تعالٰی کی مرضی و مصلحت سے رَد یا قبول ہونا ھے !!
|
|