لیوئزر کے فلسفۂ سائنس پڑھنے کے بعد کچھ وقت خاموشی طاری
ہوئی پھر سوچھا کہ کیا واقعی انسان ہمیشہ سے ذندہ ہے اور ذندہ رہے گا؟ یعنی
مذہب و دین سے ہمیں علم ملا ہے لیکن سائنس کی باریکیوں کو تاحال ہم سمجھنے
سے قاصر ہے۔
اس بات پہ کافی غور کرنے کے بعد بلاخر مادام کیوری تک رسائی ملی ان کے
مطابق مادہ ہی نہیں بلکی قوت یعنی (انرجی) بھی ذندہ ہے اور آنکھوں سے دور،
انرجی آیک چیز سے دوسری چیز میں منتقل ہوسکتی ہے اور یوں یہ وہاں ذندہ رہتی
ہے، یہی کچھ پوٹینشل اور کائنیٹل انرجی کے معاملے میں بھی ہے۔ آگر ہم خود
پہ سرچ کرئے یعنی فزیکس کے ساتھ بائوفزیکس کو ملائے تو تسلیم کر لینا چائیے
کہ ہمارے حرکات، جسمانی قوت اور یہاں تک کہ روحانی قوت بھی قائم ہے اور
قائم رہے گی، کوئی چیز مردہ نہیں سب کچھ ذندہ ہے،
آگر رومی دمشق کی گلیوں میں شمس کہا ہو شمس کہا ہو؟ کے نعرے لگا لگا کے
کہتا ہے کہ شمس کہی نہیں ہے میرے اندر ہے میں خود شمس ہوں تو یہ 'ٹرانسفر
اور سپریچول انرجی'
ہے یہی کچھ بغداد میں ہوا اور اسی کا اثر حلاج پہ ہوا،
آگر سوئی کو میگنڈ سے رگڑتے جاوگے تو سوئی بھی میگنڈ بن جائے گی یہی تو 'ٹرانسفر
اف انرجی ہے' پھر تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جسمِ فانی جب ختم ہوگی تو خالص
روح اسی 'ٹرانسفر اف انرجی' کی بدولت اصل مقام کی جانب گامزن ہوگی یعنی جس
چیز نے روح کو چھیڑا ہے یہ بس اسی میں منتقل ہوگی آچھے استاد میں بھی
ہوسکتی ہے اور جھوٹے پیر میں بھی، یہی فلسفہ ہے امر ہونے کا اور دربدر ہونے
کا جسے سائنس نے بہت حد تک تسلیم بھی کیا ہے۔ |