یہ تو دو بچوں کی ماں ہے، کیا پاکستانی ڈراموں کے لیے کم عمر لڑکیاں ختم ہوگئی ہیں جو ان کو ہیروئين بنایا جا رہا ہے

image
 
ماضی میں پاکستانی فلموں کے عروج کے دور میں چند گنے چنے چہرے بطور ہیرو اور ہیروئين ہوتے تھے جو فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے اس وجہ سے فلم ساز ان لوگوں کے علاوہ کسی اور کو لینے کا رسک نہیں لیتا تھا۔ مگر اس کا نقصان یہ ہوتا تھا کہ محمد علی جیسے عمر رسیدہ انسان بھی ایک طالب علم کے کردار میں ماں کے پاس آکر کہتے تھے کہ ماں میں بی اے میں پاس ہو گیا- ماضی سے سبق سیکھنا ویسے تو سب ہی کے لیے ضروری ہوتا ہے مگر اب لگنے لگا ہے کہ یہ سبق پاکستان ٹیلی وژن کے ڈراموں کے پروڈيوسر اور ڈائیریکٹر حضرات کو بھی سیکھنا پڑے گا۔ حالیہ دنوں میں آن ائیر پیش کیے جانے والے ڈراموں کی کہانیاں جتنی بھی مختلف اور پاور فل ہوں، ان کے او ایس ٹی دلوں کو چھو جانے والے ہوں مگر ان تمام ڈراموں میں ایک قدر مشترک ضرور نظر آرہی ہے کہ ان تمام ڈراموں کے مرکزی کردار کرنے والے اداکار اور اداکارائيں بڑی عمر کے ہونے کے باوجود کالج گرل یا کم عمر افراد کا کردار ادا کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ایسے ہی کچھ ڈراموں کے بارے میں ہم آپ کو آج بتائيں گے-
 
ڈرامہ لاپتہ
اس ڈرامے کے مرکزی کرداروں میں سارہ خان، عائزہ خان اور علی رحمان نظرآرہے ہیں۔ ڈرامے کی دوسری قسط میں سارہ خان ایک منظر میں عائزہ خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ تمھیں تو میں نے اپنے سامنے فیڈر میں دودھ پیتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان کے اس جملے نے سننے والوں کو حیران کر دیا کہ اس ڈرامے میں دو بچوں کی ماں عائزہ خان اٹھلاتی بل کھاتی سولہ سالہ دوشیزہ کا کردار نبھا رہی ہیں ۔ جب کہ دوسری طرف علی رحمان ایک ایسے لڑکے کے کردار میں نظر آرہے ہیں جس نے اپنے والدین کو پڑھ کر نہیں دیا اور انہوں نے اپنے ناکارہ کم عمر بیٹے کو دکان کھول کر دے دی جس کو اس نے اپنی نا تجربہ کاری کی بنیاد پر نقصان میں برباد کر دی- کیا اس ڈرامے کے لیے پروڈیوسر کو گیتی اور شمس کے کردار کے لیے کوئی کم عمر لڑکی نہیں ملی تھی۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ڈرامے بھی اسی بھیڑ چال کا شکار نظر آنے لگے ہیں جس کے مطابق عائزہ خان کا ڈرامے میں ہونا ڈرامے کی کامیابی کا سبب ہو سکتا ہے- اس وجہ سے بھلے وہ اس رول کے لیے فٹ ہوں یا نہ ہوں ان کی شمولیت ضروری سمجھی جانے لگی ہے-
image
 
ڈرامہ ہم کہاں کے سچے تھے
یہ ڈرامہ عمیرہ احمد کے ناول سے ماخوذ ہے اس کو پڑھنے والے اس کے شدت سے منتظر تھے مگر جب اس ڈرامے کی کاسٹ میں مائرہ خان کا نام شامل ہو گیا تو اس انتطار کی شدت میں مزید اضافہ ہو گیا ۔۔ مائرہ خان اس ڈرامے میں مہرین کا کردار نبھا رہی ہیں جو کہ ایک ایسی طالبہ ہے جو کہ کالج جاتے ہوئے بس کی چھت پر بیٹھی نظر آتی ہے ۔ یہ کردار کم از کم عمر کی مناسبت سے مائرہ خان کے لیے نہیں تھا مگر ناظرین کی توجہ ڈرامے پر مرکوذ کرنے کے لیے اس ڈرامے کے لیے مائرہ خان کا انتخاب کیا جو ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں کہ ایک جذباتی کالج گرل کے طور پر نظر آئیں مگر دیکھنے والے یہ کیسے فراموش کر دیں کہ وہ ایک نوجوان بیٹے کی ماں بھی ہیں-
image
 
ڈرامہ پردیس
ڈرامہ پردیس کی مضبوط کہانی اگرچہ لوگوں کے دلوں پر اثر کر رہی ہے۔ اس ڈرامے کی کاسٹ ویسے تو بہت ہی سوچ بچار کر کی گئی ہے اور مرینہ خان کی ہدایت کاری نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے- مگر اس ڈرامے میں عباد کے کردار میں نظر آنے والےعفان وحید جو کہ ایک یونی ورسٹی اسٹودنٹ کے کردار میں نظر آرہے ہیں ۔ ان کو دیکھ کر ناظرین کو ایک بار پھر فلموں کے محمد علی یاد آگئے جو اپنی ماں کو بی اے میں پاس ہونے کی خوشخبری سناتے تھے۔ یہ کردار کسی نوجوان کو بھی دیا جا سکتا تھا- اس طرح بڑے ناموں کے ساتھ ڈرامے بنا کر ڈراموں کو تو کامیاب بنایا جا سکتا ہے مگر اس طرح نئے اور نوجوان اداکاروں کے ساتھ حق تلفی ہو رہی ہے جن کی جگہ پر بڑے ناموں کو کاسٹ کیا جا رہا ہے امید ہے کہ پروڈیوسر اس پر غور کریں گے-
image
YOU MAY ALSO LIKE: