لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں، دکھ دینے والے ، اذیت دینے والے.
تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا انسان گزرا ہو جس کو لوگوں کی باتوں نے دکھ نہ
دیا ہو-یہ روز ازل سے ہوتا آیا ہے اور روز ابد تک ہوتا رہے گا لیکن لوگوں
کے رویے کے بدلے میں خود برا ہوجانا نری حماقت اور جہالت ہے-
لوگوں کا رویہ ایک اژدھا کی طرح ہوتا ہے جو آپ کے پورے وجود، آپکے دماغ اور
آپ کے رویے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے-آپ کا خود پر کنٹرول نہیں رہتا اور
آپ وہی کرتے ہیں جو دوسروں کا رویہ آپ سے کروانا چاہتے ہیں-
اس اژدھا سے مقابلہ صرف اور صرف صبر کی تلوار سے ہی ممکن ہے،
صبر self -contol کا نام ہے ، یہ negativity سے بچنے کا نام ہے -
لوگ اپنے رویے سے آپ کے اندر negativity ڈالتے ہیں، آپ منفیت محسوس نہ کریں
، یہ صبر ہے- دوسروں کا رویہ ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے لیکن ہم خود کو
کنٹرول کر سکتے ہیں-
جب ہم دوسروں کے رویے کے منفی اثرات سے خود کو بچان میں کامیاب ہوجاتے ہیں
تو آہستہ آہستہ دوسروں کا رویہ غیر اہم ہو جاتا ہے-
صبر ، دعا اور تدبیر سے ہی انسان دوسروں کے شر سے بچ سکتا ہے-اس کے علاوہ
اور کوئی حل نہیں.
اور برداشت تو بلکل مت کریں، برداشت میں انسان اوپر سے خاموش اور اندر سے
جلتا کڑھتا رہتا ہے، او پھر ایک پریشر ککر کی طرح پھٹ پڑتا ہے-ایسے وقت میں
انسان کی ساری توجہ، اس کی ساری صلاحیتیں اسی ایک بات کے گرد گھوم رہی ہوتی
ہیں، یا تو وہ احساس کمتری کا شکار ہو کر ہر وقت دوسروں کو خوش کرنے میں
لگا رہتا ہے، اور خود کو اور اپنی ذات کو کھو دیتا ہے یا پھر دوسروں کے
ساتھ ان سے زیادہ برا کرنا شروع کر دیتا ہے-
|