تاریخ کا گہوارہ بہاولپور کا نور محل، حیرت انگیز حقائق اور دلچسپ تصاویر

دن کی روشنی میں اُجلا اور نکھرا دکھائی دینے والا بہاول پور کا نور محل رات کی تاریکی میں بھی روشنیوں کا گہوارہ رہتا ہے۔ سابقہ ریاست بہاول پور کے شاندار ماضی کی عکاس یہ عمارت اب بہاولپور کی پہچان بن چکی ہے۔ اس محل سے جڑی روایات میں ہے کہ نواب محمد صادق خان عباسی چہارم نے اپنی اہلیہ نور جہاں کے لیے اس عمارت کی تعمیر کرائی تھی اور اس محل کو اُنہی کا نام دے دیا جب کہ دوسری جانب اس سے متعلق نواب صادق محمد خان عباسی پنجم کے پوتے صاحب زادہ محمد عثمان خان عباسی کا کہنا ہے کہ اُس دور میں تو نواب خاندان کی خواتین کا تقدس اس قدر زیادہ تھا کہ حرم سرا کے باہر کوئی اُن کا نام بھی نہیں لے سکتا تھا اور جب نواب گھرانے کی خواتین باہر نکلتی تھیں تو اُن کی سواری آتی دیکھ رعایا صرف اپنی آنکھیں نہیں جھکاتی تھی بلکہ اپنا منہ دوسری جانب پھیر لیتی تھی۔ تو ایسے ماحول میں ان کے بقول یہ مُمکن ہی نہیں کہ یہ محل کسی عورت کے نام سے منسوب کیا جاتا اور اُن کی کسی بیگم کا نام بھی نور نہیں تھا۔
 
image
سن 1878 میں تعمیر ہونے والا نور محل اب فوج کے زیر انتظام ہے اور ایک تاریخی عجائب گھر کا درجہ رکھتا ہے۔
 
image
نور محل باہر سے جتنا خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔ اس کا اندرونی حصہ بھی اُتنا ہی وسیع و کشادہ ہے۔
 
image
داخلی دروازے سے بائیں جانب دربار ہال ہے جس میں تمام ادوار کے نوابوں کا ذکر اُن کی تصویروں کے ذریعے دکھائی دیتا ہے۔
 
image
دربار ہال سے مُنسلک کمروں کو بہاول پور شہر کے سات دروازوں سے مماثلت دی گئی ہے جس میں سابقہ ریاست میں ہونے والے تمام ترقیاتی امور پوسٹروں کے ذریعے بیان کیے گئے ہیں۔
 
image
نواب صادق محمد خان عباسی پنجم کا اپنی رعایا کے لیے آخری پیغام بھی یہاں چسپاں ہے جس میں اُنہوں نے ریاست بہاول پور کے رہنے والوں کو پاکستان کے ساتھ وفادار رہنے کی تلقین کی تھی۔
 
image
ہفتہ وار صادق الاخبار بہاولپور کی کاپیاں بھی یہاں دیکھی جاسکتی ہیں۔
 
image
ریاست نے اپنا عدالتی اور فوجی نظام بھی تشکیل دے رکھا تھا۔ یہاں تصویریں اُس دور کا احوال بیان کرتی ہیں۔
 
image
نوابوں کی فوج کے زیر استعمال رہنے والے ہتھیار بھی یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔
 
image
بیڈ روم کے طور استعمال ہونے والے کمروں میں اُس دور میں استعمال ہونے والا فرنیچر بھی رکھا گیا ہے۔
 
image
قائداعظم کی جانب سے تحفے میں دیا گیا اسنوکر ٹیبل اور تماشائیوں کی کرسیوں کی نمائش کے لیے بھی ایک کمرہ مختص کیا گیا ہے۔
 
image
چولستان کی عورتیں زیادہ تر نتھ، مختلف اقسام کے ہار، لٹکن، جھمکے اور پازیب پہنتی ہیں۔ اس علاقے کے زیادہ تر زیورات شیشے، سونے، دھات اور جواہرات کے بنے ہوتے ہیں، جو اس عجائب گھر کا حصہ ہیں۔
 
image
محل کے باہر 1935 کی وہ گاڑی بھی رکھی گئی ہے جسے نواب صادق محمد خان عباسی پنجم نے اپنے سفر حج کے دوران استعمال کیا تھا۔
 
image
مغربی اور مشرقی تہہ خانہ بھی عوام کے لیے کھلا ہوتا ہے جس میں کچن، چمنیوں اور ڈائننگ رومز کی موجودگی کے آثار ملتے ہیں۔
 
image
تہہ خانے کی سیڑھیاں صادق گیلری کی طرف بھی جاتی تھیں، جنہیں بعد میں بند کردیا گیا۔
 
Partner Content: VOA Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: